محمد ذکوان ندوی تقریر یا تدبیر ملک و ملت کو درپیش ایک نازک بحرانی موقع پر بعض مقرر ین کا جذباتی بیان سن کر باربار یہ خیال آیا کہ کاش، ہمیں معلوم ہوتا کہ اب پرشور خطابت اور جذباتی قیادت کا وقت باقی نہیں رہا۔ اب یہ طریقہ مفید ِ مطلب ہونے کے بجاے صرف برعکس نتیجہ پیدا کرنے کا سبب ہوگا۔ آج کے بحرانی حالات میں ہمارے لکھنے اور بولنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مخلصانہ دعوت و تذکیر کے ساتھ، انسانیت کو موجودہ بحران سے نکلنے کا پریکٹکل لائحہئ عمل بتائیں۔ وہ مبہم تقریر و تحریر کے قدیم طریقے کو چھوڑکر، واضح اور متعین تدبیر کی طرف انسانیت کی عملی رہنمائی فرمائیں۔ وہ الفاظ کی شعبدہ بازی کے بجاے، خالص تدبیری(strategic) انداز میں بتائیں کہ اب اُسے کیا کرنا چاہیے۔ ازہر ِہند و پاک سے لے کر ازہر ِمصر و شام تک، پوری دنیا میں پھیلے ہوئے آن لائن و آف لائن جہابذہ و جامعات، ادارہ و مراکز اور اُن سے وابستہ محدث، مفسر، متکلم، مصنف، مبصر، فقیہ،دانش ور، علامہ، مجمع البحرین، حکیم الاسلام، مفکر ِاسلام، قائد ِ ملت اور شیخ الاسلام جیسے عظیم ’مذہبی‘ اور قائدانہ مقام پر بلا شرکت ِ غیرے اپنے آپ کو فائز بتاکرملک و ملت سے اُس کا بھاری خراج وصول کرنے والے ’مذہبی‘ اور سیاسی قائدین کوچاہیے کہ انسانیت کو درپیش اِن نازک معاملات کو اگر عملاً وہ اپنے میدان سے باہر کی چیز سمجھتے ہیں، تو اپنے وسیع رسوخ اور وسائل کو استعمال کرتے ہوئے متعلق ماہرین کی ایک مخلص ٹیم کے تعاون سے وہ اِن معاملات کی اصل حقیقت کا تجزیہ و تحقیق کر کے انسانیت کو فکری التباس سے نکالیں اور خالص تدبیری انداز میں بتائیں کہ مثلاً موجودہ وبائی بحران کی حقیقت اور اُس سے مقابلہ کرنے کاعملی طریقہ کیا ہے؟ سخت بے روزگاری، صنفی انارکی، ازدواجی بحران، ماحولیاتی آلودگی، موسمی تبدیلی، گلوبل وارمنگ، منشیات کا سرطانی پھیلاؤ اور اشیاے خور و نوش کو مہلک کیمیائی فساد سے بچاکر پاکیزہ اور صحت بخش بنانے کا عملی حل کیا ہے؟ موبائل ایڈکشن، سوشل میڈیا سنامی، حقیقی دنیاکے بجاے مفروضہ دنیا (virtual world) کا چیلنج جس نے اصل معرکہئ حیات سے الگ کرکے آج کے ’ترقی یافتہ‘آدمی کو غیر آدمی (dehumanised) بناکر رکھ دیا ہے، نیز حقیقی زندگی (real life) کے بجاے فرضی زندگی(reel life)کے عظیم بحران کا چیلنج، وغیرہ۔ کیا انسانیت کو درپیش اِن نازک اور مہیب چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی حقیقی اور قابلِ عمل پروگرام موجود ہے؟ اگر ہے تو ہم کو چاہیے کہ ہر طرح کی تفریق اور تعصب سے بلند ہوکر ہم ملکی اور عالمی سطح پر ایک متحدہ پلیٹ فارم کے تحت پوری سنجیدگی کے ساتھ اجتماعی طورپر اپنا یہ حل بالکل واضح طورپردنیا کے سامنے پیش کریں۔ بحران کا لمحہ عملی پروگرام کا متقاضی ہے، نہ کہ محض زبانی بیانات کا۔ بحران کے مرحلے میں اِس قسم کی تقریریں خطیب کے لیے تو مفید ہوسکتی ہیں، مگر مخاطبین کے لیے نہیں۔ مخاطبین کی نسبت سے جو کچھ ہوگا، وہ صرف یہ کہ وہ اِن قائدین کے ”ویورز“ (viewers) اور مخلص ناظرین میں قارونی اضافہ کرنے کے باوجود واضح اور مطلوب رہنمائی کے اعتبار سے، بدستور مفلس بنے رہیں گے۔افسوس کہ ہمارے یہاں سب کچھ ہے،مگر نظم نہیں۔ یہاں ایسے بے شمار ادارے موجود ہیں جو عملاً ’مؤسّسۃ المشاریع‘ کی حیثیت سے سرگرم نظر آتے ہیں،مگرتمام تر’وسائل‘کے باوجود محض اِن کی مادّی ترقی کے سوا، عملاً کہیں اِن ’مشاریع‘ (projects) کا کوئی سنجیدہ اور مخلصانہ نمونہ دکھائی نہیں دیتا۔ ایسی حالت میں ضروری ہے کہ آج کا انسان کردار کے غازی اور اسٹیج کے غازیوں میں فرق کرے۔ وہ سچی قیادت اور جھوٹی لیڈری کے فرق کو سمجھے۔وہ زمین کے قائد اور اسکرین کے قائد کو پہچانے۔جتنی جلد وہ اِس بصیرت کا ثبوت دے سکے، اتنی ہی جلدان شاء اللہ وہ قیادت کے اِس بحران سے نکل کر اپنے لیے خود راہِ عمل طے کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ دورِ آخر میں برپا یہی وہ سنگین صورتِ حال ہے جس کے متعلق ارشاد ہواہے کہ اُس وقت ’فُقَہاء‘ (زمانی اور ربانی بصیرت کے سچے حاملین) کم اور ’خُطَباء‘ (زمانی اور ربانی بصیرت سے محروم واعظین) بہت زیادہ بڑھ جائیں گے: ’وَسَیأتيْ مِنْ بَعدِکم زَمانٌ قلیلٌ فُقَہاؤُہُ،کثیرٌ خُطَباؤُہُ‘ (صحیح الا دب المفرد: ۶۰۵)۔ عجیب بات ہے کہ جو لوگ رات دن یہ کہنے سے نہیں تھکتے کہ ”ہمارے تمام مسائل کا حل خدا کی کتاب اور رسول کی سیرت میں موجود ہے“ آخر وہی لوگ خطابت کے بجاے،اِن بحرانی حالات میں انسانیت کو واضح انداز میں یہ موجود ”حل“متعین طور پر کیوں نہیں بتا دیتے!؟ راقم نے ایک بار مربی و مرشدی مولانا سید ابوالحسن علی ندوی سے عرض کیا تھا کہ متعین رہنمائی کے بجاے مبہم رہنمائی کا طریقہ ہمارے ہاں کیوں رائج ہے؟ یہ گویا ویسا ہی ایک ناقابلِ فہم معاملہ ہوگا، جیسے ایک ماہر طبیب کسی مریض کے لیے متعین نسخہ شفاتجویز کرنے کے بجاے اُس کے سامنے تقریر کرتے ہوئے لاحاصل طور پر کہے کہ -تمھاری تمام بیماریوں کا علاج دوا میں موجود ہے۔ اِس قسم کا طریقہ اختیار کرنا نہ صرف یہ کہ کسی طبیب اور قائد کے لیے بالکل نا موزوں ہے، بلکہ یہ اُن کے حق میں اِزالہئ حیثیت ِ عرفی کے ہم معنی ہوگا۔یہ صرف اِس بات کا ثبوت ہے کہ ایسا شخص ’عالم‘ نہیں، بلکہ صرف ایک عوامی ’خطیب‘ہے، اور ظاہر ہے کہ قیادت کا نازک فریضہ ایک ذی علم و صاحب ِ بصیرت انسان ہی ادا کرسکتا ہے، نہ کہ محض اسٹیج کا کوئی خطیب۔مولانا نے راقم کی بات سن کر فرمایا: اِس صورت ِ حال کا سبب حقیقی علم اور سچے اخلاص کا فقدان ہے، جسے آج ہر طرف دیکھا جاسکتا ہے۔ [لکھنؤ، ۰۲ / جنوری ۲۰۲۲ء]
@mohammadzakwan7005 Жыл бұрын
بہت خوب۔۔۔ مگر اِس چشم کشا اور دردمندانہ خطاب کے باوجود اِس اصل سوال کا متعین جواب پھر بھی علی حالہ باقی ہے کہ اِس “نظام دجل وفریب کو الٹے کا” پریکٹکل لائحۂ عمل کیا ہوگا؟ براہ کرم، اِس پر متعین رہنمائی فرمائیں۔ محمدذکوان ندوی
@Imranhind5 Жыл бұрын
kzbin.info/www/bejne/fYCxfmRvrtNpj7c
@akmalajdani7970 Жыл бұрын
❤❤❤❤❤❤Very nice
@UzainShaikh-vj4co Жыл бұрын
Wow very nice,😊😊
@troytomohenjodaro Жыл бұрын
He is the Embassador of peace ❤
@Tawhid-d6e Жыл бұрын
একটু ধীরে বলা যায় না
@Mz.Ansari_channel Жыл бұрын
Molana Mohammed Miya Sahab
@Mz.Ansari_channel Жыл бұрын
youtube.com/@Dqdarsequran
@maktabzahra2552 Жыл бұрын
Mashallah Allah Umar me barkat ata farmaye
@nalinbhanvadiya4297 Жыл бұрын
Great speech 🎉
@SalmanShaikh-vk5il Жыл бұрын
😢😢😢😢 tume khud pata nhi tum kya padh rhi ho aksar dil se nhi padh rhe 😢