یہ چار سال پرانی ہے ۔ جب اسلام آباد میں بھوک ہڑتالی کیمپ لگا تھا ۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب اور ان کے ساتھ علامہ حسن ظفر نقوی صاحب بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے۔ اس بھوک ہڑتالی کیمپ کو جوش و جذبہ سے آگے بڑھانے میں آغا حسن ظفر نقوی کا بہت بڑا ہاتھ تھا ۔ روزانہ کے دوسرے پروگراموں کے علاوہ آغا حسن ظفر ہر روز نوحہ خوانی خود کرتے تھے اور ماتم داری کرواتے تھے ۔ میں پوری تحریک میں وہاں موجود تھا۔ اور اس وقت بھی موجود تھا جب یہ مجاھد عالم بھوک ہڑتال کے 68 ویں دن سخت بارش کے دوران بالآخر بے ہوش ہو کر گر پڑا، جب ہسپتال لے کر گئے تو حالت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ آغا صاحب کو CCU میں داخل کیا گیا۔ وہاں ہم سب کو معلوم ہوا کہ آغا حسن ظفر دل کے مریض ہیں اور انھیں کئ انسٹنٹ پڑے ہوے ہیں ۔ 3 دن تک CCU میں رہنے کے بعد حالت بہتر ہوی تو پرائیوٹ وارڈ میں شفٹ کیا گیا ۔ آغا صاحب کے گھر والے بھی کراچی سے آگئے تھے ۔ لیکن یہ مجاھد واپس کراچی جانے پر تیار نہ تھا ۔ یہاں تک ک علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب نے آغا حسن ظفر کو قسمیں دے کر واپس کراچی جانے پر تیار کیا، اور کراچی پہنچ کر بھی آغا صاحب تقریبا ایک ماہ تک زیر علاج رہے۔ اور اس طرح وفاداری اور جانثاری کا ایک اور باب رقم ہوا۔ سب بھول جاتے ہیں مگر کچھ لوگ اپنے ان مجاھد علماء کی قربانیوں کو یاد رکھتے ہیں ۔ اور اس وقت دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے جب کچھ نادان اور بے خبر لوگ ایسے مخلص اور مجاھد علماء کے لئے ناگوار گفتگو کرتے ہیں ۔ اللہ ہمیں ایسے جانباز علماء کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
@fakeerhussain28554 жыл бұрын
آپ نے تاریخی کلپ شیئر کی ہے۔ میں پہلے بھی اس پر کمنٹس کر چکا ہوں ۔ اور اب بھی موقع ملتے ہی پھر دیکھتا ہوں ۔ پلیز اگر آپ آغا صاحب کے کچھ اور نوحوں کی کلپس شیئر کر سکیں تو بہت شکر گزار ہوں گے ۔
@sarwarzaidi61084 жыл бұрын
اسلام آباد میں 4 سال پہلے لگنے والے اس بھوک ہڑتالی کیمپ میں میں سارا وقت تو نہیں رہا ہاں ملتان سے 3 ، 4 مرتبہ ضرور آیا گیا۔ انسان دور رہ کر بہت کچھ سنتا ہے اور سنی سنائ باتوں سے نہ جانے کیا کیا نتائج نکال کر بیٹھ جاتا ہے ۔ یہی میرا بھی حال تھا ۔ لیکن جب میں نے اسلام آباد جا کر قریب سے ان علماء خاص طور پر راجہ ناصر عباس اور آغا حسن ظفر نقوی کو دیکھا تو مجھے مجاھد اور سرفروش علماء کا مفہوم سمجھ میں آیا ۔ آغا حسن ظفر بیمار ہونے کے باوجود ہمت اور ولولے کے ساتھ کیمپ کو لے کر چل رہے تھے اور وہاں میں نے یہ بھی مشاھدہ کیا کہ راجہ صاحب سے بات کرو تو وہ آغا حسن ظفر کے لئے پریشان نظر آتے تھے اور جب آغا حسن ظفر سے بات کی جاتی تھی تو وہ راجہ صاحب کی صحت کی طرف سے سخت پریشانی کا اظہار کرتے نظر آتے تھے ۔ وہ کیمپ ختم ہوگیا ۔ باتیں بنانے والے باتیں بناتے رہیں گے، مگر مجھ جیسے عام شیعہ کو جو حوصلہ ان مجاھدوں کو دیکھ کر ملا ۔ وہ ہمارے اس یقین میں اضافے کا باعث بن گیا کہ حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہو جائیں کسی نہ کسی کی شکل و صورت میں امید کی کرن موجود رہتی ہے ۔