واہ کیا بات ہے اللہ پاک مولانا خان محمد قادری صاحب کو سلامت رکھے اور خطابت کا انداز ماشاء اللہ
@abdulraees64765 жыл бұрын
واہ ماشاءاللہ مفتی خان محمد قادری صاحب
@Zulqarnain20005 жыл бұрын
جزاک اللہ خیرا اللہ پاک خان محمد قادری صاحب کو سلامت رکھے اور ان کے لب و لہجہ میں مزید تاثیر عطا فرمائے آمین ثم آمین
@raeesurrehman14225 жыл бұрын
ALLAH pak Khan Muhammad Qadre sb ko lambi umar atta farmay ameeeeeeeeeeeeen
@MRehan-yc7ki4 жыл бұрын
Khan sab mashallah
@MUHAMMADASIF-zb2pu5 жыл бұрын
MashAllah
@MUHAMMADASIF-zb2pu4 жыл бұрын
Great
@azeemhussain36025 жыл бұрын
Mashallah
@muhammadshafiqmuhammadshaf98235 жыл бұрын
Subhan ALLAHA
@farhanshekh155 жыл бұрын
Allah hu akbar 😢😢😢
@mokhursheed94705 жыл бұрын
ماشاءللہ
@shahidgujjarshahidgujjar43614 жыл бұрын
Mashallha g subhanallha
@mrsfaisal86325 жыл бұрын
Heart touching
@abdulraees64765 жыл бұрын
ماشاءاللہ
@touseefulrahman91835 жыл бұрын
Subhanallha 🕋mashallah 💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖 💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝
@HafizShanAhmad5 жыл бұрын
Masha allah
@muhammadtahirhazarvi67204 жыл бұрын
Boht khoob h mashallah
@بولسرائیکیبول5 жыл бұрын
پیارے بھائیو علامہ خان قادری صاحب کی اگر تمام تقاریر کا لنک ہے تو بھیجو یا اپلوڈ کرو پلیز
@abdulraees64764 жыл бұрын
ضرور پڑھیے۔۔۔۔۔۔۔...(Kashmir Dispute) شبنم کی جگہ پھول کےمکھڑے پہ لہو ھے۔ فیض احمد فیض نےکہا تھا۔ "وہ نہر خوں جو میری صدا ھے" یہ خون کی ندیوں کی فضاء بسیط میں ارتعاش صدا دراصل اکتالیس ھزار تین سوبیالیس(41342)مربع میل پرمحیط مقبوضہ ریاست جموں کشمیر کی صداھے۔ایسی صدا جو فقط "صداےبازگشت"ھےدنیا کےمنصفوں کےبہرےکانوں سےٹکرا کراپنےآپکو سنائی دیتی ھے۔جس کےآنگن میں درد وکرب کی پیوند کاری ھے۔جس کی بغل سے بارود کی بو آتی ھے۔جس کی وادی پر شبنم کی جگہ پھول کےمکھڑے پربھی لہو ھے۔جس کے گلے میں غلامی کاطوق ھے۔ایسی سرزمین جوعالم گیرحسن وجمال کا خلاصہ ھے۔جس کے صفحہ قرطاس پر باغ وچمن کی،راعنائیاں،نباتات کی صورت آرائیاں،پھولوں کی عطر بیزی،،پرندوں کی نغمہ سنجی،صبح کاچہرہ خنداں اور شام کاجلوہ محجوب ھےاور جس کی خاک کشمیرمیں آتش چنارھے۔دراصل کائنات ہستی کا مایہ خمیرہی حسن وزیبائی ھےاور اس کا عکس میری دھرتی ماں "کشمیر"ھے۔اگر تم پیانو کی بھاری کنجیوں میں سےکوئی ایک کنجی ھی بجانےلگو تو یہ نغمہ کی سریلی آواز نہیں،درد و شکوہ کی کرخت آواز کا بہرےکانوں،منافقوں کےسامنے فقط "آزادی" کاشور و غوغاھے۔اس دھرتی کا فقط ایک قصور ھے کہ یہ مسلمانوں کی سرزمین ھے۔اگر یہ عسائیوں کامشرقی تیمور ھوتا تواس کی آنکھوں کو آزادی کا کاجل کب کا لگ چکاھوتا۔اس لیے جب شہید ملت مقبول بٹ شہید، برہانی وانی،ریاض نائیکو،ذاکر رشیدبٹ،افضل گرو،جیسےھزاروں لوگ آبرو وطن ،حق حاکمیت کےلیےبندوق اٹھاتےھیں تو وادی کی فضائیں مغموم اور ھوائیں مسموم ھو جاتی ھیں۔ماوں کےدیدےنمناک ھوجاتےھیں۔سوپور کےبشیر کو جب ننھےنواسےکےسامنے شہیدکردیاجاتاھے تو دھرتی ماں کےلالہ زاروں کاتبسم روٹھ جاتاھے۔قدوس وقزح کی رنگینیوں پر مہیب بادل چھا جاتے ھیں،چاندنی کانکھار مانند پڑجاتابے۔دیدےنمناک ھوجاتےھیں۔گلمرگ،ٹنگمرگ،سونامرگ،وادی لولاب کےگلستانوں کی مسکراہٹ روٹھ جاتی ھے۔ اس دھرتی کا شکوہ ان حیوانی جبلت والی قوم سے نہیں جو ماننےپرآے تو گاے کو "بندےماترم"گاے کو خدا مان لے اور انکار کرنےپر پر آے تو مسیح کی سولی پر چڑھا دے۔اس کا شکوہ ان عیش وطرب کےدلدادہ مسلم حکمرانوں سےھے جو خون کی ندیوں اور "مذمت و مسترد"کو ایک ترازو میں تول کر آزادی کی سحر طلوع ھونےمیں رکاوٹ ھیں۔جو اتنےمردہ ضمیر ھیں کہ ھندو بنیے کی فطرت سے آگاہی کے باوجود مینڈھے سے جوےشیرکشید کرنا چاھتے ھیں۔ کشمیر دنیامیں اکلوتاایسا خطہ ھے جسکی مہار دو رقیبوں پاکستان اور بھارت کےدرمیان ھے اور اصل فریق گمنام ھے۔دونوں فریقین کےمابین ڈیڑھ کروڑ باشندوں کی حق حاکمیت اور آزادی کا تنازعہ نہیں بلکہ قطعہ زمین اور اسکےوسائل اور دفاعی حصار کا تنازعہ ھے۔جب کا دھرتی کا اصل قضیہ "حق حاکمیت اور آزادی"کاھے۔ جتنا نقصان آرٹیکل 370،35Aکی تنسخ سےھوا اس سے کہیں زیادہ ھماری نحیف ونزار وکالت،شملہ معاہدہ،معاہدہ تاشقندہ،چناب فارمولا کےآپشن،جہاد سے روگردانی نےکاری ضرب لگا کرکیا۔ وقت کرتاھے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ھوتا۔ مسئلہ کشمیر کبھی ھماری سرکار کی ترجیح اول نہیں رہاھے۔اقوام متحدہ پر جب بھی بحث ھوئی تو فقط ضمنی پوائنٹ کے طور پر ھوئی۔شملہ معائدہ بھٹو مرحوم اور اندراگاندھی کےدرمیان ھوا جسمیں انتہائی چالاکی سے مسئلہ کشمیر کو عالمی فورم سے سمیٹ کردو ملکوں کےمابین اندرونی مسئلہ قرار دے کر اس کےشعلہ وجود بدن کی دکھتی وپھڑکتی رگ کاٹ دیا۔ اور ھمیں بھٹو صاحب کا فقط ایک جملہ"ھزار سال تک لڑنے"کا طوطے کی طرح رٹاھوا یادھے۔ریاست کی دونوں طرف کی قیادت نے ھمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کی، کشمیر کو بزنس پوائنٹ سکورنگ کےلیےاستعمال کیا۔اگر ھماری آزادی کا نصاب"مقبول بٹ شہید"کانصاب ھوتا تو شاہد جو خون کی ھولی کھیلی جارھی ھے تو"یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ھوا" کا مصداق نہ بنتا۔اگر فریق اصل گمنام نہ ھوتا تو شبنم کی جگہ پھول کےمکھڑےپر لہو اتنا نہ ھوتا،خون کی ندیاں زعفران کی مشک والی زمین آنسو آنسو نہ ھوتی۔ اگر ھماری خاک کےضمیر میں آتش چنار بھڑک اٹھے۔ایمان کاجوھر رزم حق وباطل کانقطہ مابہ الامتیاز بن جاے تو ظلم کےمقابل ھماری آواز عصاےموسی بن جاےگی،درہ فاروقی کا روپ دھاےلےگی،خالدبن ولید کا جنون بن جاےگی۔تو پھر عربی کےاس شعر کا مظہر اتم بن جائیں گےکہ؛ اذا اراد الشعب یوما اراد الحیاة فلابدان یسجیب القدر ولابد للیل ان ینجلی ولابد للقیدان ینکسر۔ "جب قوم کسی روز (آذادی کی) زندگی کاارادہ کرلے تو تقدیر کےپاس قبول کرنےسواکوئی چارہ نہیں رھتا، شب(غلامی کی شب)کےزائل ھوجانےکےسوا کوئی چارہ نہیں ہوتا اور زنجیروں کےپاس ٹوٹ جانے کےسوا کوئی چارہ نہیں ھوتا"۔ منافقت کےبطن سےآزادی کاعرق کشید کرتےرھے تو آخری کشمیری کی موت کےوقت بھی تین لفظ"مذمت،مسترد،مذکرات "سمع خراشی کریں گے تب کشمیر کی نوآبادیاتی ڈیموگرافی پنجے گاڑ چکی ھوگی۔۔۔۔۔خدا جانےمحرم راز درون مےخانہ کیا ھورہاھے۔۔۔۔میرے منہ میں خاک۔۔۔۔ چھ جولائی دو ہزار بیس