دل جگر تشنہ فریاد آیا پھر مجھے تیرا کوچہ یاد آیا دم لیا نہ تھا قیامت نے ہنوز پھر مجھے اپنا رخصت سفر یاد آیا سنگ اٹھایا تھا مجنوں پہ لڑکھپن میں اے میر کہ اب مجھے اپنا سر یاد آ یا دل جگر تشنہ فریاد آیا طارق عزیز کی عنایت ہے سب انکی صحبت کا اثر تھا اب بھی ہے اور ھمیشہ رہے گا