دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنؤ کی جھلکیں اور اساتذہ کرام کی تصاویر مع ترانہ ندوۃالعلماء

  Рет қаралды 119,542

ISLAMIC STUDIO all in one

ISLAMIC STUDIO all in one

3 жыл бұрын

Пікірлер: 129
@user-kp5cj5br2c
@user-kp5cj5br2c Ай бұрын
اللہ تعالیٰ اس کی شان اوچ کریں
@IrfaneRabbani
@IrfaneRabbani 5 ай бұрын
ماشاءاللہ بہت عمدہ انداز
@mohdnoman2120
@mohdnoman2120 7 сағат бұрын
ماشاءاللہ
@mdinzy6551
@mdinzy6551 Жыл бұрын
الحمد لله اس ناچیز کو بھی ترانہ ندوه پڑھنے کا فخر حاصل ہو چکا ہے ما شاء اللّٰہ
@mohammadazam448
@mohammadazam448 Жыл бұрын
الحمداللہ پرانی یادیں تازہ ہوگئیں، اللہ تعالی ہمارے اساتذہ کرام کی عمروں میں برکت عطا فرمائے اور نظر بد سے بچائے، اور جو اساتذہ کرام خداوند کریم کی بارگاہ میں پہنچ چکے ہیں اللہ رب العزت ان سب کے درجات کو بلند عطا فرمائے،
@AbdulRahman-wb3nk
@AbdulRahman-wb3nk Жыл бұрын
ماشاء اللہ بہت ہی عمدہ کلام ہے، اللہ تعالٰی تمام مدارس اسلامیہ کو ہر قسم کے شرور وفتن سے محفوظ رکھے ۔آمین
@user-kp5cj5br2c
@user-kp5cj5br2c Ай бұрын
ماشاءاللہ ❤❤
@payam_e_insaniyatasansolmk2327
@payam_e_insaniyatasansolmk2327 2 жыл бұрын
ماشاءاللہ بہت عمدہ کلیکشن ہے تھوڑی اور محنت کی ضرورت ہے۔ بعض جگہوں پر اردو کی املا غلط دیکھ کر دکھ ہوا۔ جیسے: ھمزہ حسنی x حمزہ ✓
@mohdmoin4107
@mohdmoin4107 3 жыл бұрын
ماشاللہ ندوۃالعلماء کی یاد تازہ کردی اس نظم نے
@tahirashraf2407
@tahirashraf2407 Жыл бұрын
Allah tamam ummate muslima ke ulma ki qurbani ko kabol fermaker unki umer mein izafa fermaker ummate muslima ko ziyada se ziyada mustafiz fermaye.our unki Rahebri mein chalne ki Taufique atta fermaye. Ameen
@Gk_of_islam143
@Gk_of_islam143 Жыл бұрын
Maa Shaa Allah Purani yaadien aur batien gardish karne lagii🤗🤗🤗 Mujhe bahot Khushi hoti hai ki is Azeem idare Nadwatul Ulema me padhne ka sharff hasil huwaa ❣❣❣ Allah tera Shukrr haii 🤲🏻🤲🏻🤲🏻
@KALEEMDANISHNADWI
@KALEEMDANISHNADWI Жыл бұрын
میرے لئے باعث فخر ہیکہ مجھ گنہگار کی آواز میں یہ ترانہ ریکارڈ ہوا کلیم دانش ندوی ( الہ آبادی )
@abdulbaqui2020
@abdulbaqui2020 11 ай бұрын
ماشاء اللہ
@abdulbaqui2020
@abdulbaqui2020 11 ай бұрын
کس سنہ میں؟
@wasimjawhar93
@wasimjawhar93 11 ай бұрын
Jab mere bade bhai Nadwa m padhte the tab main ek martaba gaya tha wahan aur mujhe itna sukoon mila tha ki main bata nahi skta, aaj jab Nadwe ki yaad aayi to ye tarana sun,ne laga aur mere ankh m aansu aa gye 😢 Kash mujhe v Nadwa me padhne ka sharf hasil hota 🤲
@furqanahmad4945
@furqanahmad4945 7 ай бұрын
اللہ تعالٰی تمام مدارس اسلامیہ کو ہر قسم کے شرور وفتن سے محفوظ رکھے ۔آمین
@MoulanaIrfanNadwi
@MoulanaIrfanNadwi Жыл бұрын
جزاك الله خيرا بھائی آپ نے یادوں کو تازگی بخشی
@farheensaleem495
@farheensaleem495 Жыл бұрын
Subhan Allah. Tarane ka ek ek lafz dil ko chhu lene wala hai.
@AzharnizamiAzharnizami
@AzharnizamiAzharnizami 7 ай бұрын
ماشاءاللہ بہت خوبصورت ❤
@tariqjamil9898
@tariqjamil9898 Жыл бұрын
Allah tamam ulamaye Kiram ki magfirat farmaye
@NomaniChannel
@NomaniChannel Жыл бұрын
ماشاءاللہ دل خوش ہوگیا
@nasarkhan3386
@nasarkhan3386 2 жыл бұрын
ماشاءاللہ بہت خوبصورت منظر سلام ذندہ باد
@talibpremy9696
@talibpremy9696 4 ай бұрын
❤❤❤
@ashrafashraf3410
@ashrafashraf3410 Жыл бұрын
ماشاءاللہ بہت خوب
@abdulmalikbanadar2841
@abdulmalikbanadar2841 2 жыл бұрын
ماشاءاللہ بہت خوب.
@Abdullah-qt6dr
@Abdullah-qt6dr Жыл бұрын
مولانا عبد الرشید صاحب راجستھانی؟
@ashfaqueansari2975
@ashfaqueansari2975 3 жыл бұрын
ماشاء اللّـه
@saquibhashmi3167
@saquibhashmi3167 2 жыл бұрын
مولانا کلیم صدیقی اور خلیل الرحمٰن سجّاد نعمانی صاحب کو بھی ایڈ کرنا چاہیے تھا
@abdulkasim5930
@abdulkasim5930 Жыл бұрын
‌ماشا‌ءاللہ‌۔
@NomaniChannel
@NomaniChannel Жыл бұрын
مولانا رحمت اللہ ندوی اب استاذ نہیں رہےکیا
@mdislamsalmanimdislamsalma3287
@mdislamsalmanimdislamsalma3287 Жыл бұрын
Masha Allah
@abdulrahmanibrahim5063
@abdulrahmanibrahim5063 2 жыл бұрын
ماشاء اللہ
@hasuhelmashaallah1027
@hasuhelmashaallah1027 Жыл бұрын
Mashaallah
@tayyabkhan5076
@tayyabkhan5076 2 жыл бұрын
Mashaallah subhanallah Alhamdulillah
@mohdmoin4107
@mohdmoin4107 3 жыл бұрын
ماشاللہ بہت خوب مناظر ھیں
@shakeebahmad3957
@shakeebahmad3957 Жыл бұрын
MashaAllah 😍
@mohammadnajeebkhan5170
@mohammadnajeebkhan5170 Жыл бұрын
Mashallah
@nidaesafa9117
@nidaesafa9117 2 жыл бұрын
ماشاءاللہ بہت خوب۔۔۔ لیکن بعض اساتذہ کی اتنی خراب تصویر لگائی ہیں ایسا لگتا ہے کسی میوزیم سے نکال کر لائی گئیں ہیں آزادی سے پہلے کی 🤣
@user-pg7pk3it9g
@user-pg7pk3it9g 2 жыл бұрын
مولانا حمزہ صاحب ایسے لکھا جاتا ہے ھمزہ نہیں لکھا جاتا ہے
@muzaffarimam448
@muzaffarimam448 2 жыл бұрын
علامہ تقی الدین صاحب کے ساتھ نعوة العلماء ؟
@hasanmohd1374
@hasanmohd1374 2 жыл бұрын
Kya molana emran khan nadvi azhari ko bhul gey app ??
@abdurrahmansanabili6231
@abdurrahmansanabili6231 2 жыл бұрын
استاذ العلماء استاذ الادب مولانا عبد النور عظیم ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا یعقوب ندوي حفظہ اللہ کے نام کہیں عصبیت کی نظر تو نہیں ہو گئے
@sirajpatel5669
@sirajpatel5669 Жыл бұрын
Agr asbiyyat hoti to ger muqallidin ko ndve me jgh hi nhi milti. Kya slafiyo ke kisi madarse me kisi devbndi ko rakhte ho.? Asbiyyat ke putle to tum ho babu lal.
@shamsuddinnadwi7923
@shamsuddinnadwi7923 Жыл бұрын
نذر
@KALEEMDANISHNADWI
@KALEEMDANISHNADWI Жыл бұрын
ماشاء اللہ بھائ پڑھنے والے کا بھی نام ایڈ کر دو😊
@KamranAshrafKa
@KamranAshrafKa 2 жыл бұрын
بھائی ھمزہ نہیں ،حمزہ ہوتا ہے،مولانا حمزہ حسنی ندوی درست کرلو
@shafiullahansari7460
@shafiullahansari7460 Жыл бұрын
استاذ الادب و التفسیرحضرت مولانا محمد وثیق ندوی صاحب کی تصویر نہیں ہے
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 2 жыл бұрын
رمضان خیر و برکت کا مہینہ اللہ جل شانہ کی اپنے بندوں کے لیے نعمتوں اور رحمتوں کا شمار ممکن نہیں ۔ اللہ تعالی کی ان نعمتوں میں ماہ رمضان المبارک کو ایک منفرد مقام و حیثیت حاصل ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا انتظار رہتا تھا اور اور آپ (ص) اس کا بضد ذوق و شوق استقبال فرمایا کرتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب چاند دیکھتے تو اللہ تعالی سے دعا فرماتے " اے اللہ ہمارے رجب و شعبان کو ہمارے لیے مبارک کر اور رمضان تک ہمیں پہنچا دے ۔ جب ماہ شعبان کی ابتدا ہوتی تو آپ (ص) کثرت سے روزے رکھنا شروع کردیتے تھے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ " حضور پاک رمضان المبارک کے علاوہ تمام مہینوں سے زیادہ روزے صرف شعبان میں رکھتے تھے بلکہ کبھی تو پورا ماہ روزوں میں گزارتے تھے " ۔ در اصل روزہ میں جسمانی اور مادی کثافتوں سے دور رہنے اور روحانی لطافتوں کے حاصل کرنے کا خاص موقع ملتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : " تمہارے پاس رمضان کا مبارک مہینہ آیا ہے جس کے روزے تمہارے اوپر فرض کیے گئے ۔ اس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں نیز سرکش شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں " ۔ جیساکہ مندرجہ بالا تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان المبارک کا کا اشتیاق اور اس کی رحمتوں اور حرکتوں کا سال بھر انتظار رہا کرتا تھا ۔ کیوں نہ رہے رمضان المبارک کا مہینہ تاریخ اسلام اور دین اسلام میں بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ نزول قرآن کا مہینہ اسی ماہ میں قرآن مجید کی ابتدائی پانچ آیتین نازل کی گئیں اور وحی الہی کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اس ماہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں معتکف تھے کہ جبرئیل علیہ السلام غار حرا میں تشریف لاتے ہین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کی ابتدائی پانچ آیتین نازل کی جاتی ہیں : إقرأ باسم ربك الذي خلق o خلق الإنسان من علق o إقرأ وربك الأكرم الذى علم بالقلم o علم الإنسان ما لم يعلم o : پڑ ھیے( اے نبی ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ۔ پیدا کیا انسان کو خون کے ایک لوتھڑے سے ۔ پڑھیں اور آپ کا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا انسان کو وہ علم سکھایا جس کو وہ نہ جانتا تھا ۔ یہاں سے پوری عالم انسانیت کے لیے رشد و ہدایت کا دروازہ کھل گیا ۔ ارشاد خداوندی ہے : " رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں ۔ لہذا اب جو شخص اس مہینے کو پائے ، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے ۔۔۔۔" ( البقرة : ١٨٥ ) الله تبارك وتعالى كا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ ہم اور آپ اس سال ، اس مبارک مہینے میں بقید حیات ہیں اور اس مہینے کے فیوض و برکات سے مالا مال ہورہے ہیں ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی آخری تاریخ میں ہم لوگوں کو وعظ فرمایا کہ : " تمہارے اوپر ایک مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے جو بہت بڑا مہینہ ہے ، بہت مبارک مہینہ ہے ، اس میں ایک رات ( شب قدر ) ہے جو ہزار راتوں سے بڑھ کر ہے ۔ یہ ایک ایسا نہیں ہے جس کا پہلا حصہ اللہ تعالی کی رحمت ہے اور درمیانہ حصہ مغفرت اور آخری حصہ آگ ( جہنم ) سے آزادی ہے " ۔ ( حدیث ) سبحان اللہ کتنی ساری نعمتوں ہیں ۔ اللہ تعالی کی ہمارے اوپر بے شمار نعمتین ہیں ۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے " تم اللہ کی نعمتوں کو شمار نہیں کرسکتے " ( سورہ ١٤ آيه ٣٣ ) اتنے انعامات پر معاملہ ختم نہیں ہوجاتا ، پھر ایک ایسی رات عنایت فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ سبحان اللہ ، سبحان اللہ اس سے مراد جلیلہ القدیر میں اللہ تعالی نے قرآن مجید نازل فرمایا ۔ ہزار مہینوں سے بہتر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کبھی ہزار مہینوں میں نوع انسانی کے کی فلاح وہ کام نہ ہوا ہوگا جتنا اس ایک رات میں ہوگا ۔ جاری رمضان المبارک اللہ تعالی کی رحمت و بخشش اور مغفرت کا نہیں ہے ۔ وہ لوگ خوش قسمت ہیں جنہوں نے اس مبارک و مقدس مہینے میں روزہ ، تراویح ، تلاوت قرآن اور دیگر عبادات کے ذریعہ اللہ تعالی کو راضی کیا ۔
@aleemuddinshaikh1179
@aleemuddinshaikh1179 Жыл бұрын
D /
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 2 жыл бұрын
رمضان کا عظیم الشان مہینہ امہ مسلمہ پر سایہ فگن عالم اسلام رمضان المبارک کی آمد سے سرشار اور استقبال کے لیے چشم براہ اس کرہ ارض پر جہاں جہاں مسلمان موجود ہیں خواہ وہ کسی بھی ملک اور نسل و رنگ سے تعلق رکھتے ہوں ، اس خیر و برکت سے معمور مہینہ کے استقبال کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے ہیں ۔ انسانوں میں یہ طریقہ عام ہے کہ آنے والے مہمان کی عزت و تکریم حسب حیثیت کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے ۔ مہمانوں کا استقبال اور مہمان نوازی اللہ تعالی کو پسند ہے ۔ اللہ تعالی قرآن میں فرماتے ہے : " جس دن ہم پر ہیزگارون کو لے جائیں گے مہمان بناکر ( مریم : ٨٥ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم " ان کو وہ دن یاد دلائیں جس دن ہم پریزگاروں اور اطاعت شعاروں کو ان کی رب کی بارگاہ میں مہمان بناکر جمع کریں گے جو اپنی وسیع رحمت کے ساتھ انہیں ڈھانک لے گی "۔ رجب المرجب بیج بونے کا مہینہ ہے ، شعبوں المعظم آبپاشی کا اور رمضان المبارک فصل کاٹنے کا مہینہ ہے ۔ استقبال رمضان کا حق اور طریقہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دن چاند طلوع ہونے کی امید ہوتی اور شعبان کا آخری دن ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کرکے خطبہ ارشاد فرماتے جس میں رمضان المبارک کے اہمیت اور فضائل و وظائف کو بیان فرماتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ کی تفصیل درج ذیل ہے : حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے آخری دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا : " اے لوگو! ایک بہت ہی مبارک مہینہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے ۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے "۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اکٹھا فرماتے اور خطبہ دیتے جس میں رمضان کے فضائل بیان فرماتے ، اس کی عظمت و اہمیت کے پیش نظر کی اس کی تیاری کی جانب متوجہ فرماتے لہذا ہمیں چاہیے کہ آمد رمضان کو دیکھتے ہوئے اس کی پوری تیاری کریں اور لوگوں تک اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان و عمل کو پہنچائیں ، رمضان کی تیاری کریں اور اس کے معمولات پر عمل کریں ۔ یاد رہے کہ روزے کے بے شمار فوائد و مقاصد ہیں ۔ یہ رمضان کا پیغام ہے ۔ شعبان کے مہینہ ہی سے ہم رمضان المبارک کی کے استقبال کی تیاریاں شروع کردیں ، پورے رمضان کاشیڈول بنائیں ۔ یہ مہینہ بڑے فضائل اور امتیازی خصوصیتوں کا حامل ہے ۔ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جو اللہ جل شانہ کے نزدیک تمام مہینوں سے بہتر ہے ، جس کے دن باقی تمام مہینوں کے دنوں سے بہتر ہیں جس کے اوقات تمام مہینوں کے اوقات سے بہتر ہیں اور جس کی راتیں تمام مہینوں کی راتوں سے بہتر ہیں ۔ یہ ضیافت الہی کا مہینہ ہے ۔ اس ماہ مبارک کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اللہ جل شانہ فرماتے ہیں : " ماہ رمضان وہ ہے جس میں جس میں قرآن نازل کیا گیا ، جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے تو تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے تو اس پر فرض ہے کہ اس کے روزے رکھے ۔۔۔۔ اور اللہ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی بیان کرو ، شاید تم شکر گزار بنو ۔ (لبقرة : ١٨٣ -- ١٨٥ ) دوسری جگہ سورہ قدر میں نزول قرآن کا ذکر ہے ۔ اس کی پہلی آیہ میں فرمایا گیا : إنا أنزلناه في ليلة القدر o و ما أدراك ما ليلة القدر o ليلة القدر خير من ألف شهر o تنزل الملائكة و الروح فيها بإذن ربهم من كل أمر سلام o هى حتى مطلع الفجر o بیشک ہم نے اسے ( قرآن ) کو شب قدر میں اتارا ہے ۔ اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شب قدر ( کی عظمت ) کیا ہے ۔ شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے ۔ اس رات فرشتے اور روح القدس اپنے رب کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر اترتے ہیں (اور وہ رات ) سراپا سلام ہے ۔ وہ طلوع فجر تک رہتی ہے ۔ اس سے اس رات کی ع عظمت و فضیلت واضح ہوتی ہے ۔ اس استفہام سے معلوم ہوا کہ مخلوق اس رات کی تہ اور حقیقت تک پوری طرح نہیں پہنچ سکتی ۔ یہ صرف اللہ ہی خیرات ہے اس کی حقیقت سے کما حقہ واقف ہے ۔ یہ امہ محمدیہ پر اللہ تعالی کا عظیم احسان ہے کہ اس مختصر سی زندگی میں زیادہ سے زیادہ آجر و ثواب حاصل کرنے کی صورت فرما دی ۔ معلوم ہوا کہ رمضان کے مہینے اور اس کی سب قیمتی اور فضیلت والی رات شب قدر سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے ۔ اسی طرح سورہ دخان ( آیہ ٣) مين فرمایا گیا : " ہم نے اسے برکت والی رات میں نازل کیا "۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اس مہینے کی شب قدر میں قرآن کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ایک ہی مرتبہ اتاردیا ، اور وہاں سے حسب وقائع رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا جاتا رہا یہاں تک کہ ٢٣ سال میں پورا نزول قرآن مکمل ہو گیا ۔ اللہ اللہ یہ ہلال رمضان ہے ! ہمارا اور اس کا رب اللہ ہے ۔ اے اللہ اس ہم پر برکت اور ایمان و سلامتی کے ساتھ طلوع فرما اور ہر اس کام کی توفیق عطا فرما جس کو تو پسند کرتا اور جس سے تو راضی ہوتا ہے ۔ خیر و رشد ، راستی و راست روی کا ہلال ! تمام حمد و ستائش اس ذات بابرکات کے لیے ہے جو رؤیہ ہلال اور اس خیر و برکات سے معمور مہینہ کو ایک بار پھر ہمارے لیے لے آیا ۔ گزشتہ سال ہم نے رمضان المبارک کا استقبال کیا تھا ۔ اب وہی بابرکت رمضان اس سال ایک بار پھر آگیا ہے ، اپنے فضائل اور گونا گوں برکتوں کو اپنے جلو میں لیے ہوئے تاکہ ہم ایک بار پھر اس کا خیر مقدم کریں ماہ فرمانبردای ، ماہ اطاعت گزاری اہلا و سہلا مرحبا بک ، ماہ تزکیہ روح و بدن ، ماہ تزکیہ نفس و روح ، ماہ اطاعات گزاری اور ماہ طہارت و پاکیزگی ۔
@Abdullah-qt6dr
@Abdullah-qt6dr Жыл бұрын
ایڈیٹنگ اچھی کرو
@hafizfurqani6744
@hafizfurqani6744 2 жыл бұрын
Imla & Taswir ki.......
@user-mn5if6oe8y
@user-mn5if6oe8y Жыл бұрын
برائے مہربانی اساتذہ کرام کے نام صحیح لکھے جائیں ۔
@MuftiZafarNadwi
@MuftiZafarNadwi 2 жыл бұрын
ھمزہ غلط ہے حمزہ اس طرح لکھا جاتا ہے
@imranrafeeqi5955
@imranrafeeqi5955 Жыл бұрын
نذر الحفیظ ازہری نہ کہ مظاہری
@wasifurrahman5213
@wasifurrahman5213 2 жыл бұрын
بھای صاحب نذرالحفیظ صاحب ندوی ہیں پھر ازہری ہیں مظاہری بھی ہیں کیا
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 2 жыл бұрын
مظاہری نہیں ہیں ۔
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 2 жыл бұрын
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ " و استوت على الجودى " يعنى كشتى كوه ارارات پہاڑ کے ایک حصہ ' جودی ' پر ٹھہر گیا ۔ جو بات قرین قیاس اور سمجھ میں آنے والی ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ کشتی میں سوار تھے وہ پہاڑ سے نیچے اترے ہوں گے اور دامن کوہ کے قرب و جوار میں جو جگہ رہائش اور آباد ہونے کے قابل ہوگی وہاں بس گئے ہوں گے ۔ یہ علاقہ شمالی عراق میں شہر موصل سے کچھ فاصلہ پر ہوگا ۔ اس کے بعد یہ لوگ آہستہ آہستہ موصل کی طرف بڑھے ہوں گے اور یہ شہر آباد ہوا ہوگا ۔ موصل سے جنوب میں 35 کلو میٹر کے فاصلہ پر نمرود کے تاریخی آثار ہیں اور کھنڈرات ہیں ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کے واقعہ قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ علاقہ شمالی عراق میں دریائے دجلہ کے کنارے واقع ہے ۔ پھر جب آبادی بڑھنے لگی تو یہ لوگ جنوبی عراق کی طرف بڑھے ۔ بابل جسے Babylon کہا جاتا ہے شہر موصل سے بہت دور ہے ۔ وہاں کے لوگوں نے سائنس اور ٹکنالوجی میں بہت ترقی کی اس لیے تاریخ میں بنالی تہذیب و تمدن کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے ۔ اس ابتدائی علاقہ سے انسانی آبادی مصر جنوب میں سندھ کی طرف بڑھی اور سندھ اور پھر ہند کی تہذیب ابھر کر سامنے آئی ۔ میں 1983 مین عراق میں ملازمت کے دوران کوہ اراراط کے پہاڑی سلسلہ کے بالکل قریب تک گیا تھا اور شہر موصل اور نمرود کے تاریخی آثار بھی دیکھنے کا موقع ملا تھا میں بابل بھی گیا اور آثار بابل اور Hanging garden بھی دیکھا ۔ قدیم انسانی تاریخ کا یہ باب بہت دلچسپ اور قابل مطالعہ ہے ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 2 жыл бұрын
قرآن و سنت کے سائنسی اعجاز پر پہلی عالمی کانفرنس دوسری قسط جو لوگ قرآن کی سائنسی تفسیر کے قائل نہیں ہین ان کی طرف سے درج ذیل وجوہات بھی پیان کی جاتی ہیں : وہ اسے قرآن کے اصل مقصد سے انحراف سمجھتے ہیں ۔ وہ کہتے ہین کہ ہم اس طرح اپنی صلاحیت اور کوششوں کا صحیح استعمال نہیں کرتے ہیں اس طرح جس چیز کو اولیت حاصل ہونی چاہیے وہ ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہے ۔ سائنسی مفروضات اور نظریات جدید معلومات اور تحقیقات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں اگر ہم ان کے مطابق قرآنی آیات کے معانی بیان کرنے لگے تو خدا ناخواستہ اللہ جل شانہ کی کتاب کھیل بن کر رہ جائے گی اور ہر کس و ناکس اپنی طبع آزمائی کے لیے اسے تختہ مشق بنالے گا اور اس طرح دشمنان اسلام کو استہزاء کا نیا موقع مل جائے گا ۔ بغیر کسی اصول و ضوابط کے ، قرآن و سنت کے سائنسی اعجاز کے موضوع پر بحث و مباحثہ کا دروازہ کھولنا خطرے سے خالی نہیں ہے ، کیونکہ مخلتف علوم و فنون کے ماہرین اپنے اپنے نقطہ نظر سے سائنسی معلومات اور نظریات کے مطابق قرآنی آیات کی تشریح و تفسیر کرنے لگیں گے اور یہ فتنے کا باعث ہوسکتا ہے !! سائنسی معلومات کے مطابق قرانی آیات کی تاویلات اور تفسیر در اصل ہماری نا اہلیت کو ثابت کرتی ہے کہ ہم خود سائنسی تحقیقات نہیں کرسکتے ہیں اور عصر حاضر میں جو ہماری ذمہ داریاں ہیں ان سے فرار کا راستہ اختیار کرلیا ہے ۔ محض یہ کہنا کہ ان سائنسی اکتشافات اور تحقیقات کو قرآن آج سے چودہ صدیاں پہلے بیان کرچکا ہے ، اپنی عصری ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کافی نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ قرآن و سنت کے سائنسی اعجاز کا انکار نہیں کرتے ہیں لیکن اسے بھی درست نہیں سمجھتے کہ قرآن کو سائنسی نقطہ نظر سے بحث و مباحثہ کا موضوع بنالیا جائے ۔ ہم آج علوم و فنون کے تمام شعبوں میں پسماندہ ہیں اور امہ مسلمہ انتہائی سخت اور نازک صورتحال سے گزر رہی ہے ایسی حالت میں ایسے حساس موضوع پر مستقل بحث و مباحثہ کا دروازہ کھولنا صحیح نہیں ہے ۔ ہاں ، اگر کچھ اہل اختصاص اور علم و فکر ان آیات پر غور و فکر کریں جن کی تشریح اور باریکیوں پر سائنسی تحقیقات سے روشنی پڑتی ہے اور اس طرح قرآن کا علمی اعجاز ثابت ہو تو یہ مفید ہے ۔ مثال کے طور پر جدید طبی ، خلائی اور علوم کے دیگر شعبوں میں جو حالیہ تحقیقات ہوئی ہیں ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ وہ اپنی تحقیقات اہل مغرب کے متعلقہ شعبوں کو بھیجیں تاکہ انہیں اسلام کے بارے میں سائنسی نقطہ نظر سے صحیح رائے قائم کرنے کا موقع ملے ۔ اس سے مسلم نوجوانوں میں قرآن و سنت پر سائنسی نقطہ نظر سے اعتماد پیدا ہوگا ، ان کے دینی جذبہ اور تاریخی شعور کو تقویت ملے گی ، ان کے اندر علمی خود اعتمادی ، بلند ہمتی اور علمی ترقی کا جذبہ پیدا ہوگا ۔ اسلام آباد کی کانفرنس منعقدہ 1987 میں ان اندیشوں اور خدشات کا اظہار کیا گیا تھا ۔ اس کے بجائے ہمیں علوم و فنون کی میدانوں مین ترقی کے اسباب اختیار کرنے چاہئیں اور اپنے اندر خود ترقی کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے تاکہ ہم علمی پسماندگی اور مغرب کی کورانہ تقلید سے آزاد ہوسکیں ۔ صرف قرآن و سنت کے علمی اعجاز کو ثابت کردینا برتری اور تفوق کی بات نہیں ہے بلکہ سائنس کے میدانوں ترقی کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ یہ اس بحث کا سب سے اہم پہلو ہے جس کی طرف مسلم حکومتوں اور اہل علم و فکر کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن اس موضوع پر سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کرنا اور قرآنی آیات کی بے جا تاویلات کرکے جدید سائنس سے مطابقت پیدا کرنے کی پر تکلف کوششیں کرنا ، اس مقصد کے لیے کمیٹی اور بورڈ کی تشکیل اور بڑی بڑی رقم وقف کرنا ، ایسا طرز عمل ہے جو جادہ اعتدال سے ہٹا ہوا ہے ۔ اس موضوع کے سلسلے میں قیود و ضوابط کی پابندی کے موضوع پر کام کرنے کے لیے ایک کمیٹی ' قرآن کے سائنسی اعجاز کا اثبات اور اس کے اصول و ضوابط ' کے عنوان سے تشکیل دی گئی تھی اس موضوع پر وقیع مقالہ ازہر یونیورسیٹی کے ڈاکٹر سید طویل کا تھا ۔ دوسرا مقالہ ام درمان اسلامی یونیورسٹی کے محمد خیر حب الرسول نے پیش کیا تھا ۔ ان دونوں مقالون میں قرآن کے سائنسی اعجاز کے موضوع پر آزادانہ بحث و مباحثہ پر اعتراض اور ضروری تحفظات کے مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی تھی ۔ فقہاء اور دیگر علوم کے ماہرین کے درمیان اس پر خوب گرم بحث ہوئی اور ہر فریق اپنے موقف پر قائم رہا ۔ فقہاء کے موقف کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ کانفرنس میں قرآنی آیات کی سائنسی تاویلات کا دروازہ توقع سے زیادہ کھلا پایا گیا ۔ پانچ سو مقالون میں سے صرف 78 مقالات کا انتخاب اور ان کا خلاصہ پیش کیا گیا ۔ اتنی بڑی تعداد میں مقالات کا رد کردیا جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آزادانہ تاویلات کا خطرہ خیالی نہیں بلکہ حقیقی ہے اور یہ بڑے شد ومد اور غلو کے ساتھ پائے گئے ۔ تقریبا گیارہ سائنسی موضوعات پر مقابلے پڑھے گئے ۔ علم افلاک ( خلائی تحقیقات) فضا و ارض ، سمندر حیوانات ، نباتات ، علم الجنین (Embryology) علم تشريح (Anotomy) اور علم طب کے مختلف شعبوں کے علاوہ علم نفسیات اور اقتصادیات پر بھی مقالات پڑھے گئے تھے ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com
@AbdurRahim-os3em
@AbdurRahim-os3em 7 ай бұрын
Molana Moinullah SB. Mufti Muhammad Zahoor SB. Aur Molana Abdullah Abbas SB jaisa Logo ka Zikr Nahi hai
@sadiqhussain157
@sadiqhussain157 Жыл бұрын
مظہر خدا ھیں بحر بے کراں ھیں روشنی ھیں نور ھیں ترانہ زندگی ھیں گوھر بے بہا ھیں وقت کی صدا ھیں کسی کی دعا ھیں رشد و ھدا ھیں
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 Жыл бұрын
فلا اقسم بمواقع النجوم o و إنه لقسم لو تعلمون عظيم o ( الواقعة : ٧٥ ) اس آیہ کریمہ کی تفسیر کیا ہے ؟ مواقع کا صحیح ترجمہ کیا ہے ؟
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 Жыл бұрын
EXPANDING UNIVERSE MENTIONED IN HOLY QUR'AN 1450 YEARS AGO Who can tell 1450 years ago that the universe is expanding? والسماء بنينها بايد و انا لموسعون o " And the heaven We built it with power, and indeed, We are the expander " (And We it is Who make the vast extent, thereof ) (Qur'an, 51:47) Until 1931, physicist Albert Einstein believed that the universe was static. An urban legend attributes this change of perspective to when American astronomer Edwin Hubble showed Einstein his observations of redshift in the light emitted by far away nebulae - today known as galaxies. After Hubble discovered that the universe was expanding, Einstein called the cosmological constant his "greatest blunder." At around the same time, larger telescopes were being built that were able to accurately measure the spectra, or the intensity of light as a function of wavelength, of faint objects. Almighty Allah is the Master Creator of the whole universe.He says: " Should He not know what He created? And He is the Subtile, the Aware ". The knowledge of scientists is very limited to understand the universe. Denying existence of Almighty Allah relying on this limited knowledge is not justified. Almighty Allah says: " We shall show them Our Signs on the horizons( feilds of vision) and within their ownselves,untill it becomes clear to them that He(Allah) is Truth. Is it not enough that thy Lord doth witness all things." (Qur'an,41:53) DR.MOHAMMAD LAEEQUE NADVI Ph.D. (Arabic Lit.) M.A. Arabic Lit. Director Amena Institute of Islamic Studies & Analysis A Global & Universal Institute nadvilarrque@gmail.com
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 Жыл бұрын
حج بیت اللہ کی فرضیت اور اہمیت ذو الحجہ اسلامی سال کا بارھواں اور آخری مہینہ ہے ۔ اس مہینہ میں دنیا بھر سے مسلمان اسلام کے اہم رکن فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے بیت اللہ کا سفر کرتے ہیں ۔ حج کی فرضیت کے متعلق ارشاد ربانی ہے : إن اول بيت وضع للناس للذى ببكة مباركا و هدى للعالمين . فيه ايت بينات مقام إبراهيم و من دخله كان أمنا ، و لله على الناس حج البيت من إستطاع إليه سبيلا ، و من كفر فإن الله غنى عن العالمين o ( أل عمران : ٩٦ ، ٩٧ ) بیشک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر " بے شک سب سے پہلا گھر جو انسانوں کے لیے بنایا گیا وہ وہی ہے جو مکہ میں ہے ۔ اس میں برکت دی گئی اور تمام جہان کے لوگوں کے لیے مرکز ہدایت ہے ۔ اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں مقام ابراہیم ہے ۔ جو اس میں داخل ہوجائے وہ مامون ہے ۔ لوگوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ اس کا حج کرے ، اور جو اس حکم کو ماننے سے انکار کرے تو اللہ تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے ۔ اس آیہ کریمہ سے ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ کے اس گھر کی کتنی عظمت ہے کہ اللہ تعالی نے اسے سارے انسانوں کے لیے مرکز رشد و ہدایت بنادیا ۔ یہ برکت کا مقام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقام عبادت بھی ہے ۔ اللہ تعالی کی ایک عظیم نشانی آب زم زم کا کنواں بھی وہیں پر ہے اور یہاں کے انوار و برکات کو انسانی ذہن تصور بھی نہیں کرسکتا ہے ۔ حضرت ابویریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللہ تعالی نے تم پر حج فرض کیا ہے لہذا تم حج کیا کرو " ۔ ( بخاری و مسلم ) حضرت عبد الرحمن بن ثابت کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ظ " جو شخص حج کے بغیر مرگیا حالانکہ اس کے راستے میں نہ کوئی مرض نہ کوئی ظالم حکمراں اور نہ کوئی ضرورت حائل ہوئی تو وہ چاہے یہودی ہوکر یا نضرانی ہوکر جس طرح چاہے مرجائے "۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص قوت و صلاحیت اور حالات کے سازگار ہوتے ہوئے بھی فریضہ حج سے جی کراتا ہے تو وہ مسلمان کی حیثیت سے مرے گا یا نہیں اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے ۔ مذکورہ بالا ایک کریمہ اوراحادیث سے یہ معلوم ہوا کہ حج کی کتنی اہمیت ہے ۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ حج کی استطاعت ہوتے ہی اس فرض کو ادا کرنے میں عجلت کریں اور اس میں تاخیر نہ کریں ۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے جو ہر وقت اہل ایمان کو گمراہ کرنے اور نقصان پہنچانے کے لیے کوشاں رہتا ہے ۔ حج کی ادائیگی کے سلسلے میں بھی وہ دلوں میں طرح طرح کے وسوسے ڈال کر اس فریضہ کی ادائیگی سے غافل کردیتا ہے ۔ حج کے ذریعہ ہمیں اپنے گناہوں کو معاف کروانے کا سنہرا موقع ملتاہے ۔ حج بیت اللہ کے موقع پر حجاج جو بھی دعائیں مانگتے ہیں ، اللہ رب الرٹ اسے شرف قبولیت بخشتا ہے ۔ حجاج اللہ تعالی کے مہمان ہوتے ہیں ۔ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عین سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا : " حج اور عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں ۔ اگر وہ اس سے دعائیں کرتے ہیں تو وہ ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے ، اگر اس سے بخشش طلب کرتے ہیں تو وہ تو وہ انہیں بخش دیتا ہے" ( نسائی ، ابن ماجہ ) لہذا جب ہمارے اندر حج کرنے کی استطاعت پیدا ہوجائے تو تاخیر نہیں کرنی چاہیے اور اپنی مغفرت طلب کرنے کے لیے پہلی فرصت میں فریضہ حج ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنی بخشش طلب کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 2 жыл бұрын
مادى دنیا اور عقل انسانی سے ماوراء عظیم الشان واقعہ معراج ساتون آسمان اور سدرة المنتہی کی سیر اور مشاہدات سبحان الذى أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الذى باركنا حوله لنريه من آياتنا إنه هو السميع البصير o پاک ہے ( وہ ذات ) جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام ( خانہ کعبہ) سے مسجد اقصی ( بیت المقدس) لے گئی ، جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ اسے اپنی نشانیاں دکھائے ، بیشک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔ اس آیہ کریمہ میں اللہ جل شانہ نے " أسرى بعبده " فرمايا ہے اس لیے یہ واقعہ إسراء كہلاتا ہے ۔ اور مسجد اقصی سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے ۔ حدیث میں اس واقعہ کے لیے " عرج بی الی السماء " آیا ہے یعنی مجھ کو آسمان لی طرف چڑھایا گیا ۔ اس لیے یہ واقعہ معراج کہلایا ۔ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد نے بیان کیا ہے ۔ علامہ زرقاوی نے ٤٥ صحابہ کا نام بنام ذکر کیا ہے جنہوں نے حدیث معراج کو روایت کیا ہے ۔ یہ واقعہ تین مراحل پر مشتمل ہے : ١ -- پہلا مرحلہ مسجد حرام سے لے کر مسجد الأقصى تک دوسرا مرحلہ مسجد الاقصی سے لے کر ساتوں آسمان اور سدرة المنتہی تک تیسرا مرحلہ سدرة المنتہی سے آگے تک عالم تجرید لامکان تک ۔ سدرة المنتهى سے آگے جانے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے ۔ علماء کی ایک جماعت اس کی قائل ہے کہ سفر معراج سدرة المنتہی تک وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپس ہوگئے ۔ اس کے برخلاف علماء کی دوسری جماعت آگے کے سفر کی قائل ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ سدرہ المنتہی میں عالم مکان ختم ہوگیا ۔ وہان آپ (ص) کے لیے سبز رنگ کا نور کا تخت آگیا اس کا نام رفرف تھا ۔ آپ اس پر سوار ہوکر لامکاں کی طرف گئے ۔ یہاں کے احوال و کیفیات انسانی سوچ سے ماوراء ہیں ۔ صوفیاء رحمہم اللہ عجب عجب احوال ، مشاہدات اور کیفیات بیان کرتے ہیں جن کا بیان کرنا یہاں ضروری نہیں ۔ اسراء اور معراج کا واقعہ کب پیش آیا : معراج کی تاریخ ، دن اور مہینہ میں بہت اختلافات ہیں لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ ہجرت سے ایک سال یا ذیڑہ سال پہلے مکہ مکرمہ میں پیش آیا ۔ ابن قتیبہ دینوری( متوفی ٢٦٧ هج) ابن البر ( متو فی ٤٦٣ هج) اور امام نووی رحمہم اللہ نے تحریر کیا ہے کہ واقعہ معراج رجب المرجب کے مہینہ میں ہوا محدث عبد الغنی مقدسی نے رجب کی ستائیسویں تاریخ بھی تحریر کیا ہے ۔ علامہ زرقانی نے لکھا ہے کہ لوگوں کا اسی پر عمل ہے اور بعض مؤرخین کی رائے میں یہی سب سے زیادہ قوی روایت ہے ۔ ( زرقانی ص ٣٥٨) مختصر حالات معراج : معراج کی رات حضرت جرنیل علیہ السلام حضرت میزائیل علیہ السلام اور دیگر فرشتوں کے ساتھ تشریف لائے ۔ آپ خانہ کعبہ میں تھے ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمزم کے پاس لے گئے ، سینہ مبارک کو چاک کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کو نکال کر اسے آب زمزم سے دھویا پھر ایمان و حکمت سے بھرے ہوئے ایک سونا کے طشت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک میں انڈیل کر چاک کو برابر کردیا ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو براق پر سوار کرکے بیت المقدس لے گئے ۔ براق نور کی سواری پرصفر وقت میں محیر العقول سفر یہ اللہ جل شانہ کی طرف سے بھیجی گئی نوری سواری تھی جس کا نام برق تھا ۔ یہ سفر جبرئیل علیہ السلام اور دیگر ملائکہ کی معیت میں ہوا ۔بیت المقدس پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس حلقہ سے باندھ دیا جس سے انبیاء علیپم السلام اپنی سواریوں کو باندھا کرتے تھے پھر آپ(ص) نے تمام انبیاء علی ہم السلام کو جو وہاں حاضر تھے ، دو رکعت نماز پڑھائی ۔ ( تفسیر روح المعانی ج ٥ ص ١١٢) یہ امامت انبیاء کا واقعہ بعض حضرات کے نزدیک آسمان پر جانے سے پہلے پیش آیا ۔ سفر معراج سے واپسی پر جب اصل مقصد پورا ہوگیا تو تمام انبیاء علیپم السلام آپ کو رخصت کرنے کے لیے بیت المقدس تک آئے ۔ اس وقت نماز فجر کا وقت ہوگیا تھا ۔ جبرئیل امین کے اشارے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی ۔ اس سے تمام انبیاء علیہم السلام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء علیپم السلام کے امام قرار پائے ۔ سورہ اسراء کی اس پہلی آیہ کریمہ میں اللہ جل شانہ نے خود معراج مصطفی کا ذکر فرمایا ہے ۔ اس سے پہلے اپنی قدرت اور تنزیہ و تقدیس کو بیان فرمایا ۔ پاک و برتر اور ہر نقص و کمزوری سے پاک ہے وہ ذات ۔ واقعہ معراج کا بیان کرنا ہے لیکن ابتدا اپنی تقدیس اور تنزیہ سے فرمایا ۔ اس لیے جو واقعہ اس کے بعد بیا کیا جانے والا ہے وہ بڑی اہمیت کی حامل ، محیر العقول اور عظیم الشان ہوگی اور اس کا انکار علم کی کمی اور کم فہمی پر مبنی ہوگی ۔ اس تمہید کے بعد جو واقعہ بیان کیا جارہا ہے ، وہ آج کی ترقی یافتہ جدید سائٹس کی روشنی میں قابل فہم ہے ۔ اس پر ہم تھوڑی تفصیل سے آئندہ بیان کریں گے ۔ اللہ جل شانہ کی ذات قادر مطلق ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اس کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ۔ اگر اس کے لیے بھی ناممکن ہو تو پھر وہ مبدع کائنات اور ہر چیز کا خالق نہیں رہا ۔ سبحان اللہ عما یصفون ۔ یہ دعوی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا بلکہ اللہ نے فرمایا کہ یہ دعوی میرا ہے ۔ میں نے اسے یہ شیر کرائی ۔ اللہ کے رسول (ص) نے یہ دعوی ہین کیا کہ اس نے خود یہ سفر کیا ہے ۔ اے مشرکین مکہ اگر انکار کرنا ہے تو میری بات کا انکار کرو ۔ مجھ سے پوچھو کہ میں معراج کراسکتا ہوں یا نہیں! اس واقعہ معراج کا انکار کیے جانے اور زبان اعتراضات کھل نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع فرمادیا گیا ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 Жыл бұрын
حج ٢٠٢٢ کے مبارک موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مشن اور امہ مسلمہ آدم علیہ السلام کی رحلت کے بعد ان کی اولاد شرک میں مبتلا ہوتی چلی گئی ۔ ان کی اصلاح کے لیے اللہ تعالی وقفہ وقفہ سے انبیاء علیہم السلام کو بھیجتا رہا ۔ یہ انبیاء ایک خاص قوم ملک اور ایک خاص مدت کے لیے بھیجے گئے تھے سوائے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور سوائے خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ خصوصی شرف اور امتیاز حاصل ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو دنیا سارے انسانوں کا پیشوا بناکر توحید کے عالمگیر مشن کا آغاز کروایا جس کی تکمیل سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت آج سے تقریبا چار ہزار سال قبل حضرت نوح علیہ السلام کی نویں پشت میں عراق کے شہر ' ار ' میں ہوئی تھی ۔ آپ علیہ السلام نے مشرکانہ ماحول کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں آنکھیں کھولیں ۔ آپ کے والد ایک صنم تراش اور بت ساز تھے اور نمرود بادشاہ کے دربار میں اعلی منصب پر فائز تھے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم تین قسم کے شرک میں مبتلا تھی ۔ ١ - ستارہ پرستی ٢- أصنام پرستی ٣ - سياسى شرك . ملک عراق میں تقریبا پانچ ہزار خداؤں کی پرستش کی جاتی تھی ۔ ہرگاؤں اور ہر شہر کا ایک ایک الگ محافظ خدا تھا ۔ شہر ' ار ' کا خدا ' ننار ' یعنی چاند دیوتا تھا ۔ اس کے ماتحت مختلف ضرورتوں اور حاجتوں کے لیے مختلف دیوی دیوتا بنالیے گئے تھے جو زیادہ تر آسمانی سیاروں سے منسوب تھے ۔ ان کی مورتیاں بنائی جاتیں اور ان کے آگے مراسم بندگی ادا کیے جاتے تھے ۔ملک کا اصل بادشاہ چاند دیوتا ' ننار ' تھا ۔ اس کی طرف سے ملک کا بادشاہ حکومت کرتا تھا جس کی نسبت چاند دیوتا کی طرف کی جاتی اور بادشاہ خود بھی معبودوں میں شامل ہوجاتا ۔ اس کی بھی مورتی بناکر پوجا کی جاتی تھی ۔ ایسے مشرکانہ ù میں اللہ سبحانہ تعالی نے ان کی رہنمائی کی اور حق کی سمجھ عطا کی : و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل و كنا به عالمين o ( الانبیاء : ٥١ ) اس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیم کو اس کی سمجھ عطا کی تھی اور ہم اس سے خوب واقف تھے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان خود ساختہ جھوٹے معبودوں کا انکار کرتے ہوئے اس بات کھل کر اعلان کردیا کہ : و إذ قال إبراهيم لأبيه أزر ا تتخذ اصناما آلهة إنى اراك و قومك فى ضلال مبين o اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا " کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے ؟ میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ میں ان سب سے بیزار ہوں جنہیں تم خدا شریک ٹھیراتے ہو ، میں نے یکسو ہوکر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں " ۔ ابراہیم علیہ السلام اس طرح اپنی دعوت کا آغاز کیا ، حقائق کو کھول کر بیان کیا ، بتوں کی بے بسی اور لاچاری کو کھول کر ان کو سمجھایا اور پروردگار عالم کی عظمت اور اس شان و شوکت کو کو بیان کیا ۔ آپ علیہ السلام کی دعوت کی ضرب نہ صرف بتوں کی پرستش بلکہ شاہی خاندان کی حاکمیت ، پجاریوں اور اعلی طبقوں کے مذہبی ، معاشی اور سیاسی حیثیت اور ملک کے عوام کی اجتماعی زندگی پر براہ راست پرتی تھی ۔ اس لیے بادشاہ ، پجاری اور تاجر سبکے سب آپ علیہ السلام کے مخالف اور جان کے دشمن ہوگئے ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
@mohammadnisar9773
@mohammadnisar9773 Жыл бұрын
ماشاءاللہ طبیعت خوش گوار ہوگی اللہ تعالی ان اساتذہ کرام کی عمریں دراز فرمائے۔ آمین دو اساتذہ کرام کا تعارف اس میں موجود نہیں ہے۔حضرت مولانا عارف صاحب سنبھلی نوراللہ مرقدہ اور انگلش ٹیچر امین الدین شجاع صاحب۔
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 2 жыл бұрын
اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شئی کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا اے قطرہ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا علامہ اقبال رحمہ
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 2 жыл бұрын
( ٣ ) واقعہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے کہ عالم بشریت کے زد میں ہے گردوں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم ملکوت کی اچھی طرح سیر فرماکر اور اللہ جل شانہ کی نشانیوں کا معاینہ و مشاہدہ فر مایا اور بارگاہ الہی سے ہدایا و عطایات کے علاوہ تین خاص انعامات مرحمت فرمائے جن کی عظمتون کو اللہ و رسول کے سوا اور کون جاسکتا ہے ۔ نماز کی فرضیت : ١-- اس موقع پر پچاس اوقات کی نمازیں فرض کی گئی تھیں ۔ (٢) سورة بقرة كی آخری دو آیتیں ( ٣) اور یہ خوشخبری کہ آپ کی امت کا ہر وہ شخص جس نے شٹل نہ کیا ہو بخش دیا جائے گا ۔ جب ان عطیات کو لے کر واپس ہوئے تو حضرت موسی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اپنی امت کا تجربہ ہے ، آپ کی امہ اتنی نمازیں نہیں پڑھ سکے گی ۔ آپ واپس جائیں اور اللہ جل شانہ سے کمی کی درخواست کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کہنے پر آپ (ص) چند بار اللہ جل شانہ کے دربار میں حاضر ہوئے اور چند بار بار گا الہی مین آتے جاتے اور درخواست گزار ہوتے رہے یہان تک کہ صرف پآنچ اوقات کی نمازیں رہ گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ اوقات کی نمازوں کے حکم کو تسلیم کرلیا اس پر اللہ جل شانہ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ " لا يبدل القول لدى " میرے یہاں بات بدلی نہیں جاتی اگرچہ تعداد نماز میں تخفیف کردی گئی ہے لیکن ثواب پچاس نمازوں ہی کی دی جائے گی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم ملکوت کی اچھی طرح سیر فرماکر اور اللہ جل شانہ کی نشانیوں کا معاینہ و مشاہدہ فرما کر آسمان سے زمین پر تشریف لائے اور بیت المقدس میں داخل ہوئے اور پھر براق پر سوار ہوکر مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے ۔ راستہ میں آپ بیت المقدس سے مکمہ مکرمہ تک کی تمام منزلوں اور قریش کے دققافلوں کو بھی دیکھ ۔ ان تمام مراحل کے طئے ہونے کے بعد آپ (ص) مسجد حرام میں پہنچ کر سو گئے ۔ کفار مکہ کی تکذیبب صبح بیدار ہو کر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب رات کے واقعہ کا قریش کے سامنے ذکر کیا تو ان کو سخت تعجب ہوا ، بعض بدبختوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا کہا اور بعض نے بیت المقدس کے دور و دیوار اور اس کے محرابون کے بارے میں مختلف سوالات کیے ۔ اللہ کے رسول ان سوالات کی وجہ سے اس طرح غمگین ہوئے کہ کبھی نہیں ہوئے تھے اس وقت اللہ قادر مطلق نے بیت المقدس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا ۔ آپ (ص) بیت المقدس کو دیکھ کر ان کے تمام سوالات کیے بالکل صحیح جوابات دے دیے ۔ ( بخاری ، مسلم شریف اور تفسیر روح المعانی جلد ١٥ ص ٤ -- ١٠ وغیرہ کا خلاصہ) معراج جسمانی کے دلائل : قریش مکہ کا واقعہ معراج کا انکار کرنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا کہنا جسمانی معراج کی دلیل ہے ۔ اگر وہ یہ سمجھتے کہ محمد( ص) اپنا خواب بیان کر رہے ہیں تو انکار نہیں کرتے اور بیت المقدس کے بارے میں مختلف سوالات نہیں کرتے ۔ اللہ تعالی نے سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں فرمایا کہ " سبحان الذی أسرى بعبده " الله اپنے بندہ کو لے گیا " اللہ جل شانہ نے یہ نہیں فرمایا کہ " سبحان الذی اسری بروح عبدہ " پاک ہے وہ ذاتی جو اپنے بندے کی روح کو لے گئی " عبد کا اطلاق صرف روح پر نہیں ہوتا بلکہ عبد اور روح دونوں پر ہوتا ہے ۔ صرف روح کے کے معراج کی باگ کہنا نص قرآنی کا انکار ہے جو کفر ہے ۔ جبرئیل علیہ السلام براق کی نوری سواری لےکر آئے تھے ۔ جس پر سوار ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے لیے تشریف لے گئے ۔ اگر روحانی معراج ہوتی تو سواری کی ضرورت نہیں ہوتی کیوں کہ روح کو سواری نہیں کرتی! اللہ تعالی نے واقعہ معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا ہے : " ما زاغ البصر و ما طغى " نہ آنکھ ٹیڑھی ہوئی اور نہ بہکی لفظ بصر جسمانی نگاہ کے لیے آتا ہے ، خواب میں دیکھنے کو بصر نہیں کہتے ۔ معراج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم الشان معجزہ ہے ۔ اگر معراج روحانی ہوتی تو یہ معجزہ کیسے ہوتا ؟! اگر معراج روحانی ہوتی تو تو مشرکین مکہ اس قدر تعجب ، انکار ، تکذیب نہین کرتے اور کچھ کمزور ایمان والے اسے بعید از عقل سمجھ کر مرتد نہ ہو جا تے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ جسمانی معراج اپنے اندر شان کمال رکھتی ہے ۔ جس طرح آپ ( ص ) اپنے نام نامی ، ذات گرامی ، حسن و جمال ، عادات و مسائل ، اعجاز قرآن جامع و بے مثال علمی ع عملی سیرت و کردار اور گونا گوں صفات و کمالات کے لحاظ سے بلند و ممتاز ترین مقام پر فائز ہیں ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس محیر العقول جسمانی معراج میں بھی منفرد اور بے مثال ہیں ۔ واقعہ معراج میں پیش آنے والا ہر واقعہ عجیب و غریب ہے ۔ اسی لیے وہ جو نور ایمان سے خالی تھے وہ انکار و تکذیب اور داعی اسلام کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کرنے لگے ، لیکن جن کے دلوں میں ایمان و یقین کے چراغ روشن تھے انہیں کوئی تذبذب اور پریشانی نہیں ہوئی اور نہ وہ دشمنان اسلام کی ہرزہ سرائی اور جاہلانہ غوغا و پروپیگنڈہ سے متاثر ہوئے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب اس واقعہ کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے بلا تامل اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا یہ واقعہ بیان کیا ہے تو یقینا سچ ہے ۔ معراج کا واقعہ در حقیقت ایمان کے لیے کسوٹی ہے جو شخص اللہ تعالی کی ذات و صفات ، طاقت و قادر مطلق ہونے پر کامل یقین رکھتا ہے وہ واقعہ معراج یا اس قسم کے خلاف عادت امور کا انکار نہیں کرسکتا ۔ پھر جبکہ قرآن و حدیث اس کا صاف اور واضح بیان موجود ہے ۔ ان دلائل سے ثابت ہوجاتا ہے کہ واقعہ معراج جسمانی تھا ۔ ان کے علاوہ مشاہیر علماء نے جسمانی معراج کی بہت سی دلیلیں پیش کی ہیں جو تفسیر ، آحادیث اور سیرت کی کتابوں میں مذکور ہیں ۔ تیسرا گروہ : اب صورت حال یہ کہ ایک گروہ تو وہی منکرین کا ہے ۔ دوسرا گروہ وہی نہ ماننے والوں کا ہے ۔ اب ایک تیسرا گروہ بھی نمودار ہوگیا ہے جن کے اذہان اس منکر گروہ کی علمی ، مادی اور عالمی سیادت سے مرعوب اور ان کی حلقہ بگوش ہے ۔ نہ وہ اسلام سے اپنا رشتہ توڑنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اپنے ذہنی مربیوں کے نظریات ، مفروضے اور مزعومات کو رد کرنے قابلیت اور ہمت رکھتے ہیں اس لیے وہ جسمانی معراج کی ایسی تاویلیں کرتے ہیں جن واقعہ معراج کی ساری معنویت ختم ہوجاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اسلام پر وارد ہونے والا ایک بڑا اعتراض دور کردیا ہے ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 2 жыл бұрын
نظریہ ارتقا اللہ تعالی کی ذات کا انکار کرتا ہے قرآن مجید کا کائنات اور تخلیق آدم کے بارے میں بیانات آدم اور حوا علیہما السلام کو اللہ جل شانہ نے جنت میں پیدا کیا ۔ اللہ نے پہلے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان سے ان کا جوڑا حوا علیہا السلام کو پیدا کیا اور انہیں جنت میں رکھا جیسا کہ قرآن میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے : يا آدم اسكن انت و زوجك الجنة و كلا منها رغدا حيث شئتما و لا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين o ( البقرة : ٣٥) اور ہم نے آدم سے کہا کہ " تم اور تمہاری زوجہ دونوں جنت میں رہو اور اس میں سے بفراغت جہاں سے چاہو کھاؤ ، مگر اس درخت کے نزدیک نہ جانا ورنہ ظالموں میں شمار ہوجاؤ گے ۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا : فازلهما الشيطان و أخرجهما مما كانا فيه ، و قلنا اهبطوا بعضكم لبعض عدو ، و لكم في الأرض مستقر و متاع إلى حين o ( البقرہ : ٣٦) پھر لغزش دیدی ان دونوں کو شیطان نے اس ( درخت) کے بارے میں سو نکال دیا ان دونوں کو اس حالت سے جس میں وہ تھے ، اور ہم نے کہا تم ( یہاں سے) اترجاؤ ، تم میں سے بعض بعض کے دشمن رہو گے اور تم ( بنی آدم اور ذریت ابلیس) کے لیے زمین میں ایک مقررہ مدت تک ( for a time ) رہنا ہے اور متاع (زندگی) ہے ۔ ان دونوں سے زمین پر انسانی اولاد پیدا ہوتی اور بڑھتی اور زمین کے مختلف حصوں میں پھیلتی رہی ۔ قرآن میں اللہ جل شانہ نے انسان کی پیدائش کے واقعہ کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے ۔ کیا نظریہ ارتقا قران مجید کے ان بیانات کو مانتا ہے ؟ وہ قرآن کے ان بیانات کو نہیں مانتا اور اس خلاف ایک الگ نظریہ پیش کرتا ہے ۔ اور دھوکہ دیتا ہے کہ یہ ثابت شدہ نظریہ ہے ۔ انسان زمین میں عمل ارتقا ( Evolution) سے وجود میں نہیں آیا اور نہ ان کے اجداد (ancestors) مختلف قسم کے جانوروں اور چمپانزی ( Chimpanzee) سے ارتقا کرتے ہوئے اور مختلف حیوانی مراحل سے گزرتے ہوئے موجودہ انسانی حالت میں ظاہر ہوئے ہیں ۔ قرآن مجید ميں اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے کہ " وإذا قال ربک للملئكة إنى خالق بشرا من صلصال من حمأ من مسنون o فإذا سويته و نفخت فيه من روحى فقعوا لہ ساجدين o فسجد الملائكة كلهم اجمعون o إلا ابليس أبى أن يكون مع السجدين o قال يا إبليس ما لك ألا تكون مع السجدين o قال لم أكن لأسجد لبشر خلقته من صلصال من حمأ مسنون o ( الحجر : ٢٨ -- ٣٢ ) اور جب آپ کے رب نے فرشتون سے کہا کہ میں ایک بشر کو بجتی ہوئی مٹی سے جو کہ سڑھے ہوئے گارے سے بنی ہوگی پیدا کرنے والا ہوں ۔ سو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گرجانا ۔ سو سارے فرشتون نے سجدہ کیا ، سوائے ابلیس کے اس نے اس بات کو قبول نہیں کیا کہ سجدہ کرنے والوں میں شامل ہو ۔ قرآن میں تخلیق آدم کے بارے میں مزید تفصیلات ہیں ۔ جنہیں مختلف سورتوں کی آیات میں بیان کیا گیا ہے ۔ نظریہ ارتقا انسان کی پیدائش کے بارے میں قرآن مجید کے بیانات کو نہیں مانتا اور ان کا انکار کرتا ہے ۔ نظریہ ارتقا کے مطابق آدم علیہ السلام کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ نظریہ ارتقا اللہ جل شانہ کی ذات کو نہیں مانتا ہے بلکہ ایک موجد کائنات اور خالق انسان کا انکار کرتا ہے ۔ اس کا دعوی یہ ہے کہ یہ کائنات اور انسان قدرتی اور طبعی ارتقاء عمل سے وجود میں آئے ہیں اور ان کے وجود میں آنے میں کسی خالق کا ہاتھ نہیں ہے ۔ ہم کائنات اور انسان کی تخلیق کے بارے میں قرآن کے بیانات کو مانتے ہیں اور یہی اصل سائنس ہے ۔ اللہ تعالی کا سورہ الملک میں ارشاد ہے : الا يعلم من خلق و هو اللطيف الخبير . (الملک: 14) كیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے ، حالاں کہ باریک بیں اور باخبر ہے ۔ اس آیہ کریمہ میں اللہ نے انسانوں کو بتایا ہے وہ جو کہتا ہے وہ حقیقی علم ( Science ) پر مبنی ہے ۔ اور آج کے سائنسداں جو کچھ کہتے ہیں وہ حقیقی علم پر مبنی نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ مفروضے اور نظریئے ہوتے ہیں جنہیں نئے مخالف معلومات ( data ) کی بنا پر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر پہلے سائنسداں یہ مانتے تھے کہ یہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اسحق نیوٹن اس نظریہ کو مانتے ہوئے مرا ، لیکن ١٩٢٩ میں امریکی سائنسداں ایڈون ہبل نے پھیلتی کائنات( Expanding Universe ) کا نظریہ پیش کیا جس کی رو سے یہ کائنات ایٹم سے چھوٹے ایک نقطہ (Singular Point) میں سمٹی ہوئی تھی ۔ اس میں ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا اور اس یونیورس کا آغاز ہوا ۔ اس نظریہ کے سامنے آنے کے بعد کائنات کے بارے میں اس نظریہ کو کہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی چھوڑ دیا گیا ۔ نیچرل سائنس میں کوئی چیز دائمی نہیں ہوتی کیوں کہ یہ انسانی علم ہے جو ناقص معلومات اور کم علمی پر مبنی ہوتی ہے ۔ سائنسداں کہتے ہیں کہ پھیلتی کائنات کا نظریہ انسانی تاریخ میں بیسویں صدی میں پہلی بار پیش کیا گیا ۔ اس سے پہلے انسان اس سے واقف نہیں تھا ۔ اسٹیفین ہاکنگ کا یہی دعوی ہے ۔ لیکن قرآن کریم میں اللہ جل شانہ نے ساتویں صدی کے شروع میں انسانوں کو بتادیا تھا کہ " ہم نے آسمان کو اپنے زور ( قدرت کاملہ) سے بنایا ہے اور ہم اس کو پھیلا رہے ہیں "۔ ( الذاريات: ٥١) اس مختص بحث سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ اصل سائنس وہ جسے اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے ۔ اس کے مقابلے میں آج کی سائنس مفروضے اور نظریات پر مبنی ہے جو نئے معلومات کے ساتھ بلا تکلف بدل دیا جاتا ہے ۔ سائنس نے یہ بات خود مان رکھی ہے کہ Completenss is the hallmark of Pseudo science یعنی کاملیت غیر حقیقی سائنس کی علامت ہے ۔ اسی طرح انسان کی تخلیق کے بارے میں نظریہ ارتقا کا حال ہے ۔ یہ نظریہ ثابت شدہ نہیں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ بالکل ثابت ہوگیا جو ایک غلط دعوی اور کھلا دھوکہ ہے ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 2 жыл бұрын
( ٢ ) بیسویں صدی میں اس نقطہ نظر کے حامیوں میں سر سید، ، شیخ محمد عبدہ رشید رضا ، ڈاکٹر محمد جمال الدین آفندی ڈاکٹر ہلاک نور باقی اور شہاب الدین ندوی وغیرہ ہیں ۔ شیخ طنطاوی ان لوگوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہیں جو سائنسی انداز میں تفسیر کے قائل ہیں اپنی تفسیر ' الجواہر فی تفسیر القرآن ' اس انداز کو انہوں نے اختیار کیا ہے اور سائنسی انداز سے آیات کی تفسیر اور تاویلات کی ہے ۔ اس نقطہ نظر کے مخالفین میں امام شاطبی رحمہ ، ڈاکٹر ذہبی ، ڈاکٹر عائشہ عبد الرحمن اور ڈاکٹر امین جولی ہیں ۔ شیخ ذہبی نے اپنی تفسیر ' قرآن کا اعجاز اور حالات زمانہ کا ساتھ دینے کی صلاحیت ' میں اس کے خطرات سے آگاہ کیا ہے ۔ فریق اول کی دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم قیامت تک کے انسانوں کے لیے نازل کیا گیا ہے ۔ اگر آج کی سائنسی ترقی کے دور میں قرآنی آیات کی جدید تفسیر و تشریح سے انسانوں کی ہدایت میں مدد مل سکتی ہے تو اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ قرآن کی آیات میں لطیف اشارے و دلالات اور معانی پوشیدہ ہوتے ہیں اور یہ انسانی علوم میں ترقی کے ساتھ ساتھ سامنے آتے رہتے ہیں ۔ سید قطب شہید رحمہ کا موقف : انہوں نے جدید سائنسی انداز میں تفسیر کرنے کے رجحان پر سخت تنقید کی ہے اور اپنی مشہور زمانہ تفسیر ' فی ظلال القرآن ' میں میں لکھا ہے کہ اصولی طور پر قرآن کی تفسیر کا یہ انداز بالکل غلط ہے ۔ وہ اس کی درج ذیل وجوہات بیان کرتے ہیں : 1-- یہ شکست خوردہ ذہنیت کی علامت ہے اور اس بات کی غماز ہے کہ اس مکتب فکر کے لوگ قرآن کریم کو سائنس کا تابع سمجھتے ہیں ۔ اسی وجہ سے وہ سائنس سے استدلال کرتے ہیں اور اس کی حقانیت سائنس سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ 2-- یہ طرز فکر قرآن کریم کے منشا و مدعا اور اس کی اصل روح کے خلاف ہے ۔ قرآن انسان کی تعمیر اس انداز سے کرتا ہے جو ناموس الہی اور سنن اللہ کے مطابق ہو ۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ انسان خس کائنات میں رہتا ہے اس سے تصادم کی راہ اختیار کرلے ۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ انسان اس بات کو سمجھے کہ یہ کائنات اور اس میں جاری قوانین اس کے وجود اور بقا سے ہم آہنگ ہے وہ اس کا مطالعہ و تحقیق اور اسے سمجھنے کی کوشش کرے ، آفاق میں پھیلی ہوئی آیات سے ایک خالق کائنات کی ذات بابرکات کو سمجھے اور زمین پر اللہ کا خلیفہ ہونے کی حیثیت سے نوامیس فطرت ( Law of Physics ) سے استفادہ کرے ۔ 3-- تیسری وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اس طرح قرآنی آیات کی تاویلات اور قرآنی نصوص کی بہ تکلف سائنسی مفروضات اور نظریات کے مطابق تفسیر کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا ، جبکہ سائنسی مفروضات اور نظریات کا حال یہ ہے کہ وہ جدید معلومات(Data) کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم کائنات اور زندگی کے بارے میں سائنس تحقیقات سے فہم قرآن میں مدد نہ لیں ۔ آیہ کریمہ: سنريهم آياتنا فى الآفاق و فى أنفسهم حتى يتبين لهم أنه الحق o (حم السجدة : ٥٣) عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں اور ان کے انفس میں ، یہاں تک ان پر واضح واضح ہو جائے گا کہ وہ( اللہ کی ذات) حق ہے ۔ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : " اس آیہ کا تقاضا ہے کہ آفاق و انفس کے بارے میں سائنس تحقیقات سے استفادہ کریں اور ان دونوں میدانون مین مطالعات اور تحقیقات برابر جاری رکھیں "۔ ( فی ظلال القرآن : ج ١ ص ۱۸۲)
@islamicstudioallinone9627
@islamicstudioallinone9627 2 жыл бұрын
kzbin.info/www/bejne/hHexqnuthL50bq8 NADWATUL ULAMA KE TAZAH TAREEN MNAZIR
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 2 жыл бұрын
افغانستان میں اسلامی خلافت قائم ہوگئی طالبان نے اکیسویں صدی میں جہاد اسلامی کی یاد تازہ کردی ۔ انہوں نے خلافت اسلامی قائم کردی ۔ اگر پوری دنیا میں کوئی حقیقی اسلامی نظام حکومت قائم ہے تو وہ صرف اور صرف افغانستان کی اسلامی خلافت ہے جو نو میہنے سے افغانستان میں عملا قائم ہے ۔ طالبان ں نے دوحہ قطر میں امریکہ سے صلح کی گفتگو کے وقت پہلی شرط یہ رکھی تھی کہ افغانستان میں مغربی نظام جمہوریت نہیں قائم کی جائے گی بلکہ افغانستان میں اسلامی نظام خلافت قائم کیا جائے گا ۔ طالبان نے سویٹ یونین اور سپر پاور امریکہ کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف طویل جنگیں کیں اور لاکھوں طالبان نے اسلامی خلافت قائم کرنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور جب وہ امریکہ کو اپنی سرزمین سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے تو انہوں نے اسلامی خلافت قائم کرکے پوری دنیا دکھا دیا ۔ اج پاکستان میں ایسے مسلمان ہیں جو اس اسلامی خلافت کی مخالفت کرتے ہیں ۔ مولانا مودودی رحمہ اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے میدان سیاست میں اترے لیکن مغربی جہموریت کا راستہ اختیار کیا نتیجہ یہ ہوا کہ ناکام رہے ۔ ڈاکٹر اسرار صاحب خلافت قائم کرنے کے لیے جوشیلی تقاریر کرتے کرتے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ اردن اور شام کے علاقے میں ایک عرب تنظیم ہے جو اسلامی خلافت قآئم کرنے کی آج بھی دفاعی ہے لیکن وہاں کی حکومتوں کا کیا حال ہے پوری دنیا جانتی ہے ۔ ڈائرکٹر یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ہر مدعی کے واسطے دار و رسم کہاں علامہ اقبال رحمہ کے یہ اشعار طالبان پر پوری طرح صادق آتے ہیں : یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذت آشنائ کشاد درد دل سمجھتے ہیں اس کو ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں دل مردہ مؤمن میں پھر زندہ کردے وہ بجلی کہ تھی نعرہ لا تذر میں علامہ اقبال رحمہ طالبان علامہ اقبال رحمہ کے ان اشعار کے اکیسویں صدی میں حقیقی مصداق ہیں میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر ڈاکٹر محمد لئیق قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 Жыл бұрын
سانحہ کربلا اسباب و عوامل تحفظ اسلام اور بقاء خلافت کی جنگ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : و إذ قال ربك للملائكة إنى جاعل في الأرض خليفة ... ( البقرة : ٤٠ ) اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ مزید اللہ نے فرمایا ہے : كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعرفة و تنهون عن المنكر و تؤمنون بالله ... ( آل عمران : ١١٠ ) تم بہترین امہ ہو جسے لوگوں کی ( ہدایت ) کے لیے نکالا کیا گیا ۔ تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہ وہ لوگ ہیں اگر ہم انہیں زمین پر اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوة دیں گے ، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور تمام امور کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ ( الحج : ٤١ ) ان آیات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی ریاست کس مقصد کے لیے وجود میں آتی ہے ۔ ان کا مزاج کیا ہوتا ہے ، ان کے اعمال کیسے ہوتے ہیں ۔ قرآن کی یہ آیات واضح الفاظ میں بتا رہی ہیں کہ اہل ایمان کے ہاتھوں قائم ہونے والی ریاست کے فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چار خلفاء ہوئے ۔ انہوں نے قرآن و سنت کے مطابق اپنے فرائض انجام دیے ۔ خط انحراف : سب سے پہلے معاویہ رضی اللہ عنہ نے قرآن کی ان تعلیمات سے انحراف کیا : " فكرة الخلافة على النظر و الاختيار ، ثم كان معاوية اول من حول الخلافة ملكا و رغم كل التقلبات ، و رغم طبيعة الحكم الفعلى الذى مارسه هئولاء الحكام ، فإن فكرة الخلافة لم تمت بما تحمله من معنى الشورى ، و من معنى النظر والاختيار " . إن ذلك لأن الملك ليس فى شريعتنا . ( المقرى : سلسلة اعلام العرب - سلسلة اعلام العرب -- ص ٣٦ ) واضع اس پر لکھتے ہیں : إن القلق الذى نشهده في تلك العبارة الساذجة البسيطة التي قالها الفقيه العربي عبد الله المقرى يوجهنا إلى أنه بقصد مباشرة إلى معنى اساسى هو ان الأمة العربية لم يشرع الله الملكية لنظام للحكم ، و ان هذا ضد طبيعتها ، لذلك اختلت أحوال الأمة لأن الأمور سارت ضد طبيعتها " . ( ص : ٣٦ ) فقیہ عبد اللہ المقری کی منقولہ عبارت پر واضع کا یہ تبصرہ قابل غور ہے ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے و أمرهم شورى بينهم ( الشورى : ٣٨ ) و شاورهم في الأمر ( آل عمران : ١٥٩ ) اسلامی ریاست میں مسلمانوں کے معاملات کو شوری کے ذریعے طئے کرنے کا حکم دیا گیا ہے . اس میں شخصی رائے اور مطلق العنانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ استاذ سید قطب شہید رحمہ لکھتے ہیں : " إن وضع الشورى اعمق في حياة المسلمين من مجرد ان تكون نظاما سياسيا ، فهو طابع اساسى للجماعة كلها ، يقوم عليه امرها كجماعة ثم يتسرب من الجماعة للدولة " . ( فى ظلال القرآن : ج ٧ ط ٦ ص ٢٩٢ ) ان كبار علماء نے قرآن کی ان آیات کی تفسیر میں جو کچھ لکھا وہ بہت اہم اور حساس تشریح ہے ۔ میں نے یہ تمہیداس لیے قائم کی ہے کہ سانحہ کربلا پر اپنی بحث کو اسی اساسی نکتہ پر آگے بڑھاؤں ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی nadvilaeeque@@gmail.com
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 Жыл бұрын
تفہیم کائنات آغاز کائنات کا مطالعہ اور تحقیق کائنات کے سربستہ رازوں کو جاننے کے لیے سائسندانوں کی عبقریانہ کوششیں ( 3 ) جیمس ویب ٹیلسکوپ نے بحسن و خوبی اپنا کام شروع کرکے اپنی لے گئی تصاویر ناسا کو بھیج دیا ہے ۔ امریکی صدر بائیڈن نے وہائٹ ہاؤس میں یہ تصاویر دیکھ چکے ہیں ۔ اس موقع پر امریکی صدر نے کہا : " یہ تصاویر دنیا کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ امریکہ اب بھی بڑے کام کرسکتا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ " ہم ممکنات کی دنیا تلاش کررہے ہیں ۔ We are the nation of possibilities " . کائنات کے رازہائے سربستہ کو تلاش کرنے کے دوران نہ معلوم ہمیں کیا مل جائے ! بلا رہی ہے تجھے ممکنات کی دنیا ناسا نے ١٢ جولائی ٢٠٢٢ کو چار رنگین تصاویر جاری کردی ہے ۔ ایک تصویر میں کہکشانوں کا ایک بہت بڑا جھرمٹ نظر آرہا ہے ۔ " Every image is a discovery ". Nasa administrator James Nelson said. The first full -colour, high-resolution pictures from the James Webb Space Telescope were held by NASA as milestone marking as a new era of astronomical exploration. It will embark on a competitively selected agenda exploring the evolution of galaxies,life sycle of stars,atmosphers of distant exoplanets. میں جیمس ویب ٹیلسکوپ کے مقاصد میں لکھ چکا ہوں کہ یہ ٹیلسکوپ کیا کیا کم کرے گا ۔ ان تصاویر سے سائنسداں کائنات کے بارے میں معلومات ( informations ) حاصل کرتے ہیں ایک تصویر میں ہزاروں کہکشانوں کا جھرمٹ نظر آرہا ہے ۔ ایک تصویر میں سولر سسٹم بنتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ یہ ایک نو زائیدہ نظام شمسی ہے جسے سائنسداں ارتقا کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ۔ اگر ہم ان تصاویر کو اچھی طرح سمجھیں تو بگ بینگ کے دو سال بعد کی کائنات کو ارتقا کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں ۔ کیا ایک انسان ان باتوں کو سوچ کر حیرت و استعجاب کے سمندر میں غرق نہیں ہوجائے گا !؟ ہم آج کی تاریخ میں اس محیر الرسول دور میں زندگی گزار رہے ہیں!!! جیمس ویب (JWST ) ٹیلسکوپ کا فزکس کی دنیا میں انقلاب برپا کرنا شروع کردیا ہے ۔ ان کے مقابلہ میں مسلم ملکوں کا کیا حال ہے ۔ خلائی تحقیقات کا ایک بھی قابل ذکر ادارہ دنیا کے کسی مسلم ملک میں نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں السماء سے متعلق کتنی آیات ہیں جو جدید تحقیقات کی متقاضی ہیں لیکن ہم ان کی تحقیقات نہیں کر سکے ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ مسلم حکمراں صرف اپنے مغربی آقاؤں کی غلامی کرتے رہے اور دنیا کے مسلم عوام کو دھوکے دیتے رہے ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی Director Amena Institute of Islamic Studies and Analysis A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com
@muneermuhamad
@muneermuhamad Жыл бұрын
Mashallah
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 Жыл бұрын
Expanding Universe A sign of Allah پھیلتی کائنات اللہ تعالی کی ایک عظیم نشانی قرآن میں اللہ جل شانہ نے ساتویں صدی کے آغاز میں ہمیں بتایا ہے : " ہم نے آسمان کو اپنے زور ( قدرت) سے بنایا اور ہم پھیلا رہے ہیں " (الذاریات : 47) ایڈون ہبل امریکی سائنسداں نے 1929 میں کہا کہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ ہبل نے اپنے بنائے ہوئے ٹیلسکوپ سے اس کا مشاہدہ کیا تھا ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے ساتویں صدی میں جبکہ ٹیلسکوپ ایجاد نہیں ہوا تھا ، کون کہہ سکتا ہے کائنات پھیل رہی ہے؟ اس زمانہ میں سائنس اور ٹکنالوجی آج کے مقابلے میں نا کے برابر تھی ۔ ٹیلسکوپ کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو بغیر ٹیلسکوپ کے کون کہہ سکتا تھا کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے ؟ ایڈون ہبل نے ٹیلسکوپ کے ذریعہ مشاہدہ کیا کہ کہکشائیں دور جارہی ہیں اور اس کا رنگ سرخ ہوتا ( Red shift ) جارہا ہے ۔ سائنسدانوں کا یہ کہنا جیسا کہ اسٹیفن ہاکنگ نے دعوی کیا ہے کہ تاریخ انسانی میں پہلی بار یہ دریافت کیا گیا کہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ اس سے پہلے انسان اس سائنسی حقیقت سے واقف نہیں تھا ۔ آئنسٹائن کو بھی یہ نہیں معلوم تھا کہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ جب اسے یہ بتایا گیا تو اس نے انکار کیا لیکن جب ایڈون ہبل ( Edwin Hubble) نے اسے اس کے شواہد دکھائے تب اس نے مانا اور کہا کہ : "Cosmological Constant theory was my blunder mistake". مذکورہ بالا قرآن کی آیہ میں اللہ جل شانہ نے اس بات کو اپنی ذات کی نشانی کے طور پر بیان کیا ہے ۔ اس مادیدنیا میں ان مادی آنکھوں سے انسان اللہ تعالی کو نہیں دیکھ سکتا ہے ۔ اس لیے اس نے قرآن میں اپنی نشانیاں بیان کی ہیں : ہم عنقریب ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق ( Horizons) میں بھی اور ان کے جسم (bodies ) میں بھی ۔ اس آیہ کریمہ میں بائیولوجی سائنس کی اس ترقی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو آج ماڈرن میڈیکل سائنس نے کیا ہے ۔ پھیلتی کائنات قرآن کے بیان کے مطابق ایک حقیقت کیوں کہ افضل سائنس وہ ہے جسے قرآن نے بیان کیا ہے ، نا کہ آج کے سائنسی نظریات اور مفروضے ۔ اللہ خالق کائنات ہے اس لیے وہ کائنات کے ذرہ ذرہ سے اچھی طرح واقف ہے ۔ سائنسدانوں کی معلومات کائنات کے بارے میں مھدود اور ناقص ہیں اس محدود معلومات کی بنا پر اللہ جو مبدع ( موجد ) کائنات پے اس کا انکار کرنا کہاں تک جائز ہے ؟! میرے نزدیک اس کا کوئی جواز نہیں ہے : علامہ اقبال رحمہ اپنی نظم ' لینن خدا کے حضور میں ' عالم خیال میں لینن کی زبانی کہا ہے : سے انفس و آفاق میں پیدا تیرے آیات حق یہ کہ ہے زندہ و پایندہ تری ذات میں کیسے سمجھتا تو ہے یا کہ نہیں ہے ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات سائنسی نظریات اور مفروضے بولتے رہتے ہیں جبکہ قرآن کے بیانات اٹل اور مستقل ہیں ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 Жыл бұрын
مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ کی مشہور زمانہ تصنیف : ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين مسلمانوں کے زوال سے دنیا کو کیا نقصان ہوا سے ہوا ۔ علامہ ندوی رحمہ کا عالم عرب میں تعارف اور مقبولیت ان کی مذکورہ بالا تصنیف سے ہوا 1944 کے زمانہ میں علامہ ندوی رحمہ کے دل میں اس کتاب کے لکھنے کا خیال آیا ، اس وقت ان کی عمر تیس سال سے زائد نہ تھی ، یہ خیال اور اس کا تقاضہ اس قدر ان پر غالب ہوا کہ انہوں اس پر لکھنے کا فیصلہ کرلیا اور عربی زبان میں لکھنے کو ترجیح دی ۔ علامہ ندوی رحمہ عربی زبان و ادب کے ماہر تھے اور عربی میں تحریر و تقریر پر ان کو پوری قدرت اور ید طولی حاصل تھا ۔ وہ عالم عرب کو اسی کی زبان میں مخاطب کرتے تھے ۔ اگر عالم اسلام کا کوئی عالم دین اس زبان میں تحریر و تقریر میں مکمل قدرت نہیں رکھتا ہے تو علماء عرب میں مقبول نہیں ہوسکتا ہے ۔ وہاں کے بڑے بڑے اہل علم و فضل اسے سند قبولیت عطا نہین کریں گے اور اس کے بغیر عالم عرب میں کسی کی شخصیت مستند اور معتبر نہیں ہوسکتی ۔ علامہ ندوی رحمہ کی یہ کتاب پہلی بار قاہرہ ، مصر کے معروف ادارہ ' لجنة التأليف والترجمة والنشر ' قاہرہ سے شائع ہوئی تو بہت مقبول ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی ۔ کیا عوام اور کیا خواص ، کیا شاہی و حکمراں طبقہ اور کیا علماء و مفکرین و مشاہیر عرب سب کو اس اہم ، تاریخی شاہکار تصنیف نے متاثر کیا ، ان کے اندر زندگی کی لہر پیدا کردی اور ان کے اندر جوش و جذبہ اور عزم و حوصلہ پیدا کردیا ۔ انہوں نے اس کتاب کو وقت کی ایک اہم ضرورت ، اور اسلام کی اہمیت وضرورت کو سمجھانے کے لیے ایک قابل قدر اور قابل تحسین کوشش قرار دیا ۔ مصر کے مشہور ادباء اور اہل قلم احمد امین ، ڈاکٹر محمد موسی اور سید قطب شہید رحمہ اللہ علیہ نے اس کتاب کا مقدمہ لکھا ۔ شیخ احمد الشرباصی نے ' ابوالحسن علی الندوی ' صورة وصفية ' کے عنوان سے علامہ ندوی رحمہ کا بہتر تعارف کرایا ۔ سید قطب شہید رحمہ اللہ علیہ نے تحریر کیا ہے کہ انہوں نے اس موضوع پر جو چند کتابین پڑھی ہین ، ان میں اس کتاب کو خاص مقام حاصل ہے یہ کتاب بڑی مدلل ، مربوط اور حقیقت پسندانہ علمی اسلوب میں لکھی گئی ہے ۔ اس کتاب کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے اس موضوع کو اس کے اصول وکلیات کے وسیع دائرے اور اس کی صحیح روح کے مطابق پوری گہرائی سے سمجھا اور پیش کیا ہے ۔ اس بناء پر یہ کتاب تاریخی ، اجتماعی اور دینی تحقیق کا ایک بہتر اور شاندار نمونہ ہے بلکہ اس کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے اسلامی تاریخ اور اس کی تصویر کو کس طرح دنیا کے پیش کرنا چاہیے " ۔ اس کتاب میں فاضل مصنف نے یہ دکھایا ہے کہ مسلمانوں کے زوال سے عالم انسانی پر کیا منفی اثرات پڑے اور عالم انسانیت کو اس سے کیا نقصانات پہنچے ۔ یہ بہت اہم اور تاریخی نکتہ ہے جس کی اہمیت کو علامہ ندوی رحمہ سمجھا اور اسے بہت ہی مؤثر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ اسلام سے پہلے جب ایک اللہ کے تصور ، اس کی ذات پر ایمان اور صرف اس کی عبادت سے انسانیت منحرف اور نآ آشنا ہوچکی تھی اور ربانی تعلیم و تربیت کو بالکل فراموش کر چکی تھی جس کی وجہ سے دنیا کی تمام قوموں کی مذہبی اخلاقی ، سیاسی ، معاشی اور تمدنی حالات انتہائی خراب اور زبوں حالی کا شکار ہوچکے تھے ۔ اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرانی تعلیمات و تربیت کے ذریعہ جزیرة العرب کے عربوں کو جہالت اور تاریکی سے نکال کر ان کی زندگی کو بالکل بدل کر ان کے اندر قرآنی اخلاق پیدا کردیا ۔ ان کے ایمان و عقیدہ اور افکار و اعمال مین توحید کی اساس پر عظیم الشان انقلاب برپا کردیا ۔ امہ مسلمہ کا مقصد وجود : ساتوین صدی کی پہلی چوتھائی میں جو امہ مسلمہ رسول آخر الزمان کی تعلیم و تربیت سے وجود میں آئی وہ گزشتہ تمام نبوتوں ، رسالتوں اور امتوں کی وارث اور ان کا آخری نقش تھی ۔ ایمان و عقیدہ اور فکر و نظر کے اعتبار سے اللہ جل شانہ کے نزدیک انسانوں کی صحیح اور قابل قبول حالت یہی ہے ۔ یہ امہ جس مقصد اور نصب العین کے لیے نکالی گئی ہے وہ تاریخ کے تمام انبیاء اور پیغمبر آخر الزمان کی بعثت کا اصل مقصد ہے ۔ كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف و تنهون عن المنكر ( آل عمران : ١١٠) تم بہترین امہ ہو جسے لوگوں کی ہدایت کے لیے نکالا گیا ہے ۔ تم معروف کو حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو ۔ امہ مسلمہ کی تعلیم و تربیت مکمل ہونے کی گواہی اللہ جل شانہ نے خود قرآن میں دی ہے کہ وہ اب اس کی قابل ہوگئی ہے کہ اسے عالم انسانیت کی قیادت وسیادت کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ الذين إن مكنهم فى الأرض أقاموا الصلوة و أتوا الزكوة و أمروا بالمعروف و نهوا عن المنكر ولله عاقبة الأمور o ( الحج : ٤١) یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہہں زمین پر اقتدار تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوة دیں گے ، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ یہ اہل ایمان جزیرة العرب سے نکل کر کرہ ارض کے ایک بڑے حصہ میں پھیل گئے اور اسلام کے نور سے دنیا کو منور اور اس کے عدل و مساوات پر مبنی تعلیمات سے روشناس کیا اور انسانی تاریخ میں پہلی بار دنیا کے سامنے جدید اسلامی نظام ( New Islamic Order ) پیش کیا گیا ۔ اللہ کے بندے بندوں کی عبادت اور غلامی سے نکل کر اللہ جل شانہ کی عبودیت اور غلامی میں داخل ہوکر آزاد ہوگئے ۔ ہزاروں سال کی غلامی کے بعد انہیں حقیقی آزادی ملی ۔ تیئیس سالہ نبوت و رحمت کا عہد اور تیس سالہ خلافت راشدہ کے دور نے ایک بالکل نئی دنیا سے عالم انسانیت کو متعارف کرایا ۔ ہوئے احرار ملت جادہ پیما اس تجمل سے تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے انسانی علامہ اقبال رحمہ اسلامی تعلیمات کی وجہ روئے زمین میں ایک ایسی امت پیدا ہوئی جو عالم انسانیت کے لیے نمونہ عمل بن گئی اور ایک زمانہ تک یہ امت عالم انسانیت کی قیادت و سیادت کے مقام پر فائز رہے ۔ لیکن جب یہ امت زوال پذیر ہوئی اور اس کا انحطاط شروع ہوا تو اقوام عالم کی سیادت و قیادت اس کے ہاتھوں سے نکل کر ان مغربی اقوام کے ہاتھوں میں آگئی جو اسلامی تعلیم و تربیت سے محروم و نا آشنا تھے اور جن کا نقطہ نظر مادہ پرستی ، نفس پرستی تھا ، جو فکر آخرت اور اپنے اعمال کی جوابدہی کے تصور سے نا آشنا تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی پرانی جاہلیت نئی شکل و صورت میں جلوہ گر ہوگئی ، اور انسانیت اس فیض اور خیر و برکت سے محروم ہوگئ جو اسلام لے کر آیا تھا ۔ علامہ ندوی رحمہ نے اس کتاب کے لکھنے کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 Жыл бұрын
تفہیم کائنات آغاز کائنات کا مطالعہ اور تحقیق ہماری یہ کائنات ناقابل تصور حد تک وسیع و عریض اور حیرت انگیز ہے ۔ کائنات اور زندگی کے رازہائے سربستہ کو جاننا کوئی آسان کام نہین ہے ۔ پم نے اس لامتناہی کائنات کے ایک کونہ میں دیکھنے کے بعد یہ سمجھ لیا کہ ہم نے کائنات کے راز کو جان لیا ہے ۔ حقیقت یہ کہ ہم پورا سچ نہین جانتے ہیں ۔ سائنسداں اپنی تمام تر تحقیقات کے باوجود اس کائنات کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں ۔ یہ کائنات اپنے راز اتنی آسانی سے اجاگر نہیں کرتی ۔ ہم پورا سچ نہین جانتے ۔ کیا ہم کائنات کے راز کو کبھی جان پائیں گے ۔ سائنس کی مدد سے ہم ان قوانین کو جاننے کی کوشش کرتے ہین جنہیں اللہ تعالی نے اس کائنات میں ودیعت کر رکھا ہے ۔ لیکن سائنسداں کائنات کے کام کرنے کے طریقے کو سمجھنے کی مسلسل کوششیں کررہے ہین اس سلسلے میں آن کی کوششیں حیرت انگیز بھی ہیں اور قابل ستائش بھی ۔ ان سے ہماری معلومات میں اضافہ ہورہا ہے اور ہم ان کے فوائد سے مستفید ہورہے ہین ۔ ہماری اس کائنات کا آغاز کیسے ہوا ؟ سائنسداں سر جوڑ کر اس کو سمجھنے کی مسلسل کوششیں کررہے ہین ۔ ٢٥ دسمبر ٢٠٢١ میں ناسا نے ایک جدید ترین انتہائی ترقی یافتہ ٹیلسکوپ جیمس ویب JWST لانچ کیا ہے جس پر تقریبا دس ارب ڈالر صرف ہوئے ہیں ۔ یہ اس مقصد کے لیے لانچ کیا گیا ہے کہ سائنسداں جان سکیں کہ اس کائنات کا آغاز کیسے ہوا ؟ اس کا کام کائنات مین پیدا ہونے والی سب سے پہلے ستارہ اور پہلی گلکسی ( Glaxy ) کو بنتے ہوئے دیکھنا ہے ۔ سائنسداں اس کی مدد سے یہ جان سکیں گے ۔ ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ جب تک ہم یہ نہ جان لیں کہ پہلے مائیکرو سیکنڈ مین کیا ہوا تھا تب تک کائنات کے آغاز کا معمہ حل نہین ہوگا اور Mysteries باقی رہیں گیں ۔ اگر ہم اسے اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں تو کائنات کے بارے میں ہماری سوچ بالکل بدل جائے گی ۔ جیمس ویب اسپیس ٹیلسکوپ وقت میں اتنا پیچھے دیکھے گا کہ وہ روشنی کی پہلی چمک اور اس جگہ کو exactly دیکھے گا جہاں پہلے ستارہ نے جنم لیا تھا ! اس کائنات کو 8۔13 ارب سال پہلے کی بالکل ابتدائی حالت میں دیکھنا بہت بڑا چیلنجنگ کام ہے ۔ بگ بینگ کے پہلے مائکرو سیکنڈ میں کائنات کو ارتقا کرتے ہوئے دیکھنا تفہیم کائنات کی شاہ کلید ہے ۔ سائنسداں اس کی بالکل صحیح جانکاری حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ ڈارک میٹر سائنسدانوں کے لیے ایک راز بنا ہوا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری کائنات کے بننے میں اس کا رول ہے ۔ کائنات کا 95% مادہ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی ہے ۔ ان کو سمجھنے سے سائنسداں اب تک قاصر ہیں ۔ اس نا معلوم مادہ کو اچھی طرح جانے اور سمجھے بغیر اس کائنات کے لاینحل گتھیوں کو سلجھانا ممکن نہیں ہے ۔ سائنسداں کہتے ہین کہ اسی مادہ نے ہماری موجودہ کائنات کو بنایا ہے ۔ جیمس ویب JWST ٹیلسکوپ اس بارے میں معلومات فراہم کرسکتا ہے ۔ ناسا کائنات کی ابتدائی انتہائی گرم گھنی حالت کو جب وہ ہائیدروجن گیس کا ایک عطیم بادل تھا کے مشاہدے اور تحقیق کے لیے یہ ٹیلسکوپ لانچ کیا ہے ۔ یہ زمین سے ڈیڑھ لاکھ کلو میٹر دور Lagrange point L2 میں کام کرنے کے لیے بھیجا ( deploy )کیا گیا ہے ۔ کائنات کو اس کی بالکل ابتدائی حالت میں ارتقا کرتے ہوئے دیکھنا اور کائنات کی آج جو شکل و صورت ہے وہ کیسے بنی ؟ قرآن نے اس حقیقت سے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ آسمان پہلے دخان ( دھواں) تھا ۔ ثم استوى إلى السماء و هى دخان فقال لها و للارض ائتيا طوعا أو كرها ، قالتا أتينا طائعين o ( حم السجدہ : ١١ ) پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا ۔ اس نے آسمان اور زمین سے کہا " وجود میں آجاؤ ، خواہ تم چاہوں یا نہ چاہوں " ۔ دونوں نے کہا " ہم آگئے فرمانبرداروں کی طرح " ۔ آخر کوسمک ڈارک ایج ( 🍖Cosmic Dark Age ) مین کونسا راز چھپا ہے جس کی وجہ سے یہ کائنات بنی ۔ اس کو جاننے کی کوشش کرنا ۔ یہ چند اہم بنیادی باتیں ہیں جن کو جانے بغیر کائنات کے آغاز کو نہیں سمجھاجاسکتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم ان اہم باتوں کو اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں تو کائنات کے بارے میں ہماری سوچ بالکل بدل جائے گی اور فزکس کی دنیا میں بہت بڑا انقلاب آجائے گا ۔ سائنسداں کائنات کے آغاز اور اس کو ارتقا ( Evolve) کرتے ہوئے اور جہاں dust cloud کے پیچھے ستاروں کا جنم ہوتا ہے ، اس جگہ کو دیکھنا چاہتے ہیں ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کائنات برابر پھیل رہی ہے اور پھیلتے ہوئے اس کی روشنی سرخ ہوجاتی ہے جسے Red shift کہتے ہیں اور مزید تیزی سے پھیلتے ہوئے یہ سرخ روشنی Infrared ہوجاتی ہے ۔ ہبل ٹیلسکوپ اس روشنی کو نہیں دیکھ سکتا ۔ یہ کہکشائیں اتنی دور چلی جاتی ہیں جہاں سے ان کی روشنی ہمیں نظر نہیں آتی ۔ جیمس ویب ٹیلسکوپ میں New infrared camera IR instrument لگا ہوا ہے اس لیے یہ انتہائی دور جاتے ہوئے گلکسیز کے Infrared روشنی کو دیکھ کر ہمیں ان گلکسیز ( کہکشاؤں) کی بالکل صحیح حالت کو بتائے گا جس سے کائنات کی وسعت کو اور ان کی ابتدائی حالت کو سمجھنے مین مدد ملے گی ۔ کائنات اور زندگی کا آغاز کیسے ہوا اس گتھی کو سلجھانا جیمس ویب ٹیلسکوپ کا اہم مشن ہے ۔ اس کی مدد سے سائنسداں کائنات کا زیادہ بہتر طریقہ سے مطالعہ اور تحقیق کرسکیں گے جیمس ویب (JWST ) ٹیلسکوپ کا فزکس کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے کا سفر شروع ہوچکا ہے ۔ تازہ اطلاع کے مطابق جولائی سے یہ پوری طرح کام کرنے لگے گا ۔ اس کی مدد سے سائنسداں تفہیم کائنات کے ایک عظیم اور محیر العقول سفر کا آغاز کردیا ہے ۔ کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی Director Amena Institute of Islamic Studies and Analysis A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 2 жыл бұрын
سقوط خلافت کے بعد امہ مسلمہ کی حالت زار آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کی تھی کہ " عنقریب قومیں تم پر ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے کھانے پڑتے ہیں "۔ اس پیش گوئی کا آغاز صلیبی جنگوں( ١٠٩٥-- ١٢٩١) سے ہوا ۔ یہ عالم عیسائیت کا امت مسلمہ پر پہلا اور زبردست حملہ تھا ۔ اس کے پیچھے یہودی سازش کام کر رہی تھی ۔ یہ پہلی صلیبی جنگ تھی جس میں جس عیسائی بیت المقدس قابض ہوگئے ۔ ١٤٩٣ میں جنوبی اسپین میں اموی حکومت کو ختم کردیا گیا ۔ اس کے بعد یوروپ میں عثمانی سلطنت کے خلاف صلیبی جنگ کی آواز بلند ہونے لگی ۔ ان کے خلاف در پردہ گہری ، طویل المدت اور منصوبہ بند سازش کے تحت عمل ہوتا رہا ۔ ١٦٨٣ میں ویانا میں قرہ مصطفی پاشا کو یوروپی ممالک کے مقابلہ میں ایک بڑی شکست ہوئی ۔ سلطنت عثمانیہ کی اس شکست پر پورے یوروپ میں بہت خوشی منائی گئی ۔ آسٹریا ، بولونیا ، وینس ، سلطنت روس ، رہبان مالٹا اور پاپائے روم نے مل کر " مقدس عہد" کیا کہ یوروپ سے عثمانیوں کو نکال کر دم لیں گے تاکہ اسلام یوروپ میں عیسائیت کا حریف نہ بن سکے اور اس کے اثرات بالکل ختم ہوجائیں ۔ ١٦٩٩ میں معاہدہ کرلووٹز( Treaty of Korlowitz) ہوا ۔ اس کے تحت بہت سے یوروپی مفتوحہ علاقوں کو اسے چھوڑ نا پڑا اس کے بعد عثمانی سلطنت کمزور ہوتی چلی گئی ۔ عثمانی فوج کا یوروپی ممالک اور ان کے افواج پر جو رعب و دبدبہ تھا وہ بھی کمزور ہوگیا ۔ حقیقی خلافت تو ٦٦١ ھ ہی میں ختم کردی گئی تھی ۔ اس کی وجہ صرف داخلی نہیں بلکہ خارجی بھی تھی لیکن روئے ارض پر اس کی اعتباری حیثیت باقی رہی ۔ مرور زمانہ کے ساتھ وہ بھی شکست و ریخت کا شکار ہونے لگی اور اس کا جاہ و جلال اور تب و تاب بھی ختم ہوگیا ۔ سلطنت عثمانیہ کے آخری زمانہ میں صیہونی صلیبی منصوبہ بند سازشوں نے زور پکڑا ۔ خلافت اور اسلامی تعلیمات کو بیکار اور فرسودہ قرار دے کر یوروپ کے جمہوری نظام اور ملحدانہ نظریات کے لیے راہ ہموار کی جانے لگی ۔ مصطفی کمال اتاترک ایک مسلم نما یہودی فوجی کمانڈر کو ہیرو بناکر پیش کیا گیا اور اسی کے ہاتھوں خلافت کی قبا چاک کردی گئی ۔ چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا میں سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ سلطنت عثمانیہ ہی عالم اسلام اور امہ مسلمہ کی مرکزی طاقت اور جائے پناہ تھی جس نے سارے عالم اسلام كو متحد کر رکھا تھا ۔ عثمانیوں نے اسلام اور مسلمانوں کی وہ خدمات کیں جن سے عباسی خلافت اپنی شکستہ حالت اور ناتوانی کی وجہ سے بالکل قاصر ہوچکی تھی ۔ چھ سو سال تک وہی صلیبی حملوں سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے سینہ سپر اور شمشیر بکف رہے ۔ جسد اسلامی کو انہوں نے ہی صیہونی اور صلیبی حملوں سے بچاکر رکھا تھا ۔ اس لیے اعداء اسلام کی غاضبانہ نظر انہیں پر مرکوز رہی کہ اگر عثمانی سلطنت کو ختم کردیا جائے تو سارا عالم اسلام ان کے قبضہ میں آجائے گا اور دنیا کی حکمرانی اور قیادت ان کے ہاتھوں میں آجائے گی ۔ بالآخر صدیوں کی مسلسل سازشوں اور منصوبہ بند عمل اور کوششوں سے وہ اپنے ناپاک اور شیطانی منصوبہ میں کامیاب ہوگئے ۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد امہ مسلمہ بے یار و مددگار ہوگئی اور اس کا کوئی پرسان حال نہ رہا ! وہ اعداء اسلام کے نرغے میں آگئی انہوں نے جسد اسلامی کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے عالم اسلام کا شیرازہ بکھیر کر ان پر غاصبانہ قبضے کرلیا ۔ اس کے بعد جدید ابلیسی عالمی نظام کے تحت ان کو طرح طرح کے شکنجوں میں اس طرح جکڑ دیا کہ وہ لاچار ، بے بس اور بالکل مجبور گئی ۔ 1948 میں فلسطین میں اسرائیل کی ناجائز ریاست قائم کردی گئی ۔ ایک عالمی منصوبہ بند سازش کے تحت نامہ مسلمہ کو دین اسلام سے متنفر اور دور کیا جانے لگا ۔ مسلم ملکوں کی طاقت کو توڑ کر خود اس کے خلاف استعمال کیا جانے لگا ۔ ان وجوہات سے امہ مسلمہ مخلتف قسم کی ذہنی اور نفسیاتی اضطراب میں مبتلا ہوگئی ۔ اس صورت حال نے امہ مسلمہ پر بہت خراب منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور وہ ذہنی جمود اور تعطل کا شکار ہوگئی ۔ خلافت کے خاتمہ کے بعد مسلسل اس کی حمیت ، دہنی غیرت اور اسلامی تشخص پر ہونے والے حملوں سے اس کی ملی آرزوؤں اور امنگوں کا خون ہوتا رہا ۔ ان تمام تکلیف دہ حالات کا سبب سقوط خلافت کے بعد مسلم ممالک میں بٹھائی ہوئی نام نہاد مسلم قیادت ہے ۔ وہ فریب خوردہ ، شکست خوردہ ، بے نشاط اور بزدل ہوکر منافق ہوگئی ہے ۔ وہ اسلامی فکر و نظر سے محروم اور لادین ہوچکی ۔ آج امہ مسلمہ کو یہی شکایت ہے اور وہ اسی زبون حال قیادت کی منافقت اور بزدلی کا شکار ہے ۔ انہیں اگر فکر ہے تو صرف اس کی کہ ان کے سرپرست اور مغربی آقا کہیں ناراض نہ ہوجائیں اور ان کی نظر عنایت سے محروم نہ ہوجائیں ۔ سید قطب شہید رحمہ کے برادر خورد محمد قطب رحمہ نے 1990 میں ایک کتاب ' واقعنا المعاصر ' لکھی تھی ۔ اس انہوں نے امہ مسلمہ کی اب تک کی سرگزشت اور عناصر تاریخ کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ یہ کتاب سعودی عرب سے شائع ہوئی تھی ۔ یہ ایک مختصر تحریر ہے جسے مسلمانوں کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
@armandilkash3737
@armandilkash3737 8 ай бұрын
بھائی بنیادی ٹائپنگ مسٹیک ہے اگر مدارس کے لوگ بھی ایسی غلطی کرنے لگے تو اردو کا واقعی جنازہ نکل جائے گا اس کو ضرور درست کر لینی چاہیے
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 Жыл бұрын
ہندستان کا اخلاقی بحران مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں : " ہم امید کرتے ہیں کہ للہ تعالی ہمیں اس ملک کی قیادت عطا فرمائیں گے ۔ " اس ملک کا کوئی عنصر اس قابل نہیں رہا کہ اس ملک کو بچاسکے ، سب دولت پرست ہیں ، اقتدار پرست ہیں ، مادہ پرست ہیں ، دنیا پرست ہیں اور ہوس پرست ہیں " ۔ ملک کی ایسی بوالہوس قیادت اس کی کیا حفاظت کرے گی ! اس لیے اب ناگزیر ہوگیا ہے کہ اس کی قیادت اس طبقے کے حوالے کردی جو اس کی اور یہاں کے عوام کی حفاظت کرسکیں ۔ عطا مومن کو پھر دربار حق سے ہونے والا ہے شکوہ ترکمانی ، ذہن ہندی ، نطق اعرابی علامہ اقبال رحمہ
@mohdsaifullah3865
@mohdsaifullah3865 Жыл бұрын
القاب لگانے کے اندر نائب مہتمم حضرت مولانا عبد القادر ندوی صاحب کے ساتھ نا انصافی ھوئ ھے
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 Жыл бұрын
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہندؤوں کی مقدس کتابوں میں " وشنو ياس " عبدالله ، " سومتى " آمنه " محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ کا نام عبد اللہ اور ان کی ماں کا نام سومتی ( آمنہ ) تھا ۔ اسی طرح بہت سی باتوں کا ذکر ہندؤوں کی مذہبی کتابوں میں آیا ہے ۔ یہ باتیں پیش گوئیاں ہیں کہ ایک آخری نبی اور رسول ساری ا نسانیت کی رہنمائی اور راہ ہدایت کے لیے آئے گا اور سارے انسانوں کے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہوگا ۔ ہندؤوں کی کتاب میں لکھا ہے کہ : " ان پر پہلی وحی ایک غار میں نازل ہوگی " محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی ایک غار میں نازل ہوئی تھی ۔ ۔ " کلکی اوتار " در حقیقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہین ۔ اس مین کوئی شک و شبہ نہین ہے ۔ " کلکی اوتار گھوڑے پر سوار ہوکر تیر اور تلوار سے اپنے دشمنوں سے جنگ کرے گا " ۔ یہ بات بھی پوری طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتی ہے ۔ ہندو کلکی اوتار کا انتظار کر رہے ہیں ۔ کیا اج اگر کلکی اوتار آتے ہین تو وہ اپنے دشمنوں سے تیر اور تلوار سے جنگ کرین گے؟! آج گھوڑے پر سوار ہوکر تیر اور تلوار سے جنگ کا زمانہ نہین ہے ۔ یہ بڑی مضحکہ خیز بات ہے ۔ آج تو جدید ترین لڑاکو طیارے ، بندوقوں اور ٹینکوں کا زمانہ ہے ۔ آج دنیا میں جنگیں ہورہی ہیں اور دنیا اچھی طرح جا تی ہے کہ آج کے دور میں جنگیں کس طرح لڑی جاتی ہیں ۔ در حقیقت کلکی اوتار ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ساتویں صدی میں آکر اور اپنے دشمنوں سے گھوڑے پر سوار ہوکر تیر و تلوار سے جنگ کرکے اس دنیا سے جا چکے ہین ۔ انہوں نے اللہ کے دین کو جزیرہ العرب کے بت پرستوں تک پہنچایا اور اس مقصد کے لیے بڑی تکلیفیں اٹھائیں ، یہاں تک کہ پورے جزیرہ العرب کے لوگ اسلام لے آئے ۔ کلکی اوتار اور نراشنس جن کا ذکر ہندؤوں کی مقدس کتابوں میں آیا ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہین ۔ یہ باتیں ویدہ میں بیان کی گئی ہیں ۔ کھنڈتری ، بھوش پرانا اور دوسرے ابواب میں ان کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں تفصیل ڈاکٹر ذاکر نائیک کے لکچرس ( Lectures ) میں حوالوں کے ساتھ مل جائیں گی ۔۔ ہمارے ہندو بھائی اور بہنیں ان کے لکچرس سن چکے ہیں اور ان سے واقف ہیں ۔ بنارس ہندو یونیورسیٹی کے ایک سنسکرت کے پروفیسر نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھ چکے ہین ۔ انہوں نے بہت تفصیل سے حوالوں کے ساتھ لکھا ہے کہ ہماری مذہبی کتابوں میں جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پوری اترتی ہیں ۔ کلکی اوتار اور نراشنس در حقیقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں کوئی اور نہیں ۔ ہندؤوں کو چاہیے کہ نراشنس اور کلکی اوتار پر ایمان لائیں اور ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزاریں ۔ یہی بات اس سنسکرت کے پروفیسر نے ہندؤوں کو کہا ہے ۔ اب ہندوون کی نجات اسی مین ہے کہ اپنی قدیم کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں کو مانیں اور صراط مستقیم پر گامزن ہوجائیں ۔ اسی مین ان کی فلاح اور کامیابی ہے ۔ اس دنیاوی زندگی میں بھی اور موت کے بعد آخرت کی دائمی اور ابدی زندگی مین بھی ۔ ہندؤوں کے علماء ( پنڈتوں ) نے انہیں ویدھ اور ان باتوں کو کبھی نہیں بتایا اور نا آج بتاتے ہیں ۔ جب ان سے اس بارے میں پوچھا جاتا ہے تو انکار اور طرح طرح کی تاویلیں کرتے ہیں ۔ ایک ہندو نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نایک کے لکچرس سے ہمیں اپنے مذہب کی وہ باتیں معلوم ہوئیں جو نہیں جانتے تھے ۔ ہندؤوں کی مذہبی کتابوں کا گہرائی سے مطالعہ اور ٹحقیق بھی ضروری ہے ۔ یہ کام پنڈت بشیر الدین شاہجہانپوری ، ابو محمد رام نگری کے بعد ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کیا اور ہندستان کے عوام تک پہنچایا ۔ یہ ایک مختصر تحریر ہے جن میں صرف چند باتوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اللہ جل شانہ ہنندؤوں کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اللہ اور اس کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم( جن کا وہ انتظار کر رہے ہیں ) ایمان لائیں اور جنت میں جانے کے لیے عمل کریں ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 Жыл бұрын
بوسنیا ہرزگوینا یوروپ کے خطہ بلقان کا کا مسلم ملک اسلام اور مسلم دشمنی کا شکار میں یوروپ کی امہ مسلمہ کی تاریخ کے اس اندوہناک دور میں ان کا شریک غم ہوا ۔ 1991 میں سویٹ یونین کے ختم ہونے کے بعد خطہ بلقان میں صورت حال بالکل بدل چکی تھی اور یہاں کی قوموں نے آزادی کا راستہ اختیار کرلیا تھا ۔ بوسنیا ہرزیگوینا نے بھی آزادی کا اعلان کردیا تھا تو یہان جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے تھے ۔ سربیا ، یہاں کے یہودی - عیسائیوں اور یوروپی ممالک کو یہ ہرگز گوارا نہیں تھا کہ یہاں ایک مسلم ملک بنے ۔ اس لیے اس کے خلاف خونریز جنگ چھیڑ دی گئی ۔ اس وقت یہاں کے مسلمانوں پر بہت مظالم ڈھائے گئے تھے اور انہین خاک و خون مین آلودہ کردیا گیا تھا اور لاکھوں مسلمانوں کو مار ڈالا گیا ۔ یہ یہاں کے مسلمانوں کی بہت ہی دردناک اور خونچکاں داستان ہے ۔ اس وقت میں دوحہ قطر میں انگریزی عربی -- مترجم کی حیثیت سے کام کررہا تھا ۔ میں اس خطہ کے مسلمانوں حالات سے بہت متاثر ہوا ۔ میں نے یہاں کے حالات کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنا شروع کردیا ۔ یہاں کی تاریخ اور یہاں کے مسلمانوں کے حالات اور جنگ کے وقت کے حالات کے تفصیلی مطالعہ کے بعد بہت مواد جمع ہوگیا ۔ اس کو ترتیب دینے کے بعد یہ ایک کتاب ہو گئی ۔ یہ مسودہ کی شکل میں تھا ۔ اس مین مزید اصلاح اور تنقیح کی ضرورت تھی لیکن اسی حالت میں یہ کتاب شائع کردی گئی ۔ کلکتہ سے شایع ہونے والے مشہور ماہانہ میگزین کے اڈیٹر ف ۔ س اعجاز نے اس کا بہت اچھا پیش لفظ لکھا اور یہ کتاب انہی کے پریس سے شائع کردی گئی ۔ اس کا نام میں نے ' خطہ بلقان اور نو آزاد مسلم ملک بوسنیا ہرزیگوینا ، تاریخی پس منظر ، داستان حال اور مستقبل کے امکانات ' رکھا ۔ یہ کتاب 7 اگست 1995 مین کلکتہ سے شائع ہوئی ۔ میرا مقصد صرف بوسنیا کےمسلمانوں پر اس انتہائی مظالم کے وقت ان کے دکھ درد مین شریک ہونا اور اردو دان طبقہ کو اس خطہ کے مسلمانوں کے حالات سے آگاہ کرنا تھا ۔ " خوشی کی بات کہ محمد لئیق ندوی صاحب جو گزشتہ چند برسوں سے دوحہ قطر میں ایک عربی/انگریزی مترجم کے عہدے پر مامور ہیں ، نے پہلی بار اردو داں طبقہ کے لیے ایک ایسی کتاب کی تالیف کا فریضہ انجام دیا ہے جو خطہ بلقان اور بوسنیا ہرزگوینا کا مکمل تاریخی پس منظر بھی پیش کرتی ہے اور ایک حساس اور اچھے آدمی کے گوش نصیحت نیوش کے لیے بوسنیا و ہرزگوینا کے مظلوم کے عبرتناک احوال بھی سناتی ہے ۔ کتاب کے مختلف ابواب بوسنیائی مسلمانوں کی داستان حال ، ان کے مستقبل کے امکانات بوسنیائی اور کروشیائی تعلقات کی نوعیت اور یوگوسلاویہ اور روس کی نسبت سے بوسنیائی مسلمانوں کے کمیونزم کے ساتھ جو تجربات ہوئے ان کا احاطہ کرتے ہیں ۔ محمد لئیق ندوی نے ایک بڑا کام یہ انجام دیا ہے کہ کافی تلاش و تحقیق کے بعد اس سلسلے میں برطانوی موقف کی اس حد تک صراحت کردی ہے کہ برطانیہ کی لیبر پارٹی ، آزاد پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی سبھی پارٹیوں کے نکتہ ہائے نظر واضح ہوگئے ہیں ۔ اس طرح انہوں نے کل مغربی برادری کی ذہنیت کو بے نقاب کرڈالا ہے ۔ ف س اعجاز مدیر ماہنامہ انشاء ، کلکتہ 17 اگست 1995 جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 Жыл бұрын
انٹارکٹیکا کی سطح کے نیچے پوشیدہ بحری زندگی کی " خفیہ دنیا " دریافت سائسندانوں نے برفانی براعظم انٹارکٹیکا کی برفانی تہ کے نیچے پوشیدہ ایک " خفیہ دنیا " تلاش کرلی ہے ۔ نیوزی لینڈ کے سائنسدانوں نے روس آئس شیلف سے چند سو کلومیٹر دور واقع برف کی تہ کے نیچے ایک دریا میں جھینگوں سے ملتے جلتے جانداروں کو دریافت کیا ہے ۔ یہ سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے موسمیاتی تبدیلیوں سے برفانی سطح پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ جب انہوں نے ایک جگہ کھدائی کی تو وہاں دریا دریافت پوا اور اس کے اندر بھیجے گئے کیمرے پر ایمفی پوڈز نامی مچھلیوں کے گروپ نے دھاوا بول دیا ۔ سائسندانوں کے مطابق کچھ وقت تک تو ہمیں لگا کہ کیمرے میں کوئی خرابی ہے مگر جب منظر کچھ بہتر ہوا تو ہم نے پانچ ملی میٹر حجم کی مچھلیوں کو دیکھا ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہم یہ منظر دیکھ کر اچھل پڑے تھے کیوں کہ ان جانداروں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں زندگی کے لیے سازگار ماحول موجود ہے ۔ اس تیم نے کچھ عرصہ قبل روس آئس شیلف کی سیٹیلائٹ تصاویر سے برف کے نیچے چھپے دریا کے دہانے کو دریافت کیا تھا ۔ سائسندانوں نے بتایا اگرچہ ہم انٹارکٹیکا کی برفانی تہ کے نیچے چھپے دریاوں سے واقف ہوئے مگر اب تک کا ان کا براہ راست سروے نہیں کیا خسکا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ایک دریا لا مشاہدہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے ہم پہلی بار کسی خفیہ دنیا میں داخل ہورہے ہین ۔ انہوں نے آلات کو مشاہدے کے لیے دریا میں چھوڑدیا جبکہ لیبارٹری میں یہ جانچ پڑتال کی جائے گی کہ کیا چیز اس پانی کو منفرد بناتی ہے ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 2 жыл бұрын
ہندستان میں انسانی حقوق کی پامالی میں اضافہ تشویشناک : امریکی وزیر خارجہ بلنکن کے بیان کے وقت ہندوستانی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع چپ سادھے رہے امریکی وزیر خارجہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی سے متعلق جب بیان دیا تو ہندوستانی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع ان کے پہلو میں کھڑے تھے لیکن انہوں نے اس پر اپنے رد عمل تک کا اظہار تک نہیں کیا ۔ امریکہ نے پیر کے روز کہا کہ واشنگٹن حکومت ہندستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ، کی مسلسل نگرانی کر رہی ہے ۔ بعض سرکردہ امریکی شخصیات ہندستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز نہ اٹھانے نہ اٹھانے کے لیے امریکی حکومت پر نکتہ چینی کرتی رہی ہیں ۔ امریکہ نے انسانی حقوق کے حوالےسے دو ہندوستانی وزراء کی موجودگی میں ، جس طرح کا بیان دیا ، وہ ایک طرح سے غیر معمولی بات ہے اور اسے واشنٹگن کی جانب سے نئی دہلی کے لیے براہ راست سرزنش کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے واشنگٹن میں ہندوستانی وزراء کے ساتھ ہونے والی ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہ امریکہ ہندستان میں کچھ عہدے داروں کے ذریعے کی جانے والی " انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں " پر اپنی نظر رکھے ہوئے ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ " ہم جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی جیسے مشترکہ اقدار پر اپنے ہندوستانی شراکت داروں کے ساتھ باقاعدگی سے بات چیت کرتے رہتے ہیں اور اسی مقصد کے لیے ہم ہندستان میں ہونے والی ایسی بعض حالیہ پیش رفتون کی نگرانی کر رہے ہیں ، جن میں بعض حکومتی ، پولیس اور جیل حکام کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ بھی شامل ہے "۔ تاہم انہوں نے انہوں نے کہا کہ ان اہم مسائل کے علاوہ بھی بہت سے ایسے کلیدی پہلو ہیں ، جن پر ہندستان کے ساتھ بات چیت ہوئی ہے اور ان پر تعاون کے توجہ مرکوز کی گئی ہے ۔ امریکی ایوان نمائندگان کی رکن الہامی عمر نے چند روز قبل ہی انسانی حقوق کے حوالےسے نریندر مودی کی حکومت پر تنقید کرنے میں امریکی حکومت کی مبینہ ہچکچاہٹ پر سوال اٹھایا تھا ، جس کے بعد امریکی وزیر خارجہ کا یہ بیان سامنے آیا ہے ۔ عمر الہام کا تعلق حکمران ڈیموکریٹک سے ہے ۔ انہوں نے ہندستانی کے حوالے سے مودی کی حکومت پر تشویش کا اظہار کیا تھا : " اس سے پہلے ہم انہیں امن میں اپنا شراکت دار سمجھنا چھوڑ دیں ، آخر مودی کو ہندستان کی مسلم آبادی کے ساتھ کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ واشنگٹن کی مشترکہ پریس کانفرنس امریکہ وزیر دفاع لائیڈ آسٹن ، ان کے ہندستانی ہم منصب راج ناتھ اور ہندستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر بھی موجود تھے ۔ ہندستانی وفد نے انٹونی بلنکن کے بیان کے بعد انسانی حقوق کے حوالے سے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ۔ ( واشنگٹن/ نئی دہلی 12 اپریل 2022 بحوالہ اخبار مشرق ، کلکتہ )
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 Жыл бұрын
سال نو ١٤٤٤ کا پیغام مسلمانان ہند کے نام سال نو ہمین تجدید فکر ، عزم نو اور جوش عمل کا پیغام دیے رہا ہے راز ہے راز یہ جہان تگ و تاز جوش کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز علامہ اقبال رحمہ ہم پوری بصیرت کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی تہذیب کی کورانہ تقلید ہماری ترقی کا ضامن نہیں ہے اور نہ وہ ہماری زندگی میں نئی روح پھونک سکتی ہے ، جو تہذیب اپنی موت آپ مر رہی ہو اور خود لب گور ہو وہ ہمارے اندر کب زندگی پیدا کرسکتی ہے ؟! نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور زندہ کرسکتی ہے ایران و عرب کو کیوں کر یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لب گور ( علامہ اقبال رحمہ ضرب کلیم میں ) علامہ اقبال رحمہ عالم اسلام میں تجدد کے علم برداروں پر تنقید کرے ہوئے یہ اندیشہ ظاہر کرتے ہیں کہ تجدید و تجدید کی یہ دعوت امہ مسلمہ کے خلاف ایک سازش کے سوا اور کچھ نہیں ۔ یہ مغربی تہذیب کے پروردہ ہمیں ہماری تہذیب و تمدن سے بیگانہ کردینا چاہتے ہیں ۔ لیکن مجھے یہ ڈر ہے کہ یہ اوازہ تجدید مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ ایسے لوگ امہ مسلمہ کے خیر خواہ نہیں بلکہ ان کے دشمن اور مغرب کے دلال اور ایجنٹ ہیں ۔ ہم اس وقت بیسویں صدی میں نہیں بلکہ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہیں ۔ انسانی تاریخ اج اپنے آخری دور میں داخل ہوچکی ہے جہاں اس لیے ہمیں ہشیار اور بیدار رہنے کی اشد ضرورت ہے ۔ مغربی تہذیب کے علمبردار اس دور میں اپنی ساری توانائیاں ہمیں گمراہ لگا دیں گے ۔ ہم اپنی تاریخ کے سب سے نازک دور گزر رہے ہیں ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی nadvilaeeque@gmail.com
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 Жыл бұрын
تفہیم کائنات آغاز کائنات کا مطالعہ اور تحقیق ہماری یہ کائنات ناقابل تصور حد تک وسیع و عریض اور حیرت انگیز ہے ۔ کائنات اور زندگی کے رازہائے سربستہ کو جاننا کوئی آسان کام نہین ہے ۔ پم نے اس لامتناہی کائنات کے ایک کونہ میں دیکھنے کے بعد یہ سمجھ لیا کہ ہم نے کائنات کے راز کو جان لیا ہے ۔ حقیقت یہ کہ ہم پورا سچ نہین جانتے ہیں ۔ سائنسداں اپنی تمام تر تحقیقات کے باوجود اس کائنات کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں ۔ یہ کائنات اپنے راز اتنی آسانی سے اجاگر نہیں کرتی ۔ ہم پورا سچ نہین جانتے ۔ کیا ہم کائنات کے راز کو کبھی جان پائیں گے ۔ سائنس کی مدد سے ہم ان قوانین کو جاننے کی کوشش کرتے ہین جنہیں اللہ تعالی نے اس کائنات میں ودیعت کر رکھا ہے ۔ لیکن سائنسداں کائنات کے کام کرنے کے طریقے کو سمجھنے کی مسلسل کوششیں کررہے ہین اس سلسلے میں آن کی کوششیں حیرت انگیز بھی ہیں اور قابل ستائش بھی ۔ ان سے ہماری معلومات میں اضافہ ہورہا ہے اور ہم ان کے فوائد سے مستفید ہورہے ہین ۔ ہماری اس کائنات کا آغاز کیسے ہوا ؟ سائنسداں سر جوڑ کر اس کو سمجھنے کی مسلسل کوششیں کررہے ہین ۔ ٢٥ دسمبر ٢٠٢١ میں ناسا نے ایک جدید ترین انتہائی ترقی یافتہ ٹیلسکوپ جیمس ویب JWST لانچ کیا ہے جس پر تقریبا دس ارب ڈالر صرف ہوئے ہیں ۔ یہ اس مقصد کے لیے لانچ کیا گیا ہے کہ سائنسداں جان سکیں کہ اس کائنات کا آغاز کیسے ہوا ؟ اس کا کام کائنات مین پیدا ہونے والی سب سے پہلے ستارہ اور پہلی گلکسی ( Glaxy ) کو بنتے ہوئے دیکھنا ہے ۔ سائنسداں اس کی مدد سے یہ جان سکیں گے ۔ ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ جب تک ہم یہ نہ جان لیں کہ پہلے مائیکرو سیکنڈ مین کیا ہوا تھا تب تک کائنات کے آغاز کا معمہ حل نہین ہوگا اور Mysteries باقی رہیں گیں ۔ اگر ہم اسے اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں تو کائنات کے بارے میں ہماری سوچ بالکل بدل جائے گی ۔ جیمس ویب اسپیس ٹیلسکوپ وقت میں اتنا پیچھے دیکھے گا کہ وہ روشنی کی پہلی چمک اور اس جگہ کو exactly دیکھے گا جہاں پہلے ستارہ نے جنم لیا تھا ! اس کائنات کو 8۔13 ارب سال پہلے کی بالکل ابتدائی حالت میں دیکھنا بہت بڑا چیلنجنگ کام ہے ۔ بگ بینگ کے پہلے مائکرو سیکنڈ میں کائنات کو ارتقا کرتے ہوئے دیکھنا تفہیم کائنات کی شاہ کلید ہے ۔ سائنسداں اس کی بالکل صحیح جانکاری حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ ڈارک میٹر سائنسدانوں کے لیے ایک راز بنا ہوا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری کائنات کے بننے میں اس کا رول ہے ۔ کائنات کا 95% مادہ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی ہے ۔ ان کو سمجھنے سے سائنسداں اب تک قاصر ہیں ۔ اس نا معلوم مادہ کو اچھی طرح جانے اور سمجھے بغیر اس کائنات کے لاینحل گتھیوں کو سلجھانا ممکن نہیں ہے ۔ سائنسداں کہتے ہین کہ اسی مادہ نے ہماری موجودہ کائنات کو بنایا ہے ۔ جیمس ویب JWST ٹیلسکوپ اس بارے میں معلومات فراہم کرسکتا ہے ۔ ناسا کائنات کی ابتدائی انتہائی گرم گھنی حالت کو جب وہ ہائیدروجن گیس کا ایک عطیم بادل تھا کے مشاہدے اور تحقیق کے لیے یہ ٹیلسکوپ لانچ کیا ہے ۔ یہ زمین سے ڈیڑھ لاکھ کلو میٹر دور Lagrange point L2 میں کام کرنے کے لیے بھیجا ( deploy )کیا گیا ہے ۔ کائنات کو اس کی بالکل ابتدائی حالت میں ارتقا کرتے ہوئے دیکھنا اور کائنات کی آج جو شکل و صورت ہے وہ کیسے بنی ؟ قرآن نے اس حقیقت سے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ آسمان پہلے دخان ( دھواں) تھا ۔ ثم استوى إلى السماء و هى دخان فقال لها و للارض ائتيا طوعا أو كرها ، قالتا أتينا طائعين o ( حم السجدہ : ١١ ) پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا ۔ اس نے آسمان اور زمین سے کہا " وجود میں آجاؤ ، خواہ تم چاہوں یا نہ چاہوں " ۔ دونوں نے کہا " ہم آگئے فرمانبرداروں کی طرح " ۔ آخر کوسمک ڈارک ایج ( 🍖Cosmic Dark Age ) مین کونسا راز چھپا ہے جس کی وجہ سے یہ کائنات بنی ۔ اس کو جاننے کی کوشش کرنا ۔ یہ چند اہم بنیادی باتیں ہیں جن کو جانے بغیر کائنات کے آغاز کو نہیں سمجھاجاسکتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم ان اہم باتوں کو اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں تو کائنات کے بارے میں ہماری سوچ بالکل بدل جائے گی اور فزکس کی دنیا میں بہت بڑا انقلاب آجائے گا ۔ سائنسداں کائنات کے آغاز اور اس کو ارتقا ( Evolve) کرتے ہوئے اور جہاں dust cloud کے پیچھے ستاروں کا جنم ہوتا ہے ، اس جگہ کو دیکھنا چاہتے ہیں ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کائنات برابر پھیل رہی ہے اور پھیلتے ہوئے اس کی روشنی سرخ ہوجاتی ہے جسے Red shift کہتے ہیں اور مزید تیزی سے پھیلتے ہوئے یہ سرخ روشنی Infrared ہوجاتی ہے ۔ ہبل ٹیلسکوپ اس روشنی کو نہیں دیکھ سکتا ۔ یہ کہکشائیں اتنی دور چلی جاتی ہیں جہاں سے ان کی روشنی ہمیں نظر نہیں آتی ۔ جیمس ویب ٹیلسکوپ میں New infrared camera IR instrument لگا ہوا ہے اس لیے یہ انتہائی دور جاتے ہوئے گلکسیز کے Infrared روشنی کو دیکھ کر ہمیں ان گلکسیز ( کہکشاؤں) کی بالکل صحیح حالت کو بتائے گا جس سے کائنات کی وسعت کو اور ان کی ابتدائی حالت کو سمجھنے مین مدد ملے گی ۔ کائنات اور زندگی کا آغاز کیسے ہوا اس گتھی کو سلجھانا جیمس ویب ٹیلسکوپ کا اہم مشن ہے ۔ اس کی مدد سے سائنسداں کائنات کا زیادہ بہتر طریقہ سے مطالعہ اور تحقیق کرسکیں گے جیمس ویب (JWST ) ٹیلسکوپ کا فزکس کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے کا سفر شروع ہوچکا ہے ۔ تازہ اطلاع کے مطابق جولائی سے یہ پوری طرح کام کرنے لگے گا ۔ اس کی مدد سے سائنسداں تفہیم کائنات کے ایک عظیم اور محیر العقول سفر کا آغاز کردیا ہے ۔ ان کے مقابلہ میں مسلم ملکوں کا کیا حال ہے ۔ خلائی تحقیقات کا ایک بھی قابل ذکر ادارہ دنیا کے کسی مسلم ملک میں نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں السماء سے متعلق کتنی آیات ہیں جو جدید تحقیقات کی متقاضی ہیں لیکن ان کی تحقیقات نہیں کی جا سکیں ۔ مجھے قرآن کی آیہ " وجعلنا السماء سقفا محفوظا ... " کو سمجھنے کے لیے جدید فلکیاتی تحقیقات کی طرف رجوع کرنا پڑا تب اس کی تفسیر سمجھ میں آئی ۔ اللہ مسلم ممالک کی حالت پر رحم فرمائے ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی Director Amena Institute of Islamic Studies and Analysis A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 2 жыл бұрын
مطالعہ یوروپ بوسنیا ہرزگوینا یوروپ ک ایک مسلم ملک کیا آپ کو یوروپ سے دلچسپی ہے 1991 میں سویٹ یونین کے ختم ہونے کے بعد خطہ بلقان میں صورت حال بالکل بدل چکی تھی اور یہاں کی قوموں نے آزادی کا راستہ اختیار کرلیا تھا ۔ بوسنیا ہرزیگوینا نے بھی آزادی کا اعلان کردیا تھا تو یہان جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے تھے ۔ سربیا ، یہاں کے یہودی - عیسائیوں اور یوروپی ممالک کو یہ ہرگز گوارا نہیں تھا کہ یہاں ایک مسلم ملک بنے ۔ اس لیے اس کے خلاف خونریز جنگ چھیڑ دی گئی ۔ اس وقت یہاں کے مسلمانوں پر بہت مظالم ڈھائے گئے تھے اور انہین خاک و خون مین آلودہ کردیا گیا تھا اور لاکھوں مسلمانوں کو مار ڈالا گیا ۔ یہ یہاں کے مسلمانوں کی بہت ہی دردناک اور خونچکاں داستان ہے ۔ اس وقت میں دوحہ قطر میں انگریزی عربی -- مترجم کی حیثیت سے کام کررہا تھا ۔ میں اس خطہ کے مسلمانوں حالات سے بہت متاثر ہوا ۔ میں نے یہاں کے حالات کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنا شروع کردیا ۔ یہاں کی تاریخ اور یہاں کے مسلمانوں کے حالات اور جنگ کے وقت کے حالات کے تفصیلی مطالعہ کے بعد بہت مواد جمع ہوگیا ۔ اس کو ترتیب دینے کے بعد یہ ایک کتاب ہو گئی ۔ یہ مسودہ کی شکل میں تھا ۔ اس مین مزید اصلاح اور تنقیح کی ضرورت تھی لیکن اسی حالت میں یہ کتاب شائع کردی گئی ۔ کلکتہ سے شایع ہونے والے مشہور ماہانہ میگزین کے اڈیٹر ف ۔ س اعجاز نے اس کا بہت اچھا پیش لفظ لکھا اور یہ کتاب انہی کے پریس سے شائع کردی گئی ۔ اس کا نام میں نے ' خطہ بلقان اور نو آزاد مسلم ملک بوسنیا ہرزیگوینا ، تاریخی پس منظر ، داستان حال اور مستقبل کے امکانات ' رکھا ۔ یہ کتاب 7 اگست 1995 مین کلکتہ سے شائع ہوئی ۔ میرا مقصد صرف بوسنیا کےمسلمانوں پر اس انتہائی مظالم کے وقت ان کے دکھ درد مین شریک ہونا اور اردو دان طبقہ کو اس خطہ کے مسلمانوں کے حالات سے آگاہ کرنا تھا ۔ " خوشی کی بات کہ محمد لئیق ندوی صاحب جو گزشتہ چند برسوں سے دوحہ قطر میں ایک عربی/انگریزی مترجم کے عہدے پر مامور ہیں ، نے پہلی بار اردو داں طبقہ کے لیے ایک ایسی کتاب کی تالیف کا فریضہ انجام دیا ہے جو خطہ بلقان اور بوسنیا ہرزگوینا کا مکمل تاریخی پس منظر بھی پیش کرتی ہے اور ایک حساس اور اچھے آدمی کے گوش نصیحت نیوش کے لیے بوسنیا و ہرزگوینا کے مظلوم کے عبرتناک احوال بھی سناتی ہے ۔ کتاب کے مختلف ابواب بوسنیائی مسلمانوں کی داستان حال ، ان کے مستقبل کے امکانات بوسنیائی اور کروشیائی تعلقات کی نوعیت اور یوگوسلاویہ اور روس کی نسبت سے بوسنیائی مسلمانوں کے کمیونزم کے ساتھ جو تجربات ہوئے ان کا احاطہ کرتے ہیں ۔ محمد لئیق ندوی نے ایک بڑا کام یہ انجام دیا ہے کہ کافی تلاش و تحقیق کے بعد اس سلسلے میں برطانوی موقف کی اس حد تک صراحت کردی ہے کہ برطانیہ کی لیبر پارٹی ، آزاد پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی سبھی پارٹیوں کے نکتہ ہائے نظر واضح ہوگئے ہیں ۔ اس طرح انہوں نے کل مغربی برادری کی ذہنیت کو بے نقاب کرڈالا ہے ۔ ف س اعجاز مدیر ماہنامہ انشاء ، کلکتہ 17 اگست 1995 جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Research Institute Kolkata nadvilaeeque@gmail.com
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 Жыл бұрын
انسان اللہ کی تخلیق اور اشرف المخلوقات چمپازنی کی اولاد نہیں پہلے بشر کی تخلیق جنت میں کی گئی تھی ۔ قرآن نے تفصیل سے مختلف سورتوں میں ہمیں بتایا ہے کہ انسان کو اللہ نے پیدا کیا ہے ۔ قرآن میں انسان کے طویل ارتقائی عمل سے گزر کر پیدا ہونے سے متعلق کوئی آیہ نہیں ہے بلکہ اللہ قادر مطلق یہ بیان کرتے ہیں کہ اس نے ایک بشر آدم کا کالبد خاکی بنایا ۔ اللہ نے کہا " فإذا سويته " اور جب میں اسے اچھی طرح بناچکوں ۔ " ونفخت فيه من روحى " اور اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں ۔ اس طرح پہلا بشر پیدا کیا گیا اور پھر اس سے اس کا جوڑا ایک عورت پیدا کی گئی ۔ قرآن مجید کے اس بیانیہ کی ارتقائی تشریح کیسے کی جاسکتی ہے ۔ میرے نزدیک اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ نظریہ ارتقا تخلیق آدم و حوا کے بارے میں قرآن کے بیان کو نہیں مانتا ۔ نظریہ ارتقا کسی ما بعد الطبیعاتی تصور کا سرے سے انکار کرتا ہے یعنی اللہ کی ذات ایک ما بعد الطبیعاتی تصور ہے جس کی نظریہ ارتقا میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ جب اللہ جل شانہ جو خالق کائنات اور انسان کا خالق ہے اس کا انکار کردیا تو انبیاء علیہم السلام اور ان پر نزول وحی اور کتاب یہ سب کہاں سے آگئے ؟ نظریہ ارتقا کی رو سے قرآنی بیانات بے حقیقت اور غیر سائنسی ہیں ۔ اس کے باوجود کچھ نام نہاد دانشور اور جدید تعلیم یافتہ لوگ نظریہ ارتقا کو قرآن سے ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ نظریہ ارتقا کے مطابق آدم کا وجود ہی نہیں ہے ۔ آدم نام کا کوئی فرد بشر ارتقائی تاریخ میں پایا ہی نہیں جاتا ۔ اس کے برخلاف وہ کہتا ہے کہ انسان حیوانی جس میں اخر میں چمپانزی اور اس کے بعد نیم انسانی مراحل سے گزر کر موجودہ انسانی شکل( Homo Sapience) کی شکل میں ظاہر ہوا ۔ میں نے نظریہ ارتقا کے رد میں اس طرح کے مختلف مضامین اردو اور ا انگریزی میں تحریر کیا ہے ۔ ڈاکٹر Dr Zakir Naik on evolution لکھ کر سرچ ( Search ) کریں وہاں مختلف Comment boxes میں ارتقا کے خلاف میرے مضامین انگریزی اور اردو میں پڑھ سکتے ہیں ۔ یہ میرا مستقل موضوع ہے اور میں اس کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں اور جو کچھ ہوسکتا تحریر کرکے یو ٹیوب کے مختلف Comment boxes میں پوسٹ کرتا رہتا ہوں ۔ وما توفیقی الا بالله ارتقا ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے ۔ بعض سائسندانوں نے صاف اعتراف کیا ہے کہ اس نظریہ کو ہم صرف اس لیے مانتے ہیں کہ اس کا کوئی بدل ہمارے پاس نہیں ہے ۔ سر آرتھر کیتھ( Keith ) نے 1953 میں کہا تھا : " Evolution is unproved and unprovable. We believe it only because the only alternative is special creation and that is unthinkable". (Islamic Thought, Dec.196q) یعنی ارتقا ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے ، اور وہ ثابت بھی نہیں کیا جاسکتا ، ہم اس پر صرف اس لیے یقین کرتے ہیں کہ اس کا واحد بدل تخلیق کا عقیدہ ہے جو سائنسی طور پر ناقابل فہم ہے " ۔ گویا سائنسداں نظریہ ارتقا کو صرف اس وجہ سے مانتے ہیں ک اگر وہ اس کو چھوڑ دیں تو لازمی طور پر انھیں خدا کے تصور پر ایمان لانا پڑے گا ۔ ملحد سائنسدانوں کے دل میں خوف چھپا ہوا ہے کہ اللہ کو ماننے کے بعد ان کی آزادی کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ وہ سائنسداں جو ذہنی اور فکری آزادی کو دل و جان سے چاہتے ہیں ، کسی قسم کی پابندی کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ پابندی کا تصور ان کے لیے بہت وحشتناک ہے "۔ ( The Evidence of God, p.130) غیر محدود آزادی کا تصور عالم انسانیت کے لیے انتہائی خطرناک اور مہلک ہے ۔ اس تصور آزادی نے مغربی معاشرے کو تباہ و برباد کردیا ہے ۔ ارتقا کے تصور نے مسلم ممالک اور دنیا کے مسلم معاشرے میں تباہی پیدا کر رہی ہے ۔ پاکستان میں عورتوں نے کھلے عام یہ نعرہ لگایا کہ " میرا جسم ، میری مرضی " ۔ یہ ہے آزادی اور اس کے شرمناک ، اخلاق سوز اور تباہ کن نتائج ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 2 жыл бұрын
قرآن و سنت کے سائنسی اعجاز ( ٣ ) بغیر کسی اصول و ضوابط کے ، قرآن و سنت کے سائنسی اعجاز پر بحث و مباحثے کا دروازہ کھولنا خطرے سے خالی نہیں ہے ، کیوں کہ مختلف علوم و فنون کے ماہرین اپنے اپنے نقطہء نظر سے سائنسی نظریات کے مطابق قرآنی آیات کی تفسیر و تشریح کرنے لگیں گے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ قرآن نے ان سائنسی اصول و نظریات کی طرف آج سے چودہ سو سال پہلے إشارے كردیے ہیں اور اس سلسلے میں ان بڑی غلطیاں ہوسکتی ہیں ۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں کہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم بڑا زور دے کر اپنی ایک تقریر میں کہتے ہیں : اللہ کے ایک حرف " کن " سے بگ بینگ ( Big Bang ) کا عظیم دھماکہ ہوا اور اس سے ہماری اس مادی کائنات کا آغاز ہوا "۔ وحید الدین خان مرحوم اپنی تصنیف ' مذہب اور جدید سائنس ' میں لکھتے ہیں: " قرآن نے مادی کائنات کے آغاز و انجام کا ایک خاص تصور دیا ہے ، یہ تصور سو برس پہلے تک انسان کے لیے بالکل نا معلوم تھا اور نزول قرآن کے زمانے میں تو اس کا تصور بھی کسی کے ذہن میں نہیں گزر سکتا تھا ، مگر جدید مطالعہ نے حیرت انگیز طور پر اس کی تصدیق کی ہے . آغاز کائنات کے بارے میں قرآن کا بیان ہے : أو لم ير الذين كفروا أن السموات والأرض كانتا رتقا ففتقناهما o ( الانبياء: ٣٠ ) کیا منکرین نے نہیں دیکھتے کہ زمین و آسمان ملے ہوئے تھے ، پھر ہم نے ان کو پھاڑ دیا ۔ سائنسداں اس نیتجے پر پہںچے ہیں کہ اس کائنات کا آغاز ایک زبردست دھماکے ( Big Bang) سے ہوا ۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں( ١٩٨٤) میں بگ بینگ کے عنوان کے تحت اعتراف کیا گیا ہے کہ and it is now favoured by most cosmologists اور اب اس نظریہ کو بیشتر علماء کونیات کی تائید حاصل ہے " (عظمت قرآن : ٣٧) بگ بینگ Big Bang نظریہ کی آج کیا حقیقت ہے ؟ اس وقت بگ بینگ Big Bang نظریہ پر ماہرین حالیہ فلکیات کا اتفاق نہیں ہے بلکہ سائنسدانوں ( Physicists ) کے درمیان اس میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض سائنسداں کہتے ہیں : If there is before then Big Bang does not matter . یعنی بگ بینگ سے پہلے کوئی چیز ہے تو بگ بینگ کے کوئی معنی نہیں ہے ۔ ( Laura ) سائنسدانوں میں یہ ایک اہم سوال پیدا ہوگیا ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا ؟ یہ نظریہ اس سوال اور کئی اہم سوالات کے جوابات نہیں دے پاتا ہے ۔ اس لیے بعض سائنسداں اس نظریہ سے کتراتے ہیں یا اسے نہیں مانتے اب یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ Big Bang never happened یعنی ایک " بڑا دھماکہ جیسا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا ۔ 1971 میں سائنسدان الان گوتھ نے انفلیشن Inflation کا نظریہ پیش کیا جس پر آج کے سائنسداں زیادہ اعتماد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نظریہ زیادہ صحیح طریقہ سے کام کرتا ہے ۔ اس نظریہ نے متعدد کائنات Multiuniverse theory کو جنم دیا ۔ بعض سائنسداں کہتے ہیں کہ یہ کائنات متعدد کائناتون ( Multiverse) میں سے ایک کائنات سے نکلی ہے ۔ یہ ایک بچہ کائنات (Baby Universe) ہے جو ایک دوسرے یونیورس سے نکلی ہے ۔ اب یہ رپورٹ آ چکی ہے کہ اور اسے گوگل میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ Scientists turned down the Big Bang یہ بات Bicep 2 telescoe میں کام کرنے والے سائسندانوں کی حالیہ خلائی تحقیق کی روشنی میں کہی گئی ہے ۔ جس نظریہ کے بارے میں اتنا اختلاف ہو اور جس کے خلاف سائنسداں دوسرے نظریات پیش کرچکے ہیں ، اس کو ایک ناقص اور مخلتف فیہ نظریہ ہی قرار دیا جائے گا ۔ اس کے بارے میں یہ کہنا کہ سورہ انبیاء کی آیہ ٣٠ میں بگ بینگ کو بیان کیا گیا ہے بہت بڑی غلطی اور گمراہ کن بات ہے ۔ کسی ناقص اور ظنی ( غیر یقینی) نظریہ کی اللہ جل شانہ کی ذات کی طرف نسبت شان الہی کے منافی ہے اور گستاخی ہے ۔ مسلمانوں میں یہ بات ڈاکٹر اسرار احمد ، وحید الدین خان مرحوم اور ڈاکٹر ذاکر نایک بھی کہتے ہیں جو بالکل غلط ہے ۔ سورہ انبیاء کی آیہ ٣٠ کا بگ بینگ نظریہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ بیسویں صدی کی نصف کے بعد سے جو بگ بینگ کا نظریہ پیش کیا گیا تھا ، اس کا اس وقت کیا حال ہے قارئین نے ملاحظہ فرمایا قرآن اور موجودہ سائنسی نظریات کے درمیان مطابقت بہت حساس اور نازک موضوع ہے ۔ اس پر لب کشائی یا کچھ لکھنے سے پہلے خوب تحقیق کرلینی چاہیے ۔ آج کل تو یو ٹیوب پر ہر کس و ناکس اس موضوع پر بلا جھجک غلط صحیح ویڈیو بناکر ڈال دیتا ہے ۔ DR.MOHAMMAD LAEEQUE NADVI Ph.D. (Arabic Lit.) M.A. Arabic Lit. Director Amena Institute of Islamic Studies & Analysis A Global & Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com
@shamsuddinnadwi7923
@shamsuddinnadwi7923 Жыл бұрын
مولانا ھمزہ حسنی 🤦🤦🤦🤦🤦
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 2 жыл бұрын
امہ مسلمہ کی موجودہ نازک صورت حال آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ : " عنقریب قومیں تم پر ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کیا ہماری تعداد اس وقت کم ہوگی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " نہیں تمہاری تعداد زیادہ ہوگی لیکن تمہاری حالت سیلاب مین پانی کی سطح پر بہنے والےجھاگ کی طرح ہوگی جو کمزور ہوتی ہے اور اس کی کوئی طاقت نہیں ہوتی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ بھی بتادی کہ اس وقت تمہارے تعداد زیادہ ہوگی لیکن ان کے اندر دنیا کی محبت گھر کر جائے گی اور موت کا خوف پیدا جائے گا ، مسلممان ڈرپوک اور بزدل ہوجائین گے ۔ یعنی امہ مسلمہ کا زوال اخلاقی ہوگا ۔ مرور زمانہ کے ساتھ امہ مسلمہ کے اخلاق میں غیر معمولی گراوٹ پیدا ہوجائے گی ۔ آج ہم اس کا مشاہدہ اپنی کھلی آنکھوں سے کر رہے ہیں ۔ مسلمانوں کا عام احساس یہ ہے کہ ان کی اخلاقی حالت اب بھی دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلے میں مجموعی طور پر بہتر ہے ۔ ایسا احساس خلاف حقیقت بھی نہیں ، لیکن اس سے بھی بڑی اور ناقابل انکار حقیقت یہ ہے کہ دوسری قوموں کے مقابلے میں ہمارا اخلاقی زوال زیادہ بڑا اور نہایت افسوسناک ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کے ماننے والے ہیں ۔ ہم جن احکام الہی اور حلال و حرام سے واقف ہیں ، دوسری قومیں ان کو نہیں جانتی ہیں ۔ ہمارے پاس زندگی کا مکمل ضابطہ اورنظام حیات ہے لیکن ہم نے قرآنی احکام اور تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ ہمارے اوپر قرآن کا یہ قول صادق آتا ہے : يا رب إن قومى هذا اتخذوا القرآن مهجورا اے میرے رب ! میری اس قوم نے قرآن کو چھوڑ رکھا ہے ( پس پشت ڈال رکھا ہے) ۔ اخلاقی صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ امہ مسلمہ کی موجودہ دور میں تہذیبی ، ثقافتی اور تمدنی صورت حال ۔ اسلام دین اللہ ہے ۔ اسلامی تہذیب اسی اساس پر قائم یے اور اسلامی ثقافت اسی سرچشمہ سے پھوٹ کر نکلی اور برگ و بار لائی ہے ، مسلمانون کا معاشرتی نطام اسی پر قائم ہونا چاہیے ۔ در حقیقت امہ مسلمہ کی کامیابی اس دین کے مطابق زندگی گزارنے میں ہے لیکن کیا امہ مسلمہ کی زندگی ان تینوں پہلووں سے اس پر استوار ہے ؟ اسلام کا سارا اخلاقی نظام جو اس کے تہذیبی ، ثقافتی اور تمدنی نظام سے عبارت ہے شکست و ریخت دوچار ہے ۔ ان کی اخلاقی حالت ہر اعتبار سے سخت زبوں حالی کا شکار ہے ۔ وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر یہ موضوع تفصیل طلب یے اور موجودہ دور میں امہ مسلمہ جس نازک اور کربناک صورت حال سے گزر رہی ہے ، اس کی وجہ سے دل بہت پریشان اور فکر مند ہے ۔ اللہ تعالی اس صورت حال سے امہ کو باہر نکالے اور اس کی دستگیری فرمائے ۔ امین ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
@akhternadwibhoutkhub1088
@akhternadwibhoutkhub1088 Жыл бұрын
مولانا سجاد نعمانی صاحب اور مولانا کلیم صدیقی صاحب اور مولانا منظور نعمانی صاحب علامہ سید سلیمان ندوی کے لڑکے ڈاکٹر سلمان صاحب بھی ہوتے
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 Жыл бұрын
ماہ محرم الحرام کا پیغام مسلمان موجودہ حالات سے دل برداشتہ نہ ہوں ماہ محرم الحرام کا پیغام کیا ہے ؟ ہر مہینہ کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں ۔ انہیں کا اعتبار کرتے ہوئے اس سے درس لیا جاتا ہے ۔ خلافت عباسیہ کے کمزور ہونے اور اس کے سقوط کے بعد سے پوری دنیا میں امہ مسلمہ پر طرح طرح مصائب پڑنے شروع ہو گئے اور یہ سلسلہ دراز ہوتے ہوئے آج کے پر خطر حالات تک پہنچ گیا ۔ آج امہ مسلمہ پوری دنیا میں بڑے پر آشوب دور اور نہایت سنگین حالات و خطرات سے گزر رہی ہے اور اس کی حالت انتہائی خراب ہوگئی ہے ۔ جن کی وجہ سے وہ ہہت مظطرب ، پریشان اور غمزدہ ہے خصوصا وہ علماء و مفکرین جو درد مند دل رکھتے ہیں وہ مسلمانوں کی موجودہ صورتحال سے بہت دکھی اور فکر مند ہیں ۔ یہاں امہ مسلمہ کی عالمی صورت حال سے بحث کرنا مقصود نہیں ۔ ہندستان میں مغلیہ سلطنت کے ختم ہونے اور انگریزوں کے بعد صورت حال بالکل بدل گئی اور بر صغیر میں دین و شریعت کی حفاظت ، اسلامی تہزیب و ثقافت اور مسلمانوں کا اسلامی تشخص خطرے میں نظر آنے لگا ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی nadvilaeeque@gmail.com
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 2 жыл бұрын
قرآن اور انسان ہدایت اور گمراہی قرآن کا مخاطب بلا تفریق پوری انسانیت ہے اور اس کا موضوع عالم انسانیت کی ہدایت ہے یعنی انسانوں کو گمراہی کے مختلف راستوں سے نکال کر " صراط مستقیم " ( سیدھا راستہ ) پر ڈال کر اس پر چلا دینا ۔ اس دنیا میں مختلف عقیدے اور نظریات کے ماننے والے رہتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مکہ میں مشرکین( بتوں کو پوجنے والے تھے جس طرح آج کل ہندستان میں بتوں کو پوجنے والے ہیں ۔ محمد رسول اللہ( ص) نے ان کو ان کی عبادت سے منع کیا اور ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا ۔ آج صرف بتوں کو پوجنے والے ہی نہیں ہیں بلکہ کفار یعنی اللہ کی ذات کا انکار کرنے والے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں ، جیسے Atheists ۔ بہت سے سائنسداں ایک خالق اور کسی ما بعد الطبیعاتی ( Metaphysical) تصور یا عقیدے کا سرے سے انکار کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اسٹیفن ہاکنگ نے ایک خالق کا انکار کردیا ۔ بنیادی طور پر انسانوں میں یہ دو گروہ پائے جاتے ہیں ۔ ہم جب قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے انہیں دو گرہوں کو مخاطب کرکے شرک اور کفر کی علمی اور عقلی دلائل سے تردید کی ہے اور مثالیں دے کر سمجھایا ہے ۔ ایک مبدع کائنات اور خالق زمین اور سات اسمانوں کا انکار کرتے ہیں ۔ یہ انکار غیر عقلی اور غیر سائنسی ہے اور اس کا انجام بہت برا ہے ۔ جو لوگ قرآن کی تعلیمات کا انکار کرتے ہوئے مرتے ہیں ان کا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم ہے خواہ وہ کوئی آئنسٹائن یا ڈارون ہی کیوں نہ ہو ۔ حقیقی سائنس وہ ہے جسے قرآن نے بتایا ہے ۔ اللہ تعالی جو بات قرآن میں کہتے ہیں وہ نہ بدلنے والے اور اٹل ہیں ۔ ان میں کبھی کوئی رد و بدل نہیں کیا جاسکتا ، کیوں کہ وہ اس ذات کی طرف سے ہے جو کائنات کے ذرہ ذرہ( Atoms ) سے اچھی طرح واقف ہے قرآن میں اللہ جل شانہ کے بیانات کے خلاف جو باتیں کہی جاتی ہیں یا جو سائنسی نظریات پیش کیے جاتے ہیں وہ اٹل نہیں ہوتے بلکہ ان کو نئے معلومات ( Fresh Data ) کی روشنی میں سائڈ میں کردیا جاتا کے اور نئے ڈاٹا کے مطابق تحقیق کی جاتی ہے ۔ اس کی مثالیں موجود ہیں ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
@shaikhsadik3484
@shaikhsadik3484 Жыл бұрын
کاش کہ مولانا اسلم صاحب مظاہری ندوی مولانا یعقوب صاحب ندوی مولانا علاء الدین صاحب ندوی مولانا شھاب الدین صاحب ندوی مولانا وصاف عالم ندوی مولانا وثیق صاحب ندوی مولانا ماسٹر انیس الرحمن ندوی وغیرہ حضرات اساتذہ کرام کی بھی زیارت سے دل منور ومعطر ہوجاتا تو اچھا تھا اللہ تعالیٰ تمام ہی اساتذہ موجودین کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور اکابرین مرحومین کی مغفرت فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین
@shaikhsadik3484
@shaikhsadik3484 Жыл бұрын
مولانا شمس الحق ندوی مدیر تعمیر حیات
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 2 жыл бұрын
وجود انسان ارتقائی عمل یا اللہ خالق کائنات کی تخلیق سے پہلے بشر کی تخلیق جنت میں کی گئی تھی ۔ یہ قرآن کا بیان ہے ۔ وہ زمین پر ارتقا کے ذریعہ وجود میں نہیں آیا ۔ دونوں بیانیہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں ۔ آدم علیہ السلام کا جنت سے زمین پر آنا اور سائنس کا یہ کہنا کہ زندگی زمین کے باہر سے آئی ہے ، ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں اور ان میں تطبیق و توافق کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اس ویڈیو سے غلط بات ناظرین تک پہنچے گی زندگی کے Building Blocks کا خلا سے زمین پر آنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آدم و حوا علیہما السلام زمین کے باہر کہیں سے زمین پر آئے ہیں ۔ آدم علیہ السلام مکمل بنے بنائے بشر ہیں جن کی تخلیق جنت میں کی گئی تھی اور ان سے ان کے زوجہ کو بنایا گیا ۔ قرآن میں آللہ تعالی نے اس حقیقت کو مختلف سورتوں میں بیان کیا ۔ بنیادی اجزاء زندگی جن سے سائنسداں بحث کرتے ہیں ۔ ان سے زمین پر ایک خلیہ Cell قدرتی و طبعی ارتقا سے کسی طرح پیدا ہوگیا ۔ ایک خلیہ والا جان دار اور بتدریج متعدد الخلایا والے جان دار پیدا ہوتے رہے ۔ یہ تمام مراحل بالکل افسانوں ہیں ۔ آج کا انسان جسے سائنسداں Homo Sapience کہتے ہیں تقریبا ڈیڑھ دولاکھ پہلے ظہور میں آیا ۔ قرآن انسان کے طویل ارتقائی عمل سے گزر کر پیدا ہونے کی بات نہیں کرتا بلکہ اللہ قادر مطلق یہ بیان کرتا ہے کہ اس نے ایک بشر آدم کا کالبد خاکی بنایا جسے " فإذا سويته " اور جب میں اسے اچھی طرح بناچکوں ۔ " ونفخت فيه من روحى " اور اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں اس طرح پہلا بشر پیدا کیا گیا اور پھر اس سے اس کا جوڑا ایک عورت پیدا کی گئی ۔ قرآن مجید کے اس بیانیہ کی ارتقائی تشریح کیسے کی جاسکتی ہے ۔ نظریہ ارتقا تخلیق آدم و حوا کے بارے میں قرآن کے بیان کو نہیں مانتا ۔ نظریہ ارتقا کسی ما بعد الطبیعاتی تصور کا سرے سے انکار کرتا ہے یعنی اللہ کی ذات کا وجود نہیں ہے ۔ جب اللہ خالق کے وجود کا انکار کردیا تو رسالت اور انبیاء علیہم السلام پر نزول وحی و کتاب خود بخود کالعدم ہوگیا ۔ یہ ہے نظریہ ارتقا کی اصل حقیقت ۔ اس کے باوجود کچھ نام نہاد دانشور اور جدید تعلیم یافتہ لوگ نظریہ ارتقا کو قرآن سے ثابت کرنے کی سعی ناکام کرتے رہتے ہیں ۔ نظریہ ارتقا کے مطابق آدم کا وجود ہی نہیں ہے ۔ آدم نام کا کوئی فرد بشر ارتقائی تاریخ میں پایا ہی نہیں جاتا ۔ میں نے نظریہ ارتقا کے رد میں اس طرح کے مختلف مضامین اردو اور ا انگریزی میں تحریر کیا ہے ۔ ڈاکٹر Dr Zakir Naik on evolution لکھ کر کلک کریں وہاں مختلف Commen boxes میں ان کو پڑھا جاسکتا ہے ۔ یہ میرے ما بعد الدکتورہ کا تحقیقی موضوع ہے ۔ یہ میرا مستقل موضوع ہے اور میں اس کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں اور جو کچھ ہوسکتا تحریر کرکے یو ٹیوب کے مختلف Comment boxes میں پوسٹ کرتا رہتا ہوں ۔ وما توفیقی الا بالله ارتقا ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے ۔ بعض سائسندانوں نے صاف اعتراف کیا ہے کہ اس نظریہ کو ہم صرف اس لیے مانتے ہیں کہ اس کا کوئی بدل ہمارے پاس نہیں ہے ۔ سر آرتھر کیتھ( Keith ) نے 1953 میں کہا تھا : " Evolution is unproved and unprovable. We believe it only because the only alternative is special creation and that is unthinkable". (Islamic Thought, Dec.196q) یعنی ارتقا ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے ، اور وہ ثابت بھی نہیں کیا جاسکتا ، ہم اس پر صرف اس لیے یقین کرتے ہیں کہ اس کا واحد بدل تخلیق کا عقیدہ ہے جو سائنسی طور پر ناقابل فہم ہے ، گویا سائنسداں نظریہ ارتقا کی صداقت پر صرف اس لیے متفق ہوگئے ہیں کہ اگر وہ اس کو چھوڑ دیں تو لازمی طور پر انھیں خدا کے تصور پر ایمان لانا پڑے گا ۔ لوگوں کے دل میں خوف چھپا ہوا ہے کہ اللہ کو ماننے کے بعد آزادی کا خاتمہ ہوجائے گا ، وہ سائنسداں جو ذہنی اور فکری آزادی کو دل و جان سے پسند کرتے ہیں ، پابندی کا کوئی بھی تصور ان کے لیے وحشتناک ہے "۔ ( The Evidence of God, p.130) غیر محدود آزادی کا تصور عالم انسانیت کے لیے انتہائی خطرناک اور مہلک ہے ۔ اس تصور آزادی نے مغربی معاشرے کو تباہ و برباد کردیا ہے ۔ ارتقا کے تصور نے مسلم ممالک اور دنیا کے مسلم معاشرے میں تباہی پیدا کر رہی ہے ۔ میں ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com
@taiyabnadwi1638
@taiyabnadwi1638 Ай бұрын
ماشاءاللہ
@KamranAshrafKa
@KamranAshrafKa 3 жыл бұрын
ماشاءاللہ بہت خوب
@faheemfurqan77
@faheemfurqan77 3 жыл бұрын
Masha allah
@laeequenadvi4746
@laeequenadvi4746 Жыл бұрын
ہندستان کا اخلاقی بحران مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں : " ہم امید کرتے ہیں کہ للہ تعالی ہمیں اس ملک کی قیادت عطا فرمائیں گے ۔ " اس ملک کا کوئی عنصر اس قابل نہیں رہا کہ اس ملک کو بچاسکے ، سب دولت پرست ہیں ، اقتدار پرست ہیں ، مادہ پرست ہیں ، دنیا پرست ہیں اور ہوس پرست ہیں " ۔ ملک کی ایسی بوالہوس قیادت اس کی کیا حفاظت کرے گی ! اس لیے اب ناگزیر ہوگیا ہے کہ اس کی قیادت اس طبقے کے حوالے کردی جو اس کی اور یہاں کے عوام کی حفاظت کرسکیں ۔ اس میں عطا مومن کو پھر دربار حق سے ہونے والا ہے شکوہ ترکمانی ، ذہن ہندی ، نطق اعرابی علامہ اقبال رحمہ
@mdhammad3755
@mdhammad3755 Жыл бұрын
Masha allah
SHE WANTED CHIPS, BUT SHE GOT CARROTS 🤣🥕
00:19
OKUNJATA
Рет қаралды 12 МЛН
Normal vs Smokers !! 😱😱😱
00:12
Tibo InShape
Рет қаралды 99 МЛН
Do you have a friend like this? 🤣#shorts
00:12
dednahype
Рет қаралды 19 МЛН
Tarana E Nadwa | Darul Uloom Nadwatul Ulama Lucknow
9:19
Al Hind Mushaira
Рет қаралды 126 М.
SHE WANTED CHIPS, BUT SHE GOT CARROTS 🤣🥕
00:19
OKUNJATA
Рет қаралды 12 МЛН