Allah tala maadr e Ilmi ki najr e bad se hifazat farmaai
@user-es4bf6tk9r2 жыл бұрын
MashAllah
@hasimkhan322 жыл бұрын
masa allha
@nisarahmadaimim71212 жыл бұрын
Mashallah
@hafizjavid99442 жыл бұрын
ماشاءاللہ بہت زبردست خو
@mohammadamaan51622 жыл бұрын
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ
@786mustafa76 Жыл бұрын
माशाअल्लाह कितना खूब
@05d2192 жыл бұрын
mashallah allah 💗💗💗💕
@mpsaad35812 жыл бұрын
بہت خوب
@MusharrafMedia5184 ай бұрын
ماشاءاللہ بہت اچھا ہے مادرے علمی بہت یاد آتی ہے ہمیں مادرے علمی کا ماحول اساتذہ کی الفت انکا دیدار ❤❤❤❤❤❤❤❤😢اللہ ہمارے اساتذہ او کی عمر میں برکت عطا فرمائے آمین
@rumankhan61622 жыл бұрын
Mashaallaha
@shareefkhan45082 жыл бұрын
Importance of Madaris .In current scenario the young generation is hardly get Madaris Education as everyone is for career building.These Madaris is producing future momins to carry and remind the world what for we are sent and what Allah expects from us .These Madaris are keeping Deeni Taleem alive and Inshaallh will continue for ever.If any worse situation is created it is only Madarsa student will be serving Masajids
@jahulmedia86682 жыл бұрын
ماشااللہ ماشااللہ بہت شاندار نعت و نظم اللہ تبارک و تعالی آپ کو اور ترقیات سے نوازے
@all_in_one87112 жыл бұрын
Mashaallah
@ismailshah85912 жыл бұрын
Allah Sirf Iman wale ko hi jannat or galba deta he maslake ala hajrat jindabad 7
@mdrazi88322 жыл бұрын
Allah hafaz aap ko allah mil gaya hai app ko
@aishaautocarelahore Жыл бұрын
Masha Allah beautiful
@attaatta-eh1it11 ай бұрын
Mashallah ❤❤❤ Nice
@i.uchoudhury65212 жыл бұрын
Mashallah amin
@binyameenkhan20752 жыл бұрын
Good 👍
@affatimastudio91902 жыл бұрын
Mashallah mashallah
@shaikhsaeed15552 жыл бұрын
Jindabad
@Al-jihadja2 жыл бұрын
Bangladesh se🇧🇩👍
@khaliqchowdhary97452 жыл бұрын
Zindabaad
@SaadKhan-siddiq2 жыл бұрын
Good job
@laeequenadvi47462 жыл бұрын
دینی مدارس کا نظام تعلیم و تربیت مدارس کا نظام تعلیم و تربیت ایک اہم موضوع ہے ۔ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لوگ آج بھی اظہار خیال کرتے رہتے ہیں ۔ جہاں تک اسلامی جامعات اور بڑے دینی مدارس کے نصاب تعلیم کا تعلق ہے تو صرف دینی نظام تعلیم و تربیت کے ماہرین ہی کو یہ حق یے کہ اس موضوع پر اظہار خیال کریں ۔ وہ ضرورت سمجھیں گے تو اس میں کچھ حذف و اضافہ کرسکتے ہیں ۔ جن لوگوں کا اس نظام تعلیم و تربیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، نہ انہیں اس کا کوئی تجربہ ہے اور نہ اس کے اصل مقصد سے انہیں کوئی دلچسپی اور اتفاق ہے ان کا اس میں دخل اندازی کرنا اور آئے دن مشورے دینا بہت غلط بات ہے ۔ جن لوگوں کا تعلق معاصر نظام تعلیم و تربیت سے ہے وہ وزارت تعلیم کو مشورہ دین کہ وہ نصاب تعلیم میں دینی مضامین کو بھی شامل کریں تاکہ کالج اور یونیورسیٹیوں کے طلباء دین و دنیا دونوں کی تعلیم سے بہرہ ور ہوسکیں ۔ مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت میں ثنویت کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ یہ انتہائی جامع ، وسیع اور ہمہ جہت تھا ۔ ثنویت اہل یوروپ کی وجہ سے پیدا ہوئی ۔ انہوں نے اسلامی نظام تعلیم و تربیت سے اسلامی علوم کو خارج کر کے صرف سائنسی علوم کو پڑھنا اور پڑھانا شروع کیا جو ان کے یہاں آہستہ آہستہ ترقی کرتا رہا ۔ یہ علوم نہ " مغربی علوم " ہیں اور نہ ہی"جدید علوم "۔ یہ وہ علوم ہیں جنہیں انہوں نے اندلس کے کالجوں اور دارالعلوم (جامعات) میں پڑھ اور سیکھ کر جہالت کی تاریکی سے نکلنا شروع کیا تھا ۔ مسلمانوں میں جب علمی زوال آیا تو وہ ان سائنسی علوم سے دور ہوتے گئے اور ان کے نصاب تعلیم سے سائنسی علوم کم ہوتے گئے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ مسلمانوں کی علمی حس مردہ ہوتی چلی گئی اور وہ علمی زوال کا شکار ہوکر علمی پسماندگی میں مبتلا ہوگئے ۔ ایسا کیوں ہوا اس کی تحقیق کی ضرورت ہے ۔ انیسویں صدی میں جب یوروپی ممالک نے عالم اسلام پر یلغار کرکے اور ان پر غاصبانہ قبضہ کرکے انہیں اپنا محکوم بنالیا تو انہوں نے مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت کو بالکل نظرانداز کرکے اس نظام تعلیم کو نافذ کیا جو مسلمانوں سے ماخوذ تھا اور اب وہ " مغربی نظام تعلیم " اور " جدید علوم " ہوچکے ہیں ۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ایک ایسا نظام تعلیم جس میں ثنویت نہ ہو جس طرح مسلمانوں کے قدیم نظام تعلیم تھا اور جس میں دین و دنیا کا جداگانہ تصور نہیں تھا اور جہاں کے مدارس ، کلیات اور جامعات سے اہل یوروپ تعلیم اور حریت فکر ونظر ، حقوق انسانی اور اظہار رائے کے تصورات سے آشنا ہوکر نکلے اور یوروپی ممالک واپس جاکر علمی اور حقوق انسانی کی تحریک چلائی ، جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ تاریک یوروپ روشنی کی طرف آنے لگا ۔ پندرھویں صدی عیسوی سے یوروپ میں " نشاہ ثانیہ " کی تحریک شروع ہوئی جس کے پیچھے یہود کا مفسدانہ اور مجرمانہ دماغ کام کر رہا تھا اور یہاں سے " عصر حاضر " شروع ہوا جس کے بارے میں علامہ اقبال رحمہ نے کہا ہے : عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے قبض کی روح تیری دے کے تجھے فکر معاش ان کے مقابلہ میں خلافت عثمانیہ مرور زمانہ کے ساتھ کمزور ہونے لگی اور یہود کی مسلسل سازش اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے بالآخر 1924 میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کردیا گیا ۔ اس کے ختم کرنے سے پہلے ہی جب یوروپی ممالک نے دیکھا کہ خلافت بالکل ناتواں ہوچکی ہے تو انہوں نے اس کے تحت جو مسلم ممالک تھے ان پر حملے شروع کردیے ۔ فرانس نے لیبیا پر 1897 ہی میں حملہ کردیا تھا ۔ اس طرح مختلف یوروپی ممالک نے مسلم ممالک کو تقسیم کرکے اپنے مستعمرات ( Colonies) میں شامل کرلیا ۔ اس طرح امہ مسلمہ پوری دنیا میں مغلوب ، محکوم ہوگئی ۔ انہوں اپنے دور حکومت میں مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے " جدید یوروپی نظام تعلیم و تربیت " کو نافذ کیا یعنی نصاب تعلیم سے دینی مضامین کو حقارت سے نکال دیا اور اسی کے مطابق مسلمانوں کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نئی نسل اسلام سے دور ، بیزار اور لادین ہوگئی ۔ مشہور مسلم مفکر محمد قطب رحمہ نے اپنی تصنیف ' واقعنا المعاصر ' میں اس صورت حال پر تفصیل سے بحث کی ہے جو قابل مطالعہ ہے ۔ جب مسلم ممالک ان کی غلامی سے آزاد ہوئے تو انہوں نے ملک کی باگ ڈور اپنے تربیت کردہ اسلام بیزار نئی نسل کے حوالے کرگئے اس طرح مسلم ممالک اسی منہج پر کام کرتے رہے جو وہ قائم کر گئے تھے ۔ مسلم حکمران خواہ وہ عرب ہوں یا عجم ان کو کرسی اقتدار پر انہوں نے ہی بٹھایا ہے اس لیے وہ ان کے اشارے اور مرضی کے مطابق ہی کام کرتے رہتے ہین ۔ پورے مسلم ممالک میں اس صورت حال نے اسلام سے دور مسلم حکمرانوں اور مسلم عوام کے درمیان جدائی پیدا کردی جس نے ان کے درمیان باہمی ہم آہنگی کو بالکل ختم کردیا جو کسی ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہوتی ہے ۔ ایسے انتہائی پریشان کن حالات میں یہی ایک راستہ نظر آیا کہ دینی اور خالص اسلامی تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کیے جائین جس کی طرف رہنمائی شاہ ولی اللہ رحمہ کرگئے تھے ۔ امام قاسم نانوتوی رحمہ نے اسی سمت میں قدم آگے قدم بڑھایا اور دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی جس کا مقصد دینی نظام تعلیم و تربیت کو باقی رکھنا اور اس کی حفاظت تھی ۔ یہ صرف ایک دینی علمی درسگاہ نہیں تھی بلکہ یہ ایک دینی ، فکری اور اجتماعی تحریک کا بھی آغاز تھا ۔ اس کے بعد ہند میں دارالعلوم ندوة العلماء اور دیگر دینی ادارے بنیادی طور ہر اسی خاص مقصد کے لیے قائم کیے گئے ۔ جن کا واحد مقصد قرآن و احادیث پر مبنی نظام تعلیم و تربیت قائم رکھنا اور چلانا تھا ۔ ا ن دینی مدارس میں مسلمانوں کے صرف %4 فیصد وہ بچے جاتے ہیں جن میں انگریزی اسکولوں کے مصارف برداشت کرنے کی سکت نہیں ہوتی ہے ۔ اب مسلم حکمرانوں کے آقاؤں کو مسلم ممالک کے ان دینی مدارس سے خطرہ نظر آنے لگا ہے اس لیے انہوں نے منصوبہ بنایا کہ دینی درسگاہوں کو دہشت گردی کے اڈے قرار دے کر ان پر قید و بند عائد کیے جائیں اور ان کے نصاب تعلیم کو مسخ کردیا جائے ۔ دینی مدارس میں سائنسی علوم کو داخل کرنے کی سازش کو میں نے اپنے مضمون " دینی مدارس میں سائنسی علوم کو داخل کرنے کی تجویز ، ایک سازش ہے فقط " میں لکھا ہے ۔ ہمارے علماء کرام اور بزرگان دین بڑی قربانیاں دے کر اس نظام تعلیم و تربیت کی حفاظت کی ہے ۔ ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے اس کی حفاظت کرنا اوراس کو قائم رکھنا ہمارا دینی و ملی فریضہ ہے ۔ ہم اسلام دشمن طاقتوں کو ان کی خفیہ سازشوں اور چالوں میں ہرگز کامیاب ہونے نہیں دیں گے ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global And Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com ۔
@shaikhabdullah64782 жыл бұрын
Mashallah buhat khud
@istiyaquealam28522 жыл бұрын
Abdullah istiyaque Alam araria
@AarifKP2 жыл бұрын
Nice bhai jaan me mewat se hu AAP ka fan
@misrufmisrufkhan16462 жыл бұрын
Super
@JameelKhan-jf7zr7 ай бұрын
❤❤❤❤❤
@mdmajidakhtar88682 жыл бұрын
Mashallah 🧳💞💞💞❣️❣️❣️❤❤❤
@mdyasir94992 жыл бұрын
Hamare gaon mein be din bahut hai
@istiyaquealam28522 жыл бұрын
Alam
@mohammadaffan15372 жыл бұрын
السَّلَامُ علیکم ۔بھائ یہ مدرسہ کہاں پر ھے
@salmakhansaamakhan30752 жыл бұрын
❤️
@sohailshah7992 жыл бұрын
Allah se dua he ya Allah Sare munafiko ko jahnnam me dalde maslake ala hajrat jindabad1
Hamen madrasa banane hai Hazrat mera naam Yasir hai Hafiz a Kuran hun jameen apna hai
@molanasuhailislamicbyan30712 жыл бұрын
Mashallh lekin agar aap is klaam par asatizah ke fhoto lgate to kiya baat hoti is klaam ki
@MustafaKhan-gv5yo2 жыл бұрын
T
@mdyasir94992 жыл бұрын
Hamen madari banani hai Hazrat
@akbarkhandbgdbg14212 жыл бұрын
Hii
@laeequenadvi47462 жыл бұрын
آسام کے وزیر اعلی ہمانتا بسوا سرما کا مدارس کے بارے میں بڑا شرانگیز بیان انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا : " مدارس جیسے مذہبی اداروں میں داخلے کی اجازت صرف اس عمر میں دی جانی چاہیے جب طلبہ اپنے فیصلے خود کرسکیں ۔ مسلم مخالف بیانوں کے لیے بدنام بی جے پی کے لیڈر نے کہا کہ : " لفظ مدرسہ ہی کو ختم کردینا چاہیے ۔ جب تک ذہن میں مدرسہ رہے گا ، بچے کبھی ڈاکٹر یا انجینئرز نہیں بن سکتے ہیں ۔ اگر بھرتی کے لیے کسی بچے سے سوال کریں کہ کیا اسے مدرسہ میں داخل ہونا ہے تو کوئی بھی بچہ راضی نہیں ہوگا ۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرکے بچوں کو مدرسوں میں داخل کرایا جاتا ہے ۔ ان کی توجہ اس طرف دلائی گئی کہ مدرسہ کے بچے اتنے ذہین ہوتے ہیں کہ وہ پورا قرآن حفظ کرلیتے ہیں تو بی جے پی کے لیڈر نے پینترا بدلتے ہوئے کہا اگر مدرسہ جانے والا کوئی بچہ ذہین ہے تو اس کی وجہ ہندو ورثہ ہے ۔ ایک وقت سبھی مسلمان ہندو تھے ۔ بسوا سرما آر ایس ایس کے ہفتہ وار کو انٹرویو کے دوران زہر اگل رہے تھے ۔ انہوں نے کئی اور باتیں بھی کہیں ۔ اس پر بھی ان کا دل نہیں بھرا تو بعد میں ٹوئٹ کرکے مزید کہا کہ تعلیم کے روایتی نظام پر مذہبی تربیت کو ترجیح دی جاتی ہے ، میں مدرسہ کو نہیں رکھنے کی وکالت کروں گا ۔ ہر بچے کو سائنس ، ریاضی اور دوسرے جدید علوم کو حاصل کرنے دیا جانا چاہیے " ۔ ( اخبار مشرق ، کلکتہ سوموار ٢٣ مئی ٢٠٢٢ ) بی جے پی کے لیڈر کے اس بیان کے بعد ہندی نیوز چینلز میں بھی اس ہر مباحثے ہوئے ۔ مسلمان اردو اہل قلم اور صحافیوں کو آسام کے وزیر اعلی کے اس بیان کا تنقیدی جائزہ لینا چاہیے ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
@laeequenadvi47462 жыл бұрын
" قوموں کے عروج و زوال کا قانون " ( یو ٹیوب میں اس موضوع پر جاوید غامدی کے جواب کے حوالے سے ) امہ مسلمہ کا عروج و زوال دین سے وابستہ رہنے میں ہے ۔ کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں علامہ اقبال رحمہ دین سے وابستگی کا مطلب ہے قرآن و سنت سے ذہنی ، فکری اور علمی وابستگی ۔ قرآن سے وابستگی کا تقاضا ہے کہ امہ مسلمہ علوم و فنون یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف پوری توجہ کرے اور دوسری قوموں پر اسے تفوق و برتری حاصل ہو ۔ وہ زمانے معزز تھے مسلماں ہوکر اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر علامہ اقبال رحمہ قرآن کی تعلیمات عالمی اور آفاقی ہیں ۔ ان میں دین و دنیا کی جدائی کا سرے سے کوئی تصور نہیں ہے ۔ اسلام میں یہ بحث بالکل لغو اور عبث ہے ۔ یہ تصور خارجی اور اعداء کی سازش کا نتیجہ ہے ۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امہ میں دوئی کی یہ بحث کیسے شروع ہوئی ؟ جدید تعلیم یافتہ لوگ اس کا الزام علماء پر لگاتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ دوئی ( ثنویت) یہود و نصاری کی سازش کی وجہ سے امہ مسلمہ میں در آئی ہے ۔ اس کا مقصد امہ مسلمہ کو زوال سے دوچار کرنا تھا ۔ امہ کے خلاف یہود و نصاری کی مسلسل منصوبہ بند خفیہ سازشوں نے اس کے اندر دین و دنیا کی جدائی کا تصور پیدا کردیا ، جس کے نتیجے میں امہ زوال پذیر ہونا شروع ہوگئی ۔ اہل یوروپ نے جب اٹھارویں اور انیسویں صدی میں عالم اسلام پر حملہ کرنا شروع کیا اس وقت تک ہمارے نصاب تعلیم میں ثنویت نہیں تھی ۔ نصاب تعلیم میں دونوں علوم شامل تھے ۔ اہل یوروپ نے علوم و فنون اندلس کے علمی اداروں میں سیکھے لیکن انہوں نے اپنے نصاب سے دینی علوم کو خارج کردیا اور صرف سماجی اور سائنسی علوم کو رکھا ۔ نصاب تعلیم میں عملی طور پر یہاں سے دوئی اور جدائی پیدا ہوئی ۔ مصر پر جب انہوں نے غاصبانہ قبضہ کیا تو وہاں رائج نصاب تعلیم کو خارج کرکے وہ نصاب تعلیم کو رائج کیا جس میں دینی علوم نہیں تھے اور جو جدید اور سائنسی علوم کہلائے حالانکہ یہ علوم انہوں نے اندلس میں مسلمانوں ہی سے سیکھے تھے ۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے اگر مصر کی تاریخ نصاب تعلیم کا مطالعہ کیا جائے تو اس حقیقت سے پردہ اٹھتا ہے کہ کس طرح نصاب تعلیم میں یہ ثنویت پیدا کی گئی تھی ۔ محمد قطب رحمہ اس کا الزام خاص طور پر محمد علی پاشا پر لگایا ہے ۔ ہمارے بزرگان دین نے جب دیکھا کہ اب وہ نصاب تعلیم رائج کردیا گیا ہے جو اسلامی تعلیمات تعلیم و تربیت سے بالکل عاری ہے تو وہ مجبور ہوئے کہ علیحدہ دینی تعلیم و تربیت کے ادارے اور مراکز قائم کریں تاکہ دینی علوم و اسلامی ثقافت کی حفاظت کی جاسکے اور اسے قائم و دائم رکھا جاسکے ۔ اگر اس مختصر تحریر کو پوری گہرائی کے ساتھ سمجھ لیں تو مسلمانوں کو دین و دنیا کی دوئی یا نصاب تعلیم میں ثنویت کی اصل حقیقت سمجھ میں آجائے گی ۔ یہ امہ ایک امہ وسط ہے ۔ اس میں افراط اور تفریط نہیں ہے اعتدال اس امہ کی بہت بڑی خصوصیت اور امتیاز ہے ۔ اب حکومتی ملازمتیں اسی نام نہاد " جدید اور عصری " تعلیم یافتہ کو ملنے لگیں اور دینی مدارس کے تعلیم یافتہ ان سے محروم ہوگئے ۔ یہ جدید تعلیم و تربیت سے آراستہ طبقہ علماء کی مخالفت میں کمربستہ ہوگیا اور آج تک ہے ۔ اللہ ان سے عام مسلمانوں اور دینی مدارس کی حفاظت فرمائے ۔ یہ مختصر تحریر ہے ۔ اللہ اس کو مفید بنائے اورمسلمانوں کو صحیح سمجھ عطا فرمائے ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com