Dono pehalwan vdiya ne ajj ta hodi ne siraa kra dita
@MushtaqAhmed-re2he4 жыл бұрын
Very nice hodi vs Ganni
@FarooqKhan-il9cj4 жыл бұрын
Gani nice
@vipankumar54544 жыл бұрын
Ganni very nice pahlwan
@balwantsingh97984 жыл бұрын
Gani first point
@latifkhatana76284 жыл бұрын
Hodi Iran 🇮🇷fans hit like
@billugorsi96794 жыл бұрын
Gani 22 g na att kra ti
@chamansingh53134 жыл бұрын
Jassa patti very good pahwal
@iftkharchaudhary82634 жыл бұрын
Ganni best
@anwarchoudhary52154 жыл бұрын
Gianni 22 g nice
@knowledgepoint16113 жыл бұрын
Hodi always winner
@meetgaganmeetgagan98074 жыл бұрын
Plz jassa vs hodi irani kdo match hona koi das sakda ki besabri nal intjaar💣💣match
@sandeepjoshi51582 жыл бұрын
Hodi bahut furtila hai. Uski body bahut hi balanced hai.
@pawankumar-el8hk3 жыл бұрын
Hodi. 👍👍👍❤️❤️
@ranjitsohal24514 жыл бұрын
Best kusthi bro
@SalimKhan-qh6to4 жыл бұрын
Good day guani
@sukhabains93514 жыл бұрын
Ganni Lalliy Galat Pehalwan Hai Ji
@gulamnabi1803 жыл бұрын
Gabbi like
@gulamnabi1803 жыл бұрын
Gabbi likes
@sonyjeena43594 жыл бұрын
Hodi 👌💥
@dharamsingh24564 жыл бұрын
👌
@guffarmohd44134 жыл бұрын
Dono plban thik
@billugorsi96794 жыл бұрын
Was Mera veer gani
@NavjotSingh-be3ie4 жыл бұрын
hodi win
@khalidbashir57532 жыл бұрын
مہر خان پہلوان بمقابلہ گاشو پہلوان : ۔۔۔۔۔۔۔ بعض دنگلوں کے دوران یہ بات عموما" دیکھنے میں آئی ہے کہ بڑے پہلوانوں کے مقابلے میں چھوٹے پہلوانوں کی کشتیاں زیادہ لطف دے جاتی ہیں۔ جن کی یاد مدتوں تازہ رہتی ہے۔ اگر کشتی مخالف دفوں کے درمیان ہو تو پھر کشتی کا مزہ دگنا ہو جاتا ہے۔۔ استاد جاموں اکھاڑ بند کی دف سے متعلق استاد پرتھوی کے شاگرد غیاث الدین عرف گاشو طاقت اور فن کے لحاظ سے منفرد پہلوان تھے۔ علاؤالدین علاؤ پہلوان پسر استاد احمد دین پہلوان کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے جو بڑے ہر دلعزیز اور اپنے جوڑ کے پہلوانوں میں سر فہرست تھے دوسرے ایک ایسے باپ کے بیٹے تھے جو شہر کے پہلوانوں اور شرفاء میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔۔ لہذاء اس کشتی کے بڑے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔۔ شہر کے رئیس تو پہلے ہی ان کے مداح اور دلدادہ تھے۔ شہر کے تقریبا" تمام ہندو تاجر اور کاروباری لوگ ان کے اعلانیہ طرف داروں میں شامل ہو گئے۔ مسلمان ، مسلمانوں ، ہندو ، ہندوؤں اور سکھ سکھوں سے اکثر کشتیاں لڑتے رہتے۔ لیکن لدھیانہ کے ہندو تاجروں اور سیاسی شاطروں نے اس کھیل کی پاکیزگی کو بگاڑنے اور مسلمانوں کے اتحاد کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔ لہازہ بظاہر تمام ہندو گاشو پہلوان کے طرف دار بن کر آئے لیکن اندر سے وہ مسلمانوں کے اتحاد کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے تھے۔ گاشو پہلوان کی اس فتح کو جان بوجھ کر اچھالا گیا ۔ ۔ ### شہر کے ہندو رئیسوں نے آئے دن گاشو اور ان کے استاد پرتھوی کی دعوتوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ احمد دین پہلوان نے ان کی شر پسندیوں کو صبرو تحمل سے برداشت کیا۔ دولا پہلوان ٹائیگر جالندھری ان دنوں لدھیانہ میں ہی مقیم تھے۔ انہوں نے استاد احمد دین کو مشورہ دیا کہ اپنے شاگرد مہر خان کو تیار کر کے گاشو کے مقابلے پر لایا جائے۔ چنانچہ مہر خان کو کمر توڑ زور کروائے گئے اور دولا پہلوان کی نگرانی میں مہرخاں کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ آخر خوب تیاری کے بعد مہر خان کو تیار کر لیا گیا۔ کشتی کا دن مقرر ہوا اور سرائے نواب صاحب میں اس کا بندوبست کیا گیا۔۔ چھوٹی جوڑوں کے بعد بڑی جوڑ کا اعلان ہوا۔ سرخ و سفید اور وجیہہ گاشو پہلوان ناچتے کودتے اور نعرے لگاتے میدان میں اترے ، طرف داروں نے تالیاں پیٹ پیٹ کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ شہزادہ علی گوہر اس کشتی کے منصف مقرر ہوئے۔ کشتی کا آغاز ہوا تو مہر خان نے بڑی پھرتی سے گاشو کو رانیں نکال کر آگے رکھا لیکن گاشو نے پشتک لگا کر آزادی حاصل کر لی ۔ دونوں پہلوان پھر گھتم گھرا ہو گئے۔ اب گاشو نے مہر خان کی دونوں بغلیں بھر کر اسے سینے سے لگایا اور قدرے اونچا اٹھاتے ہوئے پکار کر کہا کہ " بتاؤ اسے کہاں پھینکوں " گاشو کے طرف دار تالیاں بجا بجا کر خوش ہو رہے تھے لیکن مہر خان کے حمائتیوں کے چہرے اترے ہوئے تھے۔ سب کو یقین تھا کہ مہر خان کشتی ہار جائیں گے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔ گاشو نے جونہی مہر خاں کو نیچے گرانے کی کوشش کی اور مہر خان کے اٹھتے ہوئے قدم جونہی زمین سے ہلے انہوں نے اپنے آپ کو سنبھالا دیتے ہوئے زمین پر پوری طرح اپنے قدم جما کر ایسی " ڈھاک " لگائی کہ غرور اور تکبر بھرے گاشو پہلوان ہوا میں قوس بناتے ہوئے چاروں شانے چت ہو گئے۔ گاشو کے حامیوں کو چپ لگ گئی جبکہ مہر خان کے حامی انہیں کندھوں پر اٹھائے کشتی گاہ میں چکر لگانے لگے اور ان پر سکوں کی بارش کر دی۔ اگرچہ مہر خان پہلوان غیاث الدین گاشو کی جوڑ نہیں تھے لیکن گاشو پہلوان کو ان کا غرور لے ڈوبا کیونکہ خدائے بزرگ و برتر کو تو عاجزی و انکساری پسند ہے اور غرور و بڑائی صرف رب کی ذات کو ہی روا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ( بشکریہ روزنامہ امروز لاھور سپورٹس ایڈیشن)