پیمانے چھلک ہی جاتے ہیں جب کیف کا عالم ہوتا ہے یہ راز زمانہ کیا جانے، کیوں گریۂ کم کم ہوتا ہے اب سعئ تلافی لا حاصل، اب کوششِ درماں بے معنی جو درد مقدر بن جائے، وہ درد کہاں کم ہوتا ہے اُس وعدہ شکن کے بھولے پن پر کوئی خفا بھی کیسے ہو اقرار بھی مبہم ہوتا ہے، انکار بھی مبہم ہوتا ہے انجامِ بہاراں کے ڈر سے پھولوں کو پسینے آتے ہیں وہ خونِ جگر ہے گلشن کا جو قطرۂ شبنم ہوتا ہے سچ مُچ کی خوشی ملتی ہے کسے اِس آہ و بُکا دنیا میں ہم جس کو تبسم کہتے ہیں سوچو تو وہ ماتم ہوتا ہے اقبال عظیم
@harisbinaziz Жыл бұрын
اس وقت سے وابستہ ہیں کئی ماضی کے مقدس افسانے یادوں کے دیے جل جاتے ہیں جب دامنِ شب نم ہوتا ہے آنکھوں سے چھلکتے پیمانے، ہونٹوں سے برستے میخانے اب جام و سبو کا ہوش کسے، وہ کیف کہاں کم ہوتا ہے
@DrKhalidJamilPoetry3 ай бұрын
Wah wah kiya khene
@mohammadilyasjaved13877 ай бұрын
👍
@Travel.2 Жыл бұрын
Great poet🎉
@syedahmad40708 ай бұрын
❤
@syedahmad40708 ай бұрын
He was my Urdu professor in Chittagong. I love him and miss him. May Allah Bless him(Amen)