ماشاءاللہ زبردست اللہ سبحانہ و تعالی اپ کو جزائے خیر دے اللہ کے سوا کوئی نفع یا نقصان پہنچانے والا نہیں اللہ خوش رکھے
@ksaconstruction70127 күн бұрын
اللہ تعالٰی آپ کی حفاظت فرمائے اور ایمان والی لمبی عمر عطا فرمائے آمین
@mrskshaikh25 күн бұрын
ہمیشہ کی طرح اپ نے بہت خوبصورت انداز سے بہت پیارا سبق دیا.💐💐💐 بارک اللہ فیکم🤲
@mudassirmudassir920325 күн бұрын
جزاکم اللہ خیرا شیخ محترم
@MirzaNaeemIqbal-zj3yo25 күн бұрын
عقیدہ توحید اللہ تعالٰی کی بہت بڑی نعمت ہے اللہ جسے چاہے اس اس نعمت سے نوازا دے سبحان اللہ الحمدللہ اللہ اکبر
@Raomuhammadyasin7525 күн бұрын
Very very nice story 👍👍👍 Rao Muhammad Yasin Lahore i🇵🇰
@RehmanIftekhar24 күн бұрын
slamt rahy Qari Sab
@سميرهخان-ل6ق25 күн бұрын
الله أكبر
@muhammadtahir814225 күн бұрын
😮😅😊🎉😮🎉😅🎉😊🎉😮🎉😅🎉😊 Masha allah tabara kallah
@mudassirmudassir920325 күн бұрын
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
@abdulghafoor503026 күн бұрын
True only ALLAH can safe
@MuhammadAslam-k3t2l25 күн бұрын
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو شخص اپنی نیند میں گھبرا جائے اُسے چاہیے کہ وہ یہ کلمات پڑھے : ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِہٖ وَعِقَابِہٖ وَشَرِّ عِبَادِہٖ وَمِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَنْ یَّحْضُرُوْنَ۔‘‘ تو وہ خواب اُسے ہر گز نقصان نہ دے گا ، آپؓ کے پوتے کہتے ہیں کہ: حضرت عبد اللہؓ کی اولاد میں جو بالغ ہو جاتا تو آپ اُسے یہ کلمات سکھادیتے ، اور جو نابالغ ہوتا تو آپ اس کے گلے میں یہ دعا لٹکا دیتے تھے : ’’و کان عبد اللہ بن عمروؓ یعلمھا من بلغ من ولدہٖ و من لم یبلغ منھم کتبھا في صک ، ثم علقھا في عنقہٖ۔‘‘ (رواہ ابو داؤد و الترمذی، بحوالہ مشکوٰۃ، ص: ۲۱۷) اس سے معلوم ہوا کہ کلام پاک کا پڑھنا اور کلماتِ مبارکہ تعویذ لکھ کر بنانا اور اُسے بدن سے باندھنا دونوں عمل جائز ہیں۔ اگر یہ عمل ناجائز ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابیؓ کبھی بھی اپنے بچوں کے گلے میں تعویذ نہ ڈالتے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے اس عمل سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ تعویذات کے اثر کے قائل تھے ، جبھی تو آپ نے تعویذ لکھا اور اسے اپنے بچوں کے گلے میں ڈالا۔ یہ کلمات کوئی روحانی تاثیر نہ دیتے تو آپ ہی بتلائیں کیا صحابی رسول ایسا عمل کرتے ؟ البتہ تاثیر میں اذنِ الٰہی کو شرط جاننا ضروری ہے ۱: دسویں صدی کے مجدد حضرت ملا علی قاری ؒ (متوفی:۱۰۱۴ھ) اس حدیث پر لکھتے ہیں کہ : ’’و ھٰذا أصل في تعلیق التعویذات التي فیھا أسماء اللہ تعالٰی۔‘‘ ( مرقات ،ج: ۵، ص: ۲۳۶) ا س سے واضح ہوتا ہے کہ وہ تعویذات جو اسمائے الٰہیہ اور کلماتِ مبارکہ پر مشتمل ہوں ، اپنے اندر ایک روحانی ا ثر رکھتے ہیں اور اس سے مریضوں کا علاج کرنا علاج بالقرآن ہی ہے۔ ہاں! وہ تعویذات جو شرکیہ الفاظ پر مشتمل ہوں‘ ان کی قطعاً اجازت نہیں۔ روایات میں تمائم اور رُقٰی کو شرک کہا گیا ہے، اس سے مراد اسی قسم کے دم اور تعویذ ہیں، جن میں شرکیہ الفاظ و اعمال کا دخل پایا جائے۔ ’’التمائم‘‘ میں ’’ الف لام‘‘ اسی کے لیے ہے ، اور جو دم اور تعویذ اس سے خالی ہوں، ان کا استعمال جائز ہے اور اس کے روحانی اثرات ثابت ہیں۔ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم دورِ جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے ،ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بابت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’أعرضوا عَلَیَّ رقاکم ، لا بأس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک۔‘‘ (رواہ مسلم ، مشکوٰۃ، ص: ۳۸۸) اس سے پتہ چلتا ہے کہ دم اور تعویذ میں اصل وجہِ منع کفر و شرک ہے، جب یہ نہ ہو تو وہ دم اور تعویذ جائز ہے، چنانچہ ابن تیمیہؒ اپنی کتاب ’’ مجموعۃ الفتاویٰ‘‘ میں تعویذ کے جواز پر ایک مستقل فصل ’’ فصل : في جواز أن یکتب لمصاب و غیرہ ۔۔۔ الخ‘‘ باندھ کر اس کے تحت لکھتے ہیں: و یجوز أن یکتب للمصاب و غیرہ من المرضٰی شیئًا من کتاب اللہ و ذکرہ بالمداد المباح ، ویغسل و یسقٰی ، کما نص علٰی ذلک أحمد و غیرہ۔‘‘ (مجموعۃ الفتاویٰ، ج: ۱۹، ص: ۳۶، ط: مکتبۃ العبیکان ) کسی مریض کے لیے کتاب اللہ میں کچھ لکھ کر دینا یا اس کو دھو کر پانی میں گھول کر پلانا، یہ دونوں جائز ہیں۔
@tanveersheikh986026 күн бұрын
Assalam alaikum, Aapka andaz e guftughu mujhe apne marhum Nana ki yaad dilata hai. Allah apko salamat rakhe