سبحان اللہ۔ بہت ہی عمدہ خطبہ۔ آپ ایسے ہی موضوعات لیا کریں اور مولویانہ موضوعات سے جہاں تک ہو سکے احتراز فرمایا کریں۔ بہت عمدہ۔
@noormohdqureshi-x4gКүн бұрын
Very good
@rehmateparbhaniКүн бұрын
#work for compassion
@syedasimali6682 күн бұрын
خطبے کے دوران سیٹیاں اور ہارن بہت سنائی دیتے ہیں۔ شاید سڑک برابر سے گزرتی ہے۔ اسکا علاج یہ ہے کہ ایک مائک ایسا آتا ہے جس میں noise cancellation device بھی inbuilt ہوتی ہے۔ یہ مائک منگا لیں تو یہ بیک گراؤنڈ شور بہت کم ہو جائے گا۔
@jantakiawaaz00762 күн бұрын
सर जरा बताएं कि जब भारत और पाकिस्तान का बंटवारा हुआ था यह बात हमारे उलमाओं को क्यों नहीं समझ में आया की दो कलचर एक साथ नहीं रह सकते हैं चले जो हो गया वह हो गया अब बताएं कि हमें क्या करना होगा सबसे बड़ी दिक्कत की बात आपसे बताओ कि आपका चैनल देखने के बाद कुछ भी कमेंट करो कोई भी बात का जवाब नहीं आता है
@keertitavadare2 күн бұрын
Aap iss number pe puchiye 9368009628 ye unke organization ka official number hai uspe jawaab milte hai.
@shahidansari49152 күн бұрын
Sirf ulmaao ko bura bhala kehna jnte h aap log Please Qur'anic study kijiye
@shahidansari49152 күн бұрын
Aur acharya prasant ji ko suniye
@yasmeenjahan93482 күн бұрын
Ap work se jud ker dekhy fir ap k sare sawalon k jawab mil jaengy
@yasmeenjahan93482 күн бұрын
Zabardast information di Allama sahab ne
@ghufransheikh3584Күн бұрын
No ideology of seperate state in Islam yet there are 57 Muslim states !!!
@syedasimali6682 күн бұрын
معذرت، لیکن آپ سے شروع میں ہی ایک غلطی ہو گئی۔ قرآن میں یروشلم کا نام نہیں آیا اور نہ وہاں کسی مسجد کو مسجد اقصا کہا گیا، بلکہ یہ لفظ مسجدنبوی کے لئے استعمال ہوا ہے جہاں اسکی تعمیر سے لے کر آج تک برکت ہے برکت ہے۔ چونکہ وہ مکے سے دور تھی اسلئے اسے اقصا یعنی دور والی مسجد کہا گیا۔ اور رسول اکرم کے ہجرت فرمانے سے پہلے ہی وہاں نماز شروع ہو چکی تھی۔ رسول اکرم کو مسجد حرام سے نکال کر مسجد نبوی ہی لے جایا گیا اور وہ جگہ مقدس اور بابرکت قرار پائی۔ رسول اکرم کی حیات طیبہ کے دوران یروشلم کے اس مقام پر سرے سے کوئی مسجد نہیں تھی، نہ یہودیوں کی نہ مسلمانوں کی، اور نہ کبھی رسول اکرم وہاں تشریف لے گئے۔ یہ جو عمارت آج مسجد اقصا کہلاتی ہے اسے اموی بادشاہ ولید بن عبدالملک بن مروان نے رسول اکرم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے تقریبن ستر یا ۸۰ سال بعد بنوایا تھا۔ آپ نہایت جدید ذہن کے مالک ہیں، لیکن کبھی کبھی جعلی روایات کا شکار ہو جاتے ہیں۔