یہ اعتراض اکثر سننے میں آتا ہے کہ اردو شاعری میں محبوب کے لیے صیغۂ مذکر استعمال کیا جاتا ہے ۔ یعنی معشوق آتا ہے، جاتا ہے، ملاقات سے کتراتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مرزا عبدالودود بیگ کہتے ہیں کہ اِس قسم کے اعتراضات زبان اور اُس کے مزاج سے ناواقفیت کا سوتا جاگتا ثبوت ہیں۔ شعری روایت بھی کوئی چیز ہُوا کرتی ہے ، اِس سے انحراف کرو گے تو بات اُلٹی بگڑ جائے گی۔ مثلا مومن ہی کا مشہور شعر لیجیے تم مرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا یہاں ذرا دیر کو صیغۂ مذکر کی جگہ مؤنث استعمال کر کے دیکھو تم مرے پاس ہوتی ہو گویا جب کوئی دوسری نہیں ہوتی دیکھیے خفیف سی تبدیلی سے خفت کی کیسی اور کتنی صورتیں پیدا ہو گئی ہیں ۔ لطفِ صحبت بسترِ خجالت میں تبدیل ہو گیا ہے ! مشتاق احمد یوسفی