اللھم صل علٰی محمد وآل محمد الطیبین الطاھرین المصومین عجل اللہ تعالٰی ولیک فرجهم الشريف سلام مولا علی علیہ السلام مدد ❤❤❤❤❤
@mohammedali-s6s9 ай бұрын
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔اللہم صلی علی محمد والہ محمد ۔ عمری جماعت حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔کی اولاد کو کیوں بھول جاتے ہیں
@Truthful59 ай бұрын
مَودّت بہ نفس ِ قُرآن حضرت نوح، صالح، لوط، شعیب اور ھود عَلَیْہ السَّلَام نے اَجرٍِ رسالت یعنی تبلیغِ حق کا معاوضہ نہیں مانگا اور اپنی قوم سے اِن تمام انبیاء نے کہا کہ اِس کا اَجر تو صرف سب جہانوں کے رَب کے زمّے ہے (سورة الشعراء آیت-109، 145، 164 اور 180، سورة ھود آیت 29، 51 اور سورة یونس آیت-72)- جبکہ اِسی طرح کا بیان حضرت محّمد (ﷺ) کے لیئے بھی اِن چار آیا ت میں آیا: سورة فرقان آیت-57، سورة سبإ آیت-47، سورة الأنعَام آیت-90 اور سورة یوسف آیت-104- لیکن سورہِ الشوریٰ آیت-23 میں ارشاد ہوا، ”یہ وہ (اِنعام) ہے جس کی خوشخبری اللہ اِیسے بندوں کو سناتا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے، فرما دیجیے میں اِس (تبلیٍغِ رسالت) کی تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا بجز اِس کہ میرے اَقرِابہ میں مودّت (چاہتا ہوں) اور جو شخص یہ نیکی کمائے گا ہم اُس کے لیئے ثواب اور بڑھا دیں گے، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا اور شکور (انتہای شکریا اَدا کرلے والا) ہے‟- اِس آیت میں حضور کو اَجرِِ رسالت مانگنے کا حکم خصوصاً دیا گیا جس سے اور نبی مبّرا تھے، اور اِس عمل یعنی اَقرَابہ میں مودّت کو لوگوں کی بھلای قرار دیا جو اللہ کے راستے کےمَتلاشی ہیں جس کا ذکر سورہ ِ فرقان آیت-57 اور سورہ ِ سبإ آیت-47 میں پہلے آیا- عربی زبان میں لفظ اُلفت اور مَحبت کا تعلق جزباتی لگاو سے ہے جبکہ مودّت وفاداری کی اِنتہا ہے اور اِس کا تعلق عزت وغیرت سے ہے- مالی اور جسمانی نقصان میں انسان کچھ کھوتا ہے لیکن اگر عزت چلی جائے تو سب کچھ کھو دیتا ہے- نیز اُلفت اور مَحبّت کا تعلق صفتِ ذات سے ہے جو صفت میں کمّی آنے پر ختم بھی ہو سکتی ہے، لیکن جن ہستیوں سے مَودّت کو منسوب کیا گیا اُن میں کمّی کا امکان ہو ہی نہیں سکتا کیوںکہ اللہ نے اُن کو ہر قسم کی کمّی سے پاک رکھنے کا فیصلہ کیا (سورة الأحزَاب آیت-33)- جنگ اُحد میں یہ مولا علی عَلَیْہ السَّلَام کی وفاداری تھی کہ وہ حضور کے پاس موجود رہے جبکہ تمام صحابہ میدانِ جنگ سے فرار ہو گئے (سورة آل ِ عِمراَن-153)، اور اِس موقع پر اللہ نے فرمایا کہ، وقعہِ اُحد میں یہ دیکھانا مقصود تھا کہ کون اصل مومن ہے (سورة آل ِ عِمران آیت-166)- لیکن یہ مَودّت کی اعلیٰ مثال تھی جب ماہ محرم 61 ہجری شبِ عاشور اِمام حسُین عَلَیْہ السَّلَام نے چراغ بجھا کر اپنے اَصحاب سے فرمایا، ”جو جانا چاہے چلا جائے‟ پر کوئی نہ گیا اور چراغ روشن کرنے پر سب موجود تھے! اَقرَابہ میں مودّت اِسی طرح ہے جیسے پانی میں مچھلی، پانی کے باہر اُس کی زندگی مفلوج! اَقرَابہ کے بارے میں پوچھنے پرحضرت محّمد (ﷺ) نے علی، فاطمہ، حسن اورحسُین کے نام لیئے (مسند-احمد بن حنبل، تفسیر کشف، صحیح مسلم اور تفسیر درالوننےر)- جب مودّتِ اہلٍ بیت کو سورہِ الشوریٰ آیت-23 کے حکم کے تحت اَجرِ رسالت سے مسو ب کرنے پر آپ کے اصحاب کے دلوں میں شک و شُبہات پیدا ہوئے تو اِس آیت کا نزول ہوا: ”فرما دیجیئے، میں تم سے اِس (حق کی تبلیغ) کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں بناوٹی باتیں کرنے والوں میں سے ہوں‟ (سورة صٓ آیت- 86)- مزید برآں 9 ہجری میں جب نجران کے عیسَایوں سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہ السَّلَام کی ولدیت کے مسعلے پر اتفاق نہ ہوسکا تو اللہ کے حکم پر حضور نے اُن کو مباہلے کی دعوت دی (سورة آل ِ عِمراَن آیت-61)، اور اِس دعوتِ عام میں جو کہ جنگِ صداقت تھی آپ صرف صدیق ہستیوں (مولا علی، امام حسن و حسُین عَلَیْہ السَّلَام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا) کو ساتھ لے کر مباہلے کے لیۓ تشریف لائے (صحاح ستّہ)- نیز حضرت اُمّ سلمیٰ رضی اللہ علیہا زوجہ رسول کے گھر جب یہ وحی نازل ہوئی، ”۔ ۔ ۔ اللہ نے یہ اِرادہ کر لیا کہ صرف اور صرف اے اہلٍ ِ بیت تمھیں ہر قسم کی نجاست سے دور رکھے، اور اس طرح پاک رکھے جو پاکیزگی کا حق ہے‟ (سورة الأحزَاب آیت-33)، اُس وقت حضور کے ساتھ یہی ہستیاں (اہلٍ بیت) چادر کے اندر موجود تھیں (صحاح ستّہ)- آپ ہی نے فرمایا، ”میرے اہلِ بیت کی مثال کشتی نوح کی طرح ہے جو اِس میں سوار ہوا نجات پا گیا اور جو دور رہا غرق ہوا اور ہلاک ہو گیا‟ (صحاح ستّہ)- نماز، روزہ، زکات، حج وغیرہ نیک اعمال ہیں جن کا ثواب اللہ کے ہاں مقرّر ہے لیکن اللہ اِن جملہ اَعمال بجا لانے پر شکریا اَدا نہیں کرتا جبکہ مودّت وہ واحد عمل ہے جس کے کرنے پر نہ صرف اللہ نے اس کا بڑا ثواب دینے کا وعدہ فرمایا بلکہ اس کا شکریا بھی اَدا کرتا ہے، اور اِسی اَمر کی مبارک باد نیک بندوں کو سورہِ الشوریٰ کی آیت-23 کے اِبتدا میں دے رہا ہے!
@awaiskhanofficial25869 ай бұрын
تسی جا رہے ہو تسی نہ جاؤ 😢
@zafar20739 ай бұрын
Khutba shaq shaqia ahle sunnat bhi mante hain
@user-punjtani9 ай бұрын
مانتے نہیں بس پڑھتے ہیں اور شیعہ روایت حدیث کو گالیاں دیتے ہیں
@zafarhussain75209 ай бұрын
Aksar loggoon nyy khandany Rissalat pak kaa sathh nhy dya. Guzwa hunan Quran myy zikr kia Ala pak nyy jb toom peet phaar kaar baggy nikly apny groor kia too myy nyy fressty bjjy Nabi pak kee nusraat kyy lya log ajj media kee waaja syy muslmanoo koo sachh Quran syy maloom hoogy joo my lvi 1400 saal syy chupa rhya haa
@Truthful59 ай бұрын
حضرت مُحَمَّد (ﷺ) کو والدیں اللہ نے اپنے دین کو دینِ حَنیف (سیدھا دین) کہا (سورة یونس آیت-105) حضرت مُحَمَّد (ﷺ) کا دینی راستہ اُسی دین کا تسلسل ہے جو حضرت نوح، اِبراھیم، موسیٰ اور عِيسَىٰ عَلَیْہ السَّلَام کو بتلایا گیا (سورة الشورى آیت-13) ارشاد ہوا، ”اپنے چہرے کا رخ دینِ حَنیف کی طرف پھیر دو ۔ ۔ ۔‟ (سورة الروم آیت-30) اِسی طرح ہر دور میں دینِ حَنیف کے ماننے والے موجود تھے سورہ غافر آیت-28 میں اللہ نے ایک مومن کا ذکر کیا جو فرعون کی قوم میں سے تھے نیز سورہِ الکہف میں اصحاب کہف کا ذکر تفصیل سے کیا اور اُنھیں اہلِ اِیمان کہا، اور زوجہِ فرعون آسیہ کو مومنوں کے لئے نشانی سورہ تحریم آیت-11 میں قرار دیا-”حضرت ابراھیم نہ یہودی اور نہ ہی عیسَائی تھے، بلکہ وہ دینِ حنیف کے ماننے والے تھے یعنی مسلمان ۔ ۔ ۔‟ (سورة آل ِ عِمراَن آیت-67) حضرت عبدالمطلب اور ابوطالب دونوں کعبہ کے متولی اور دین ِ حَنیف کے پیروکار یعنی مسلمان تھے کیونکہ، ”۔ ۔ ۔ کعبہ کے متولی تو صرف متّقی لوگ ہیں۔ ۔ ۔‟ (سورة انفال آیت-34)- عبدالمطلب متولی کعبہ ایک انسان دوست اور متّقی تھے اور ان کا ایمان اللہ پر تھا جو مندرجہ ذیل حقایق سے ثابت ہے: 1- ابرہہ کا لشکر جب کعبے کو مسمار کرنے مکہ آیا تو حملے سے پہلے حضرت عبدالمطلب کے چند اونٹ اس کے سپاہیوں نے ہتیا لیئے- اس موقعہ پر حضرت عبدالمطلب نے کہا کہ کعبہ اللہ کا گھر ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا تم میرے اونٹ واپس کر دو- اس کے بعد ابرہہ کا لشکر کیسے نیست و نابود ہوا اس کا ذکر تفصیل سے سورہ فیل میں آیا- 2- جب حضرت عبدلمطلب نے لوگوں سے یہ کہا کہ، "مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ کعبہ کے قریب ایک جگہ کو کھودا جاے"، تو کفار مکہ کی مخالفت کے باوجود جب کھدائ کرائ گئ تو وہاں پرچند تبروکات کے علاوہ ذم ذم کا کنواں پایا گیا- ان تبروکات میں حضرت اسماعیل کے بکرے کے دو سینگ، سونے کے دو ہرن جو ایران کے ایک بادشاہ نے اپنی مننت پوری ہونے پر چڑھاے تھے اور چند تلواریں شامل تھیں- 3- حضرت عِيسَىٰ عَلَیْہ السَّلَام نے اپنی قوم کو حضور کی آمد کی خوشخبری دی اور نام احمد بتلایا (سورة الصف آیت-6)، لیکن آپکا نام ‘مُحَمَّدʽ حضرت عبدالمطلب نے رکھا جو قُرآن میں چار مرتبہ آیا- 4- اپنی وفات سے پہلے حضرت عبدالمطلب نے حضور کو اپنے بیٹے ابوطالب کی نگرانی میں یہ کہہ کر دیا کہ اس بچے کا خاص خیال رکھنا اور حضرت ابو طالب نے حضور کی حفاضت اپنی اولاد سے بڑھ کر کی- 5- حضور کے والد کا نام عبداللہ تھا جو اِس اَمر کی دلیل ہے کہ حضرت عبدالمطلب کا ایمان اللہ پر تھا- حضرت ابو طالب کے گھر پہلی دعوتِ اسلامی کا اہتمام ہوا جسے دعوتِ زولعشیرہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے- اِس موقعے پر ابو لہب کی مُخالفت کے باوجود حضرت ابو طالب نے حضرت مُحَمَّد (ﷺ) کے پیغام کو غور سے سنے پر اِسرار کیا اور بعد میں کافروں اور مشرکین کے مقابلے میں ڈھال بن کر مدد کی- اللہ کے مدد گار صادق ہوتے ہیں (سورة الحُجرات آیت-15)، ”۔ ۔ ۔ اللہ تو متّقین کے ساتھ ہے‟ (سورة البَقَرَة آیت-194)، ”مدد نا مانگنا ظالم سے‟ (سورة ھود آیت-113)، اور ”۔ ۔ ۔ ۔ منہ پھیر لو مشرکّین سے‟ (سورة الأنعَام آیت-106)- نیز سورة النِّسَاء آیت-144 میں مومنوں کو حکم دیا کہ، ”۔ ۔ ۔ کافروں کو اَپنا سرپرست نہ بناو، کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ کو اپنے خلاف کھُلی سند دے دو؟ ‟- نیز فرمایا، ”۔ ۔ ۔ اے عیسیٰ میں تمہیں کاقروں کی نجاست سے پاک رکھوں گا ۔ ۔ ۔‟ (سورة آلِ عِمرَان آیت-55)- اگر اللہ کو حضرت عیسیٰ علیہ سلام کی طہارت کا اتنا خیال ہے تو وہ ہَستیاں جن کے زیرِ سایہ حضور پروان چڑھے اُن کی طہارت کا کیا مقام ہو گا؟ جس ہستی کے گھر پہلی دعوتِ اسلامی ہو، حضور برسوں اُس کے گھر قیام پزیر رہیں، اُسی کے گھر سے حضور کی بارات نکلے، وہ ہستی حضرت خدیجہ سے حضور کا نکاح پڑھاے اور حضور اُس سے نہ کبھی لاتعلقی اختیار کریں تو وہ ذاتِ ابو طالب اللہ کی نظر میں مُومن، متّقی اور صادق انسان کی مظھر ہے نا کہ کافر یا مشرک ! پس حضرت مُحَمَّد (ﷺ) کے آباواجداد متّقی اور مومنین تھے- نیز سورہ یٰس آیت-4 میں ارشاد ہوا، ”میرے حبیب تم صراطِ مستَقیم پر ہو، لِہٰذا وہ ہستیاں جو اِس نور ِنبوت کی حفاظت اور مدد ساری عمر کرتی رہیں وہ بھی صراط ِمستقیم پرتھی نہ کہ گمراہوں کے راستے پر- اللہ نے اِیسی ہستیوں کے لیۓ سورہ اَلحمد آیت-7 میں انعام و اکرام کا وعدہ کیا- وہ ہستیاں جو اللہ کی نظر میں مومن، صادق اور متّقی ہو اُسے کافر یا مشرک کہنا ظلم ِ اکبر ہو گا اور اللہ ظالموں سے بیزار ہے (سورة شورا آیت-40)-.
@Abu-zayim9 ай бұрын
Bath karne ka tareeqa sahi nie hai hasan Allahyari ka caller is very positive you should talk in decent way please.
@ahsanmushtaq72859 ай бұрын
Shion ki motbar aur mustanad kitab JiLA ul Oyoon men Hazrat Ali R z ki shadi ki pehli Raat ki manzar Kashi Tehreer ki gai hey Jo ke sara sar Toheen hey shia Aaj Tak challange ke bavujud bhi is gustakhi ka Jawab nahi de sakey khuda Ra in khurafat in khurafat ko parhen Aap ke Paun taley se Zameen Nikal Jaey gi Aur Aap kano ko Hath Lagaen gey
@sajidabbas85939 ай бұрын
بلکل اسی لئے تو روزانہ عقلمند سنی تمھارے مذہب پر تھوک کر شیعہ ہو رہے ہیں