Like 💚 Share 💜 Subscribe 💙 Don't forget to press the 🔔 icon 💓 Thank You....
@arifbillah9724 Жыл бұрын
جزاك الله خيرا معلومات مفيدة
@muhammadasaad2681 Жыл бұрын
بہت خوب
@abduljabbarabbasi22214 ай бұрын
Nice video sir ♥️
@syedhassanrazanaqvi67672 жыл бұрын
جزاك الله
@RushdhAcademy2 жыл бұрын
Thank you for your Feedback 💙
@kumailali34872 жыл бұрын
Jazakallah 😍❤
@RushdhAcademy2 жыл бұрын
Thank you for your Feedback 💙
@bksays2 жыл бұрын
Keep bringing the great content ❤️
@RushdhAcademy2 жыл бұрын
Thank you for your Feedback 💙
@zahmedbagwan6 ай бұрын
Behtareen series , plz upload in details video ...specially details on teaching of mullah sadra
@RushdhAcademy5 ай бұрын
Sure we will try our best. Thank you for your precious comment.
@dastango16493 ай бұрын
غزالی پر مزید ویڈیوز بنائیں۔ اس کے فلسفے کو مزید گہرائی سے پیش کریں۔ علت و معلول کے بارے اس کے نظریات کیسے تھے۔
@MaqsadeZainab72142 жыл бұрын
Assalamu alaikum ArjuqomAllah
@RushdhAcademy2 жыл бұрын
Thank you for your Feedback 💙
@ShahidAhmad-ty1ls7 ай бұрын
کان الله ولم یکن معہ شئا
@RushdhAcademy7 ай бұрын
الآن كما كان. ثانيا: خدا کے لیے جب کان کہا جائے وہ زمانی نہیں ہے۔ خدا کے لیے زمان و مکان متصور نہیں۔
@sonusukkur9982 жыл бұрын
خدا قدیم ہے اور خدا کی صفات بھی قدیم ہوئیں خدا کی صفات کا خدا سے علیحدہ تو کوئی وجود نہیں ہے جو ایک خدا اور سات اس کی صفات ملا کی آٹھ خدا شمار کئے جائیں، یہ کیسی ڈلیل دے رہے ہیں، خدا کی ذات کے لئے کوئی مثال نہیں دی جاسکتی کیونکہ کوئی شئ اس کی مثل نہیں، لیکن اپنی بات کہنے کے لئے عرض کر رہا ہوں جیسے پھول ایک چیز ہے اور خوشبو اسی کی صفت ہے اب خوشبو بذات خود پھول نہیں ہے لیکن پھول سے جدا بھی نہیں ہے۔ اسی طرح خدا کی ذات کی جو صفات ہیں وہ اس کے وجود سے جدا بھی نہیں ہے ہیں اور نہ عین ذات ذات ہے۔ ویسے یہ مسائل بڑے پیچیدہ ہیں عام عقول ان کو سمجھنے سے عاجز ہوتی ہیں اور ہم جیسے کمزور لوگوں کا تو شمار ہی نہیں اس کھاتے میں۔
@RushdhAcademy2 жыл бұрын
جی یہی عرض کر رہا ہوں۔ ہمارے نزدیک خدا کی صفات، عینِ ذات ہے۔ یعنی اس کی ذات اور صفت کو الگ الگ تصور نہیں کر سکتے۔ اس حوالے سے مکتبِ اشعری کا نظریہ یہ ہے کہ صفات ذات سے زائد اور ذات کے علاوہ ہیں۔ امام غزالی کا تعلق بھی اسی مکبتہ فکر سے تھا۔ اس لیے عرض کر رہا ہوں امام غزالی کے نظریہ کے مطابق اگر کسی چیز کا قدیم ہونا ہی خدا کے ساتھ شریک ہونے کے برابر ہے تو ان کے مطابق خدا کی صفات کو بھی خدا کا شریک بننا چاہیے۔۔ اس طرح سے ایک کی بجائے آٹھ خدا بن جائیں گے۔ ایک خدا کی ذات اور سات اس کی ذاتی صفات۔ اس اشکال سے بچنے کا ایک راستہ یہی ہے کہ کہا جائے اس کی صفات عینِ ذات ہے۔ آپ کی توجہ کا شکریہ۔
@ArshadFerozi-wn3mh7 ай бұрын
خدا کی صفات نہ عین ذات ہیں نہ اس کا غیر۔ آپ نے لکھا ہے خدا کی صفات عین ذات ہیں تو پھر آپ کو خدا کی صفات بھی نہیں لکھنا چاہیے آپ کے نزدیک وہ صفات کے بغیر ہے۔کیا صفات کا کوئی الگ وجود ہے۔
@jamshedkhushk42612 ай бұрын
خدا کی ذات اور صفات دونوں قدیم ہیں ۔ ذات و صفات نہ عین ہیں اور نہ دوسرے کا غیر ۔ کیا یہ درست ہے @@RushdhAcademy
@hydersiddiqui9532 жыл бұрын
جناب امکانیت قدامت کے منافی ہے تو یہ کہنا کس طرح درست ہوسکتا ہے کہ زمانہ کے اعتبار سے قدیم اور ذات کے اعتبار سے حادث، حالانکہ ذات زمان کا حدوث ذات کے حدوث کو مستلزم ہے!!
@RushdhAcademy2 жыл бұрын
حدوث زمانی کا لازمہ حدوث ذاتی ہرگز نہیں۔ یعنی ممکن ہے ایک چیز ذاتا حادث ہو لیکن زمانے کے لحاظ سے قدیم ہو۔ ہم ایسی بہت ساری چیزوں کے قائل ہیں جن کا کوئی زمان ہی نہیں ہے۔ یعنی وہ ماورائے زمان ہے۔۔۔ ایسے میں یہ چیزیں زمانی لحاظ سے نہ قدیم ہے نہ حادث چونکہ ان میں زمان کی بحث ہی نہیں ہے۔ ہاں ذاتی طور پر حادث ہے چونکہ علت کی محتاج ہیں۔
@hydersiddiqui9532 жыл бұрын
قدم وصف مخلوق ہے یا وصف خالق؟ اپ سے عرض ہے تجرید الاعتقاد مع شرح الحلی پھر پڑھ لیں۔
@hydersiddiqui9532 жыл бұрын
@@RushdhAcademy نیز آپ اس عدم تلازم پر باب طبعیات میں رہتے ہوئے برہان پیش فرمائیں،باب الھیات تو ماروائے زمان ہی ہے لیکن اس کی ماورائیت مبحوث نہیں، مبحوث تو اجتماع قدم و حدوث مصداق واحد میں ہے،
@RushdhAcademy2 жыл бұрын
@@hydersiddiqui953 محترم قدم کی دو قسمیں ہیں: قدم ذاتی اور قدم زمانی قدم ذاتی صرف خدا کی ذات ہے جبکہ قدم زمانی مخلوق بھی ہو سکتی ہے۔
@hydersiddiqui9532 жыл бұрын
پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ قدم ممکن میں بھی ہوسکتا ہے كما قلت انفا، اور واجب میں بھی كما هو المبرهن، یعنی قدم ایک ایسا وصف ہوا جو واجب کیساتھ ممکن میں بھی اور ممکن کی اقسام جوہر اور عرض میں بھی پایا جاتا ہے حالانکہ یہ مطلب تو درست نہیں؛کیونکہ اس تقدیر پر تو اسے امور عامہ میں سے ہونا چاہئے حالانکہ یہ امور عامہ میں سے نہیں۔