جب حضرت جی مولانا انعام صاحب نے شورا بنائی تھی اور تقریباً 20 سال تک شعرائ نظام کے تحت کام چلتا رہا اس وقت۔ مولانا سعد صاحب نے کیوں قبول کیا اگر یہ غیر شرعی تھا اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ اس موجودہ تبلیغی جماعت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی جماعت سے جوڑ رھے ھیں اور جنگے احدکے امیر یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اس امیر کی تلنا کر رہے ہیں آپ سوچ بھی رہے ہیں میں کیا کہرھا ہوں یہ تبلیغی جماعت صرف 98 سال پرانی جماعت ھے 13 سو سال۔ تک پھر یہ جماعت کہاں رہی کبھی سوچا آپ نے میرے بھائی یہ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا نکالا ھوا ایک اصلاحی طریقہ ھے جس سے عوام کو فایدہ کافی فایدہ ھوا ھے اور کسی حد تک ابی بھی ھو رھا ھے اس نظام کو رسول اللہ کے نظام سےبعینہ جوڑنا اور اس نظام کے امیر کا مقام ومرتبہ وہی بتانا احمقانہ بات ہے آپ بہت سارے کام وہ نہیں کر رہے جو کام رسول اللہ کے زمانے میں ہوتے تھے
@Nadeem_Qasmi3 ай бұрын
اصل چیز خود اپنے اندر اور دوسروں میں دین کی فکر اور تڑپ پیدا کرنا اور خود بھی پورے دین پر سو فیصد عمل کی کوشش کرنا اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دینا ہے اور جماعت سے جڑے ہوئے بعض افراد کی کسی غلطی یا غلط فہمی کو پوری جماعت کی طرف منسوب کرنا صحیح نہیں ہے۔ اور اس ذمہ داری کو انجام دینے کے لیے زمانہ کے حالات اور تقاضوں کو مد نظر رکھ کر دعوت الی الخیر کی مروجہ جو ترتیب بزرگوں کی طرف سے بنائی گئی ہے وہ بھی اسی عمومی حکم میں داخل ہے، اس کے لیے باقاعدہ انہیں تفصیلات کے ساتھ خیر القرون سے ثابت ہونا ضروری نہیں ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ نفسِ تعلیمِ دین ضروری ہے، لیکن آج کل جس انداز میں مدارس قائم کرکے نصاب کی تعیین کی گئی ہے اور آٹھ سالہ درسِ نظامی کا کورس مقرر کیا گیا ہے، وہ بھی ان قیودات کے ساتھ خیر القرون سے ثابت نہیں، لیکن تجربہ سے مفید ثابت ہوا ہے اور اس کے ذریعہ سے سیکڑوں اور ہزاروں لوگوں نے علمِ دین میں مہارت حاصل کی ہے، بعینہٖ یہی حال جماعت دعوت وتبلیغ کے مقرر کردہ مروجہ نظام کا بھی ہے کہ امت میں دینی بیداری، دین کے لیے ایثار و قربانی اور بے طلب لوگوں کے اندر دین کی طلب و فکرِ آخرت پیدا کرنے کی غرض سے متعین ایام کے لیے نقل وحرکت (یعنی شبِ جمعہ، سہ روزہ، چلّہ، چار ماہ، ایک سال) کا مروجہ نظام بنایا گیا ہے جو یقیناً مذکورہ تفصیلات کے ساتھ اصطلاحاً فرض یا واجب نہیں ہے، لیکن تجربہ سے اس کا فائدہ مند ہونا اظہر من الشمس ہے، جس سے کوئی منصف مزاج شخص انکار نہیں کرسکتا۔