شاعر رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے قصیدہ کا اردو ترجمہ قصیدہ : " نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی یاد میں" طیبہ یعنی مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺ کی روشن نشانیاں ہیں جبکہ دوسری بہت سی نشانیاں مٹ چکی ہیں لیکن آپ ﷺ کے مقام محترم کی نشانیاں باقی ہیں یہاں آپ ﷺ کا منبر مبارک ہے جس پر آپ چڑھا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کی باقی نشانیوں میں سے آپ ﷺ کی جائے نماز اور آپ کی مسجد بھی ہے۔ یہاں مدینہ میں آپ ﷺ کے حجرے بھی ہیں جہاں اللہ تعالی کی طرف سے روشن نور نازل ہوتا اور ہدایت کی کرنیں پھوٹا کرتی تھیں۔ یہ ایسی نشانیاں ہیں جنہیں زمانے کا گزرنا پرانا نہیں کرسکتا اگر یہ بوسیدہ ہونے لگیں بھی تو یہ نشانیاں پھر سے جدید ہو جاتی ہیں۔ مدینہ میں رسول اللہ ﷺ کے نشانات اور علامتیں ہیں اور یہیں آپ ﷺ کی قبر مبارک ہے جس نے مٹی میں آپ ﷺ کے جسم مبارک کو چھایا ہوا ہے۔ مدینہ میں آپ ﷺ کی یاد میں میں رونے لگا تو میری آنکھوں اور پلکوں نے رونے میں میری خوب مدد کی یعنی خود بخود میری آنکھوں سے آنسو بہتے جاتے تھے اس کے لئے مجھے تکلف نہ کرنا پڑتا تھا۔ میری آنکھیں نبی ﷺ کی نعمتوں کو یاد کر کے روتی ہیں اور مجھے نبی ﷺ کے وہ احسانات یاد آتے ہیں جو مجھ پر ہوۓ تھے یہ سوچ کر میرا دل بے چین اور غمگین ہو جاتا ہے۔ میر ا دل اس غم کی وجہ سے بے قرار ہے اور احمد ﷺ نام کی جدائی نے اسے کمزور کر دیا ہے اور وہ نبی ﷺ کی نعمتوں کو شمار کرنے لگا ہے۔ میر ا دل نبی ﷺ کی کسی نعمت کے عشر عشیر کو بھی نہیں سوچ پایا اور اس نے ان کی صفات میں صرف چند ایک کو بیان کیا ہے۔ میی کافی دیر سے نبی ﷺ کے روضہ پر کھڑا ہوں اور میری آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں۔ اے رسول اللہ ﷺ کی قبر ! تو بھی بابرکت ہے اور وہ شہربھی بابرکت ہے جس میں رشد وہدایت کے ماہتاب نے قیام کیا ہے، اس قبر کی لحد بھی بابرکت ہے جس میں ایک پاکیزہ ہستی کو سپردخاک کیا گیا ہے اور اس پر چوڑے پتھروں کی سلیں رکھی گئی ہیں۔ جس وقت ہاتھ اور آنکھیں ان پر مٹی ڈال رہے تھے تو درحقیقت لوگ سعادت کے ستارے کومٹی میں دفنارہے تھے۔ "جس دن آپ ﷺ کا وفات ہوئی اس دن لوگ پیکر حلم مجسمہ علم اور سراپائے رحمت سے محروم ہو گئے ۔ اب ان کی زندگی غم والم کا نشان ہے، ان کے نبی ﷺ ان میں نہیں رہے اور اس غم کی وجہ سے ان کی کمریں جھک گئی ہیں اور اوسان خطا ہو گئے ہیں۔ وہ ایک ایسی ہستی کی یاد میں رو رہے ہیں جن پر آسمان اور زمین نے بھی گر یہ کیا ہے اور سارے انسان بے قراری اور بے چینی کی حالت میں پڑے ہیں۔ کیا کسی دن ہلاک ہونے والے کا غم اس دن کے غم کے برابر ہوسکتا ہے جس دن حضرت محمد ﷺ کا وفات ہوئی؟ آج لوگوں سے وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا، اور ایک ایسی ہستی جدا ہوگئی جن کا نور زمین کے ہر حصہ تک پہنچچ کر رہے گا‘‘ " جو شخص بھی نبیﷺ کی اقتداء کرتا ہے آپ ﷺ اسے اللہ کا راستہ دکھاتے ہیں، اس رسوائی کی مصیبت سے نجات دلواتے اور اس کی صحیح راہ نمائی فرماتے ہیں۔ آپ ﷺ لوگوں کے امام ہیں جو پوری کوشش کر کے انہیں حق کا راستہ دکھاتے اور انہیں سچی بات کی تلقین کرتے ہیں۔ اگر لوگ آپ کی اطاعت کرتے تو کامیاب ہو جاتے۔ آپ ﷺ اپنے ساتھیوں کی لغزشوں کو معاف فرمانے والے اور ان کے عذر کو قبول کرنے والے ہیں اور اگر وہ اچھا کام کریں تو الله تعالی بہترین اجر عطا کرنے والا ہے۔ اگر کوئی اچانک اور انوکھی مصیبت آن پڑتی تو آپ ﷺ اس کو آسان فرمادیتے‘‘ آپ ﷺ اللہ تعالی کی ایسی نعمت اور نشانی تھے کہ آپ ﷺ کے ذریعہ سیدھے راستے کو حاصل کیا جاسکتا تھا، یہ بات آپ پر بہت شاق گزرتی تھی کہ لوگ ہدایت کے راستے سے ہٹ جائیں اور آپ ﷺ کو اس بات کی حرص تھی کہ لوگ سیدھے اور ہدایت والے راستے پر آجائیں، آپ ﷺ لوگوں پر مہربان تھے اور اپنی رحمت کے بازو کو ہر کسی پر پھیلائے رکھتے تھے لوگوں کے ساتھ نرمی کرتے اور مہربانی والا معاملہ فرمایا کرتے تھے۔ لوگوں کے درمیان یہ نور یعنی حضرت محمد ﷺ موجود تھے کہ اچانک موت نے اس نور کو ان سے جدا کر دیا۔ آپ ﷺ قابل تعریف حالت میں اپنے رب کی طرف تو لوٹ گئے لیکن ان کی وفات کے غم میں انسان تو انسان فرشتوں کے اشک بھی بہہ رہے ہیں اور ان کی زبان بھی آپ ﷺ کی تعریف کرتے نہیں تھکتی۔ جو و حی بلاد حرم میں اترا کرتی تھی اس کے انقطاع پر یہ علاقے ویران ہوگئے اور یہاں کی رونقیں اجڑ گئی ہیں۔ البتہ وہ لحداب بھی بارونق ہے جس میں نبی ﷺ کا جسد مبارک موجود ہے، آپ ﷺ کی یاد میں مقام بلاط بقيع الغرقد اور آپ ﷺ کی مسجد بھی گریہ میں ہے اور یہ تمام جگہیں جہاں آپ ﷺ کی نشست و برخاست تھی آج اجنبی اور وحشت ناک محسوس ہورہی ہیں۔ اسی طرح جمرہ کبری بھی ویران ہوا پڑا ہے اور اس کے آس پاس کے تمام علاقے ، مکانات، باغات اور زمینیں بے بسی اورغم کا نشان بنی ہوئی ہیں۔ اے آنکھ! رسول اللہ ﷺ پر خوب آنسو بہا ، میں کبھی تیری آنکھوں کو خشک نہ دیکھوں، تجھے کیا ہوا تو روتی کیوں نہیں حالانکہ نعمتوں کا فیضان برسانے والی ہستی دنیا سے اٹھ گئی جس کی نعمتیں لوگوں پر پوری طرح چھائی ہوئی ہیں۔ اے آنکھ اس ذات پرخوب آنسو بہا اور دل کھول کے رو جس کی مثل زمانے میں موجود نہیں، گذشتہ زمانے میں لوگ محمد ﷺ جیسی کسی ہستی سے محروم نہیں ہوئے اور نہ قیامت تک کسی ایسی ذات سے محروم ہو سکتے ہیں۔ " آپ ﷺ عفيف ترین ہستی کے مالک ہر وعدہ کو پورا کرنے والے ہیں، زمانہ میں آپ ﷺ سے بڑھ کر کوئی ایسا سخی نہیں جو عطا بھی کرے اور احسان بھی نہ جتلائے۔ جب بڑے بڑے سخی بخل پر مجبور ہوجائیں تو لوگوں نے آپ ﷺ سے بڑھ کر عطا کرنے والا نہیں دیکھا۔ سب گھرانوں میں آپ کا گھرانہ زیادہ عزت والا ہے اور آپ کے دادا بھی لوگوں میں سب سے بڑے سردار ہیں۔ آپ ﷺ عزت کی چوٹیوں پر پہنچنے والے اور بلندی کے بلند و بالا پہاڑوں پر ثابت قدم ہونے والے ہیں، آپ ﷺ کا خاندان اپنی بنیاد اور شاخوں کے اعتبار سے سب سے اعلی اور ارفع ہے اور زمانے میں اس کی کوئی نظیر موجود نہیں‘‘ حضرت محمد ﷺ کی تربیت بچپن ہی سے ان کے عظمت والے رب نے کی ہے اورانہیں مکمل طور پرکامل بشر کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ مسلمانوں کو ان کی طرف سے ایسا علم حاصل ہوا جس میں نہ کج روی ہے اور نہ جھوٹ کی آمیزش ہے“ "میں نے آپ ﷺ کی شان میں جو باتیں کی ہیں ان کی مخالفت کوئی بیوقوف اور نادان شخص ہی کر سکتا ہے۔ میں ان کی تعریف میں جاری گفتگو کو ختم نہیں کرنا چاہتا، ہوسکتا ہے کہ اسی کی برکت سے مجھے جنت میں ہمیشہ کا قیام نصیب ہو جائے اور میں اس تعریف کے ذریعے جنت میں آپ ﷺ کی معیت کا خواہش مند ہوں اور میں آج اس کے حصول کی کوشش کر رہا ہوں اور اس کا متمنی ہوں‘‘۔