ہمارے ماموں کو۔۔۔ عمرِ عزیز کے بیالیسویں برس نہ جانے کیا سوجھی کہ شادی کی حامی بھر بیٹھے۔ ماموں کی شادی تھی۔ سو ہم، ٹو پیس زیبِ تن کیے، ساتھ والے گاؤں، مبینہ ممانی کے ہاں، ہمرہِ بارات پہنچے۔ اتفاقاً ۔۔۔ للہ ۔۔۔اتفاقاً۔۔۔ہم سب سے آگے تھے۔ استقبال کرنے والے بزرگوں نے ہمیں ہار پہنائے۔ پہن لیے۔ کسی نے پھبتی کسی۔۔۔ ارے میاں۔۔۔سہرا کیوں نہ باندھا۔۔۔ اتفاقاً ۔۔۔یقین کیجیے ۔۔۔اتفاقاً، ہماری زبان سے نکلا، سہرا تو ہمارے ماموں نے باندھا ہے، وہ دیکھیے۔ وہ۔۔۔وہ جو سب سے آخر میں چلے آرہے ہیں۔ لاحول ولاقوة ۔۔۔ تو کیا آپ دولہا میاں نہیں ہیں؟ ہم نے کہا، ہرگز نہیں۔