وہ عکسِ موجہ ءِ گل تھا، چمن چمن میں رہا وہ رنگ رنگ میں اُترا- کرن کرن میں رہا وہ نام حاصلِ فن ہوکے میرے فن میں رہا کہ رُوح بن کے مری سوچ کے بدن میں رہا سکونِ دل کے لیے میں کہاں کہاں نہ گئی مگر یہ دل- کہ سدا اُس کی انجمن میں رہا وہ شہر والوں کے -آگے کہیں مہذب تھا وہ ایک شخص جو شہروں سے دُور بَن میں رہا چراغ بجھتے رہے اور خواب جلتے رہے عجیب طرز کا موسم مرے وطن میں رہا پروین شاکر
@Bazmerekhtaa2 ай бұрын
کیا بات ہے! 🔥
@waseemhayder14022 ай бұрын
@@Bazmerekhtaa 💐💐
@waseemhayder14022 ай бұрын
کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی اُن نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی کیسے کہہ دوں کہ مُجھے چھوڑ دیا اُس نے بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی وہ کہیں بھی گیا، لَوٹا تو مرے پاس آیا بس یہی بات اچھی مرے ہرجائی کی تیرا پہلو، ترے دل کی طرح آباد ہے تجھ پہ گُزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی اُس نے جلتی ہُوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا رُوح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے جاگ اُٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
@Bazmerekhtaa2 ай бұрын
پہچان ❤️
@khurshidasad93092 ай бұрын
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے یہ عقل و دل ہیں شرر شعلۂ محبت کے وہ خار و خس کے لیے ہے یہ نیستاں کے لیے مقام پرورش آہ و نالہ ہے یہ چمن نہ سیر گل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک ترا سفینہ کہ ہے بحر بیکراں کے لیے نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے ذرا سی بات تھی اندیشۂ عجم نے اسے بڑھا دیا ہے فقط زیب داستاں کے لیے مرے گلو میں ہے اک نغمہ جبرائیل آشوب سنبھال کر جسے رکھا ہے لا مکاں کے لیے
@Bazmerekhtaa2 ай бұрын
خوبم 🔥
@waseemhayder140227 күн бұрын
ڈسنے لگے ہیں خواب مگر کِس سے بولیے میں جانتی تھی، پال رہی ہوں سنپولیے بس یہ ہُوا کہ اُس نے تکلّف سے بات کی اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لیے پلکوں پہ کچی نیندوں کا رَس پھیلتا ہو جب ایسے میں آنکھ دُھوپ کے رُخ کیسے کھولیے تیری برہنہ پائی کے دُکھ بانٹتے ہُوئے ہم نے خُود اپنے پاؤں میں کانٹے چبھو لیے میں تیرا نام لے کے تذبذب میں پڑ گئی سب لوگ اپنے اپنے عزیزوں کو رو لیے! ’’خوشبو کہیں نہ جائے‘‘ یہ اصرار ہے بہت اور یہ بھی آرزو کہ ذرا زُلف کھولیے تصویر جب نئی ہے ، نیا کینوس بھی ہے پھر طشتری میں رنگ پُرانے نہ گھولیے پروین شاکر