نہیں ہوتی گنہگاروں پہ رحمت، ہو بھی سکتی ہے محبت ہو علی سے تو شفاعت ہو بھی سکتی ہے خداوندا! تیرا بندہ تیرا بندہ نصیری کا خدا کیوں ہے ندا آئی کہ یہ میری مشیعت ہو بھی سکتی ہے میری منزل تو ہے دیوانگی کی حد سے بھی آگے یہی منزل نصیری کی علامت ہو بھی سکتی ہے علی کا نام تو مشکل میں لے کر پھر نہیں لیتا یہ عادت تیری دوزخ کی بشارت ہو بھی سکتی ہے بشر میں کب یہ طاقت ہے کہ وہ سورج کو لَوٹا دے مگر یا رب! تیرے حیدر میں طاقت ہو بھی سکتی ہے نہیں ہوں عابد و زاہد مگر ذاکر ہوں مولا کا علی کے ذکر سے میری طہارت ہو بھی سکتی ہے نہیں کرتے کسی پر بھی تبّرا ہم نہیں کرتے جو دشمن ہوں علی کے ان پہ لعنت ہو بھی سکتی ہے نبی کو چھوڑ کر بھاگے ہیں، ناممکن ہے ناممکن ہے ممکن یہ پرانی ان کی عادت ہو بھی سکتی ہے نبی تنہا صدا دیتے رہے مفرور نہ لَوٹے نبی سے ان کو درپردہ عداوت ہو بھی سکتی ہے نبی کے منہ چھپاتے کھلے عقدے محبت کے نہ تھی امید امت بےمروت ہو بھی سکتی ہے تصور میں نہیں آتا کچہری ختم ہونے تک کچہری میں کھڑی خاتونِ جنت ہو بھی سکتی ہے برہنہ سر پھرے گی عترتِ احمد خبر کیا تھی کبھی آلِ محمد کی یہ حالت ہو بھی سکتی ہے التماسِ سورۂ فاتحہ برائے پیارے خان