Very nice very beautiful very very smart good luck
@faizankhokhar61945 жыл бұрын
Ham nay to modi ki jeet pay shaheen2 chala k celebrate kiya hai 😁😁😁
@MohdAnas-gu4zf5 жыл бұрын
I love your voice dear
@welcomepasha21835 жыл бұрын
Iram you locking beautiful
@irnews40195 жыл бұрын
Iram abbasi voice is so nice and cute
@mshahzadmalikmshahzadmalik26025 жыл бұрын
😢
@musakhanmaseed33235 жыл бұрын
Erum is Erum
@malikkashif74475 жыл бұрын
Pakistan NY hamasha Amun Ka rasta chuna lakin Alme satablishmint NY hamasha dehshut gurdee ko saport kia UB dakhtay hain modi Kashmir ky isho py maz py bathta hy ya phir vo he dehshut gurdana iqdamat kr k rahay farar ikhtear krta hy
@Manzoor_705 жыл бұрын
حکمت کا سر چشمہ قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَاتَّقُوا اللَّہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللَّہُ وَاللَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ (2:282)۔ یعنی اور اللہ سے ڈرو، اللہ تم کو سکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ تقویٰ علم یعنی حکمت کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے۔ ایسا کیوں کر ہوتا ہے۔ اس کی حقیقت ایک حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا: رَأسُ الحِکمَة مَخافَةُ اللَّہِ عز وجل (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 730) ۔ یعنی حکمت کا سرا ، اللہ کا خوف ہے۔ خوف خدا کیا ہے! خوف خدا در اصل یہ ہے کہ آدمی کو اللہ رب العالمین کی دریافت اس طرح ہوجائے کہ اس کو برابر خدا کی موجودگی (presence of God) کا تجربہ ہونے لگے۔ جس آدمی کو اپنی زندگی میں اس طرح کا زندہ تجربہ ہونے لگے، وہ مسلسل طور پر اس احساس میں جینے لگتا ہے کہ خدا اس سے پوری طرح باخبر ہے، اور وہ انسان کے تمام قول و فعل کا حساب لے گا۔ جو آدمی اس طرح موجودگی ٔرب کے احساس میں جینے لگے، اس کے لیے یہ ناممکن ہوجاتاہے کہ وہ اپنی زندگی کے معاملات میں بے خوفی کی زندگی گزارے۔ وہ ہر قول اور فعل سے پہلے ہمیشہ یہ سوچے گا کہ کیا میں اللہ رب العالمین کے سامنے اپنے اس قول و فعل کے لیے مبرر (justification) دے پاؤں گا۔ کیا اللہ اپنے علم کی روشنی میں مجھ کو درست قرار دے گا، یا ایسا ہوگا کہ اللہ مجھ کو پوچھے گا کہ تم نے ایسا کیوں کہا ، تم ایسا کیوں بولے، تم نے ایسا فعل کیوں انجام دیا، وغیرہ۔ یہ احساس آدمی کو خود اپنے اوپر نگراں بنا دے گا۔دوسرے خواہ اس سے پوچھیں یا نہ پوچھیں، وہ خود اپنے آپ سے پوچھے گا کہ تم نے ایساکیوں کہا، تم نے ایسا کیوں کیا۔ جب آدمی کے اندر ایسی حساسیت جاگ اٹھے تو اس کے اندر خود بخود موضوعی سوچ (objective thinking) پیداہوجاتی ہے، وہ وہی بولتا ہے، جو اس کو بولنا چاہیے، وہ وہی کرتا ہے، جو اس کو کرنا چاہیے۔ SOCIAL/POLITICAL SYSTEMS VIS-A-VIS ISLAM (English 6 mnts) ia800305.us.archive.org/31/items/maulana-wahiduddin-khan-January-22-2014/System-based-Ideology.mp3