Пікірлер
@GUMQAFLA
@GUMQAFLA Күн бұрын
01 Сура Аль-Ахзаб, Сура № 33, всего аятов 73, Время Откровения, В Медине Стихи с 69 по 73. {وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ﴿۷۱﴾} «А кто посвятил себя повиновению Аллаху и Его Посланнику, тот достиг большого успеха».Здесь критерием успеха было объяснено, что успех верующих заключается в повиновении Аллаху и Посланнику. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ {وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ﴿۷۱﴾} «А кто посвятил себя повиновению Аллаху и Его Посланнику, тот достиг большого успеха».Здесь критерием успеха было объяснено, что успех верующих заключается в повиновении Аллаху и Посланнику.Эти два аята этой суры (стихи 70 и 71) читались Святым Пророком (мир ему и благословение Аллаха) людям во время свадебной проповеди. Кроме того, знайте, что помимо этих двух аятов в Хутба Никях также включены следующие аяты: {یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا ﴿۱﴾} (النسائ)۔ {یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾} (Аал Имран) Сердцевиной четырех стихов, упомянутых в проповеди, является «Таква». Стих 72{اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ } «Мы подарили это доверие и на небесах, и на земле, и на горах» {فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا } «Поэтому они все отказались нести его и боялись его». {وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا ﴿ۙ۷۲﴾} И мужчина взял его.Действительно, он был очень жестоким и очень невежественным. То есть человек нанес себе вред, взяв на себя тяжелую ответственность, и проявил большое невежество. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ {وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ﴿۷۱﴾} ’’اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت پر کاربند ہوگیا تواس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی۔‘‘ یہاں کامیابی کا معیار بیان کر دیا گیا کہ اہل ایمان کی کامیابی اللہ اور رسولؐ کی اطاعت میں ہے۔ اس سورت کی یہ دو آیات (آیت ۷۰ اور ۷۱) حضورﷺ خطبہ نکاح میں تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ یہاں ضمنی طور پر یہ بھی جان لیں کہ ان دو آیات کے علاوہ مندرجہ ذیل آیات بھی خطبہ نکاح میں شامل ہیں: {یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا ﴿۱﴾} (النسائ)۔ {یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾} (آل عمران) --- خطبہ ٔنکاح میں مذکورہ چار آیات کا ُلب ّلباب ’’تقویٰ ‘‘ہے۔ آیت ۷۲ {اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ } ’’ہم نے اس امانت کو پیش کیا آسمانوں پراور زمین پر اور پہاڑوں پر‘‘ {فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا } ’’تو ان سب نے انکار کر دیا اس کو اٹھانے سے اور وہ اس سے ڈر گئے ‘‘
@GUMQAFLA
@GUMQAFLA Күн бұрын
02 Сура Аль-Ахзаб, Сура № 33, всего аятов 73, Время Откровения, В Медине Стихи с 69 по 73. {وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ﴿۷۱﴾} «А кто посвятил себя повиновению Аллаху и Его Посланнику, тот достиг большого успеха».Здесь критерием успеха было объяснено, что успех верующих заключается в повиновении Аллаху и Посланнику. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ {وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا ﴿ۙ۷۲﴾} ’’اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔ یقینا وہ بڑا ظالم اور بڑا نادان تھا۔‘‘ یعنی انسان نے ایک بھاری ذمہ داری قبول کر کے اپنے اوپر ظلم کیا اور بڑی نادانی کا ثبوت دیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آیات ۶۹تا ۷۳ {یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اٰذَوۡا مُوۡسٰی فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوۡا ؕ وَ کَانَ عِنۡدَ اللّٰہِ وَجِیۡہًا ﴿ؕ۶۹﴾یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ﴿ۙ۷۰﴾یُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ﴿۷۱﴾اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا ﴿ۙ۷۲﴾لِّیُعَذِّبَ اللّٰہُ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ وَ الۡمُشۡرِکٰتِ وَ یَتُوۡبَ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿٪۷۳﴾} آیت ۶۹ {یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اٰذَوۡا مُوۡسٰی } ’’اے اہل ِایمان! تم اُن لوگوں کی مانند نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰؑ کو اذیت دی تھی‘‘ {فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوۡا ؕ وَ کَانَ عِنۡدَ اللّٰہِ وَجِیۡہًا ﴿ؕ۶۹﴾} ’’تو اللہ نے اُس کو بری ثابت کر دیا اس بات سے جو انہوں نے کہی تھی ‘اور وہ اللہ کے نزدیک بڑے مرتبے والا تھا۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قوم بنی اسرائیل کی طرف سے کئی طرح کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ سورۃ الصف میں آپؑ کے وہ الفاظ نقل ہوئے ہیں جو آپؑ نے اپنی قوم کے طرزِعمل پر شکوہ کرتے ہوئے فرمائے تھے: {یٰقَوۡمِ لِمَ تُؤۡذُوۡنَنِیۡ وَ قَدۡ تَّعۡلَمُوۡنَ اَنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ ؕ} (آیت۵) ’’ اے میری قوم! تم مجھے کیوں اذیت دیتے ہو درانحالیکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں! ‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قوم کی طرف سے سب سے بڑی اذیت کا سامنا اُس وقت کرنا پڑا جب آپؑ نے قوم کو اللہ کے راستے میں قتال کرنے کا حکم دیا تو سوائے دو اشخاص کے پوری قوم نے انکار کر دیا۔ قوم کے اس طرز عمل پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو کوفت اور اذیت محسوس کی اس کا اندازہ اس دعا سے کیا جا سکتا ہے جو آپؑ نے اس موقع پر اللہ تعالیٰ سے کی : {قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ لَاۤ اَمۡلِکُ اِلَّا نَفۡسِیۡ وَ اَخِیۡ فَافۡرُقۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۲۵﴾} (المائدۃ) ’’ انہوںؑ نے عرض کیا : اے میرے پروردگار! مجھے تو اختیار نہیں ہے سوائے اپنی جان کے اور اپنے بھائی (ہارونؑ کی جان) کے‘تو اب تفریق کردے ہمارے اوران ناہنجار لوگوں کے درمیان ۔‘‘
@GUMQAFLA
@GUMQAFLA Күн бұрын
03 Сура Аль-Ахзаб, Сура № 33, всего аятов 73, Время Откровения, В Медине Стихи с 69 по 73. {وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ﴿۷۱﴾} «А кто посвятил себя повиновению Аллаху и Его Посланнику, тот достиг большого успеха».Здесь критерием успеха было объяснено, что успех верующих заключается в повиновении Аллаху и Посланнику. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ آپؑ پر ذاتی نوعیت کا ایک الزام لگا کر بھی آپؑ کو سخت اذیت پہنچائی گئی۔ اس حوالے سے احادیث میں ایک واقعہ بہت تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ اس واقعہ کا ُلب ّلباب یہ ہے کہ اس زمانے میں عام طور پر مرداپنے ستر کو چھپانے کا خاص اہتمام نہیں کرتے تھے اور سر ِعام برہنہ نہانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ اس کے برعکس حضرت موسیٰ علیہ السلام اس بارے میں غیر معمولی طور پر احتیاط سے کام لیتے تھے۔ اس پر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ آپؑ جسمانی طور پر کسی عیب یا مرض میں مبتلا ہیں جس کو چھپانے کے لیے آپؑ اس قدر شرم و حیا کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے ایک خاص ترکیب کے ذریعے لوگوں پر واضح کر دیا کہ ان کا یہ الزام جھوٹا اور بے بنیاد تھا۔ سورۃ النور میں ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر منافقین کی طرف سے بہتان تراشی کا وہ واقعہ بھی پڑھ چکے ہیں جو حضورﷺ کے لیے سخت اذیت کا باعث بنا تھا۔ چنانچہ یہاں تمام افرادِ اُمت کو خبردار کیا جارہا ہے کہ دیکھو! تم بھی کہیں بنی اسرائیل کے ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو اپنے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مختلف طریقوں سے تنگ کیا کرتے تھے۔ تمہارا کوئی عمل یا قول ایسا نہیں ہونا چاہیے جس کی وجہ سے رسول اللہﷺ کو تکلیف پہنچے۔ آ یت ۷۰ {یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ﴿ۙ۷۰﴾} ’’اے اہل ِایمان !اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور بات کیا کرو سیدھی۔‘‘ چونکہ اس سے پہلے کی آیات میں عام گھریلو زندگی کے معاملات سے متعلق ہدایات دی گئی ہیں‘ چنانچہ اس سیاق و سباق میں اس حکم کا مفہوم یہ ہوگا کہ اپنے گھریلومعاملات میں بھی تم لوگ تقویٰ کی روش اپنائے رکھو اور اپنی زبان کے استعمال میں محتاط رہو۔ یعنی اپنے اہل و عیال کے ساتھ گفتگو میں بھی راست گوئی اور راست بازی کا خیال رکھو۔ آیت ۷۱ {یُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ } ’’اللہ تمہارے سارے اعمال درست کردے گا اور تمہاری خطائیں بخش دے گا۔‘‘ اگر بھول کر یا جذبات کی رو میں تم سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی تو اللہ اسے معاف کر دے گا۔ {وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ﴿۷۱﴾} ’’اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت پر کاربند ہوگیا تواس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی۔‘‘
@GUMQAFLA
@GUMQAFLA Күн бұрын
04 Сура Аль-Ахзаб, Сура № 33, всего аятов 73, Время Откровения, В Медине Стихи с 69 по 73. {وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ﴿۷۱﴾} «А кто посвятил себя повиновению Аллаху и Его Посланнику, тот достиг большого успеха».Здесь критерием успеха было объяснено, что успех верующих заключается в повиновении Аллаху и Посланнику. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں کامیابی کا معیار بیان کر دیا گیا کہ اہل ایمان کی کامیابی اللہ اور رسولؐ کی اطاعت میں ہے۔ اس سورت کی یہ دو آیات (آیت ۷۰ اور ۷۱) حضورﷺ خطبہ نکاح میں تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ یہاں ضمنی طور پر یہ بھی جان لیں کہ ان دو آیات کے علاوہ مندرجہ ذیل آیات بھی خطبہ نکاح میں شامل ہیں: {یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا ﴿۱﴾} (النسائ)۔ {یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾} (آل عمران) --- خطبہ ٔنکاح میں مذکورہ چار آیات کا ُلب ّلباب ’’تقویٰ ‘‘ہے۔ آیت ۷۲ {اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ } ’’ہم نے اس امانت کو پیش کیا آسمانوں پراور زمین پر اور پہاڑوں پر‘‘ {فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا } ’’تو ان سب نے انکار کر دیا اس کو اٹھانے سے اور وہ اس سے ڈر گئے ‘‘ {وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا ﴿ۙ۷۲﴾} ’’اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔ یقینا وہ بڑا ظالم اور بڑا نادان تھا۔‘‘ یعنی انسان نے ایک بھاری ذمہ داری قبول کر کے اپنے اوپر ظلم کیا اور بڑی نادانی کا ثبوت دیا۔ مذکورہ امانت کے بارے میں بہت سی آراء ہیں اور ہر رائے کے بارے میں مفسرین نے اپنے اپنے دلائل بھی دیے ہیں۔ یہاں ان تمام آراء کا ذکر کرنا اور ایک ایک کے بارے میں دلائل کا جائزہ لینا تو ممکن نہیں ‘البتہ اس حوالے سے میں اپنی رائے بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس کے بارے میں مجھے پورا وثوق ہے۔ میرے نزدیک اللہ کی امانت سے مراد یہاں وہ ’’روح ‘‘ہے جو انسان کے حیوانی وجود میں اللہ تعالیٰ نے بطور خاص پھونک رکھی ہے۔ انسان کا مادی وجود عالم خلق کی چیز ہے‘جبکہ ’’روح‘‘ کا تعلق عالم ِامر سے ہے۔ (عالم خلق اور عالم امر کی وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو :سورۃ الاعراف ‘تشریح آیت ۵۴)۔ اللہ تعالیٰ نے عالم امر کی اس ’’امانت‘‘ کو عالم خلق کے مادی اور حیوانی وجود کے اندر رکھتے ہوئے اسے خاص اپنی طرف منسوب فرمایاہے:
@GUMQAFLA
@GUMQAFLA Күн бұрын
05 Сура Аль-Ахзаб, Сура № 33, всего аятов 73, Время Откровения, В Медине Стихи с 69 по 73. {وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ﴿۷۱﴾} «А кто посвятил себя повиновению Аллаху и Его Посланнику, тот достиг большого успеха».Здесь критерием успеха было объяснено, что успех верующих заключается в повиновении Аллаху и Посланнику. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ {وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ} (سورۃ الحجر:۲۹ اور سورۂ ص: ۷۲)۔ چنانچہ اسی روح کی بنا پر انسان مسجودِ ملائک ٹھہرا‘ اسی کے باعث اسے خلافت کا اعزاز ملا اور اسی کی وجہ سے انسان کا سینہ ’’مہبط ِوحی‘‘ بنا۔ وحی کا تعلق چونکہ عالم امر سے ہے اور وحی کا حامل فرشتہ بھی عالم امر کی مخلوق ہے‘ اس لحاظ سے انسان اپنے مادی وجود کے ساتھ فرشتے کے ذریعے وحی کو وصول کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ لہٰذایہ روح ہی ہے جس نے اسے نزولِ وحی کے تجربے کو برداشت کرنے کے قابل بنایا۔ جنات کے اندر چونکہ یہ روح نہیں ہے اس لیے وہ وحی کے حصول (reception) کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ جنات کے ہاں کوئی نبی نہیں آیا اور ان کے لیے نبوت کے حوالے سے انسانوں (انبیاء) کی پیروی لازم قرار پائی۔ اس نکتے کو مزید اس طرح سمجھئے کہ یہاں ’’ظَلُوْمًا جَہُوْلًا‘‘ کے الفاظ میں انسان کے حیوانی وجود کی اس کمزوری کا ذکر ہوا ہے جو اس کے اندر روح پھونکے جانے سے پہلے پائی جاتی تھی۔ اسی کمزوری کو سورۃ الانبیاء کی آیت ۳۷ میں {خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ عَجَلٍ ؕ } اور سورۃ النساء میں {وَ خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِیۡفًا ﴿۲۸﴾} کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ کمزوری بہر حال ’’نفخ روح ‘‘سے پہلے کے انسان میں تھی۔ لیکن روحِ ربانی کی امانت ودیعت ہو جانے کے بعد اس کا رتبہ اس قدر بلند ہوا کہ وہ مسجودِ ملائک بن گیا۔ انسانی تخلیق کے ان دونوںمراحل کا ذکر سورۃ التین میں یوں فرمایا گیا ہے: {لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾ثُمَّ رَدَدۡنٰہُ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ ۙ﴿۵﴾} ’’یقینا ہم نے پیدا کیا انسان کو بہترین شکل و صورت میں۔ پھر ہم نے اس کو لوٹا دیا نچلوں میں سب سے نیچے۔ ‘‘یعنی جب ارواح کی صورت میں انسانوں کو پیدا کیا گیا تو وہ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ کے مرتبے کی مخلوق تھی‘ مگر جب اسے دنیا میں بھیجا گیا تو یہ اپنے جسد ِحیوانی کی کمزوریوں کے سبب جنات سے بھی نیچے چلا گیا۔ بہر حال میرے نزدیک یہاں جس امانت کا ذکر ہوا ہے وہ انسان کی روح ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے جسد خاکی میں رکھی گئی ہے اور یہی وہ امانت ہے جس کی بنا پر اس کا احتساب ہو گا۔ جس انسان نے اس امانت کا حق ادا کیا وہ آخرت میں: {فَرَوۡحٌ وَّ رَیۡحَانٌ ۬ۙ وَّ جَنَّتُ نَعِیۡمٍ ﴿۸۹﴾} (الواقعہ) سے نوازا جائے گا۔ یعنی اس کے لیے راحت اور خوشبو اور نعمتوں کے باغ کی ضیافت ہو گی۔
@GUMQAFLA
@GUMQAFLA Күн бұрын
06 Сура Аль-Ахзаб, Сура № 33, всего аятов 73, Время Откровения, В Медине Стихи с 69 по 73. {وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ﴿۷۱﴾} «А кто посвятил себя повиновению Аллаху и Его Посланнику, тот достиг большого успеха».Здесь критерием успеха было объяснено, что успех верующих заключается в повиновении Аллаху и Посланнику. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے برعکس جو کوئی حیوانی خواہشات و داعیات کا اتباع کرتا رہا اور یوں اس امانت میں خیانت کا مرتکب ہوا وہ گویا حیوان ہی بن کر رہ گیا۔ چنانچہ اس کو وہاں {فَنُزُلٌ مِّنۡ حَمِیۡمٍ ﴿ۙ۹۳﴾وَّ تَصۡلِیَۃُ جَحِیۡمٍ ﴿۹۴﴾} (الواقعہ) کے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یعنی آخرت میں کھولتے پانی کی مہمانی اور جہنم کے عذاب کی زندگی اس کی منتظر ہو گی۔ آیت ۷۳ {لِّیُعَذِّبَ اللّٰہُ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ وَ الۡمُشۡرِکٰتِ } ’’تا کہ اللہ عذاب دے منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک َمردوں اور مشرک عورتوں کو‘‘ { وَ یَتُوۡبَ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ } ’’اور اللہ رحمت کے ساتھ توجہ فرمائے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں پر۔‘‘ آیت کے الفاظ میں ’’توبہ قبول فرمائے‘‘ یا ’’توبہ کی توفیق عطا فرمائے‘‘ کا مفہوم بھی موجود ہے۔ {وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿٪۷۳﴾} ’’اور یقینا اللہ بہت بخشنے والا ‘نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ سورۃ الاحزاب مکی مدنی سورتوں کے چوتھے گروپ کی آخری سورت ہے۔ اس گروپ میں آٹھ مکیات (سورۃ الفرقان‘سورۃ الشعراء‘سورۃ النمل‘سورۃ القصص‘سورۃ العنکبوت‘سورۃ الروم‘سورۂ لقمان ‘سورۃ السجدۃ) اور ایک مدنی سورت (سورۃ الاحزاب) شامل تھی۔ اس کے بعد مکی مدنی سورتوں کا پانچواں گروپ ۱۳ مکی اور تین مدنی سورتوں پر مشتمل ہے۔ یہاں پر ضمنی طور پر مدنی سورتوں کی موجودہ ترتیب اور ترتیب نزولی کے بارے میں چند معلومات بھی نوٹ کر لیں۔ مصحف کی ترتیب میں سورۃ البقرۃ سے لے کر سورۃ الاحزاب تک تمام مدنی سورتیں طویل ہیں ۔ لیکن سورۃ الاحزاب کے بعد اکثر مدنی سورتیں ۲ رکوعوں پر مشتمل ہیں یا زیادہ سے زیادہ کسی کے چار رکوع ہیں۔ اب تک پڑھی جانے والی مدنی سورتوں کی ترتیب نزولی اس طرح ہے: پہلے سورۃ البقرۃ‘پھر سورۃ الانفال‘ پھر سورۂ آل عمران‘پھر سورۃ النساء‘پھر سورۃ الاحزاب ‘پھر سورۃ النور اور آخر میں سورۃ المائدۃ ۔ جبکہ چھوٹی مدنی سورتیں مذکورہ طویل سورتوں کے بین بین میں نازل ہوتی رہی ہیں۔ جیسے سورۃ الصف سورۃ الاحزاب کے متصلاً بعد نازل ہوئی اور سورۂ محمدؐ سورۃ البقرۃ کے فوراً بعد‘لیکن غزوۂ بدر سے پہلے نازل ہوئی۔ ٭٭٭٭
@shakeeldadkhan3951
@shakeeldadkhan3951 3 күн бұрын
Khilafat o Malookiyat ka link yahaan den please
@ashirsidd279
@ashirsidd279 4 күн бұрын
Absolutelyright
@yusufraghibsayyad8070
@yusufraghibsayyad8070 4 күн бұрын
اللہ کریم۔ مولانا مودودی رحمتہُ اللہ علیہ کی مغفرت فرماۓ ان کے درجات بلند فرماۓ۔آمین
@muhammadnaeem6743
@muhammadnaeem6743 6 күн бұрын
سیدمودودی رح مفکراسلام،مفسرقرآن،مورخ،محقق، تحریر،تقریراوردلیل کےبادشاہ تھے_
@khurshidahmed9922
@khurshidahmed9922 6 күн бұрын
سبحان اللہ ماشاء اللہ۔۔۔ عشق و محبت و عقیدت سے بھرپور تحریر۔۔۔ جزاک اللہ۔ شامی صاحب کو طویل عرصہ خلد آشیانی مولانا سے شرف نیاز رھا۔ ۔میں نے انہیں پہلی بار (1970ء میں) 5- اے ذیلدار پارک ہی میں دیکھا تھا۔۔۔۔