شکر ہے اس رب کا جس نے ہمیں شیخ الاسلام جاوید احمد غامدی حفظہ اللہ سے استفادہ کرنے کا موقع عطا کیا ۔
@faridahmed63564 ай бұрын
جاری رکھیے ۔۔تھوڑی اور تفصیل کے ساتھ بھی ۔۔زبردست ۔۔۔
@dr.ishtiyaqqadri79813 ай бұрын
Aap par Allah ki rehmatein hon., ameen
@Drzaheerkhan31842 ай бұрын
Informative and thoughtful ❤.
@ShafiqAhsanАй бұрын
Excellent analysis .🎉
@RockingStarRocky-h8o4 ай бұрын
Sir, pls do conversation in a simple language. Your words and sentences are highly sophisticated. being a Hindu pls understand my problem, i am following your video as history student and not as a religious person
@khudayar49584 ай бұрын
Man of the century❤
@ZaheerAadam4 ай бұрын
بہت خوب
@ParvezAlam-pt5zu3 ай бұрын
Iska part 8 ka link mil sakta hai?
@wahidafridi71953 ай бұрын
شریعت کی پابندی ریاست کے بغیر کیسے ممکن ہے؟
@FreeCitizenPK4 ай бұрын
قیام پاکستان کا مقصد بنیادی حقوق کا تحفظ اور عدل و انصاف کی فراہمی تھا۔ "امرھم شوری بینھم" شان نزول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آیت کے متعلق تعلیمات اور قرونِ اولیٰ کے علمائے کرام کی اس آیت کے متعلق تعلیمات کیا ہیں ؟
@syedsharf673 ай бұрын
English subtitles please
@adnansiddiqui71773 ай бұрын
ریاست کوئ مقدس چیز نہیں ۔۔۔یہ سب سے پہلے سمجھنے کی ضرورت ہے
@ShakilRai23 ай бұрын
یورپ کی جدید ریاستیں قومیت، سیکولرزم، جیسے سیاسی نظریات کی بنیاد پر قائم ہوئیں، اگر کسی علاقے کے مسلمان قومیت کی بنیاد مذہب کو بنائیں تو اس پر نظریاتی فلسفیانہ اعتراض نہیں ہو سکتا، پاکستان کو اگر کسی نظریے کی بنیاد پر نظریاتی ریاست کہلانا چاہے تو اس پر کیا اعتراض ہے،
@ateequerahman76854 ай бұрын
shurayiyat islam ka ek usuul hai.. agar aaj k zamane me leadership k exchange k liye shurayiyat k usuul par koi model viable hai to hamey usey istemaql karne me kyun harj hona chahiye ... kyun ham muslamanon ki tareeq k ghalat models ko sahi tehrane ya usi par aaj bhi rehna chahenge .. Jab khulafa e rashideen qabayili nizaam me shurayiyat k sath chune ja saktey they to aaj k zamane me kyun shuryiyat k base par koi model pesh nahi kiya jasakta
@mohammadfarooq64933 ай бұрын
ایک سوال کا جواب دیجئے۔ جب آئین میں قرارداد مقاصد کے اندر ریاست کے بجائے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو مان لیا گیا اور یہ بھی واضح کیا گیا کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی جا سکے گی، تو اس کا خود بخود مطلب شریعت اسلامی ہی کو سپریم لا منوانے کا تھا۔ جس طرح آئینی طور پر قرار داد میں اللہ کی حاکمیت ماننے کے باوجود عملاً قرآن و سنت کو سپریم لا تسلیم نہیں کیا جاتا، کیا اسی طرح شریعت کو سپریم لا ماننے کے باوجود اس کو عملاً نہ ماننے کا امکان نہیں تھا ؟ یعنی جو سیکولر حکمران ملک پر مسلط ہو ئے وہ اگر آئینی طور پر ریاست کے بجائے اللہ تعالیٰ کی آئینی حاکمیت اعلیٰ تسلیم کرنے کے باوجود اسے عملاً نافذ نہیں ہونے دے رہے ہیں تو براہ راست قانون شریعت کو کسی آئینی دفع میں آئین کا حصہ بنانے سے حکمرانوں کو کونسی مجبوری لاحق ہوتی کہ اس صورت میں بھی ایسے ہی حیلے حوالے اختیار نہ کیے جا تے ، آخر ایسا کیوں نہیں ہو سکتا تھا ؟ اس کی ایک مثال آج بھی شریعت کورٹ کی طرف سے سود کے خلاف فیصلے کو سپریم کورٹ میں لٹکانے کی ہے۔ قانونی طور پر اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کا ماننا اور قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کو نہ ماننا ہی شریعت اسلامی ہی تو ہے ۔۔۔۔۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ حکمران آئینی طور پر شریعت کی بالا دستی ہی کو نہیں ۔۔۔ وہ تو محض قانون کی حکمرانی بھی اس ملک میں قائم نہیں ہونے دے رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر سیّد مودودیؒ نے آپ کے بقول "اصل" مسلے کو اٹھایا ہی نہیں ۔۔۔۔ اور ہم عدلیہ میں انگریزی قانون کے محتاج رہ گئے تو اس انگریزی قانون کا حشر بھی ہمارے ملک کے حکم رانوں نے کیا کیا ؟ کیا چور کی جو سزاء انگریزی اور پاکستانی قانون میں موجود ہے ۔۔۔۔ وہ اس ملک کے ہر چور کو دی جا تی ہے ؟ کیا معاشرے کے اشرافیہ کے لیے یہ قانون کوئی اور اور عام آدمی کے لیے کوئی اور نہیں ہے؟
@KhalilAhmad-mn7ym4 ай бұрын
سید مودودی رح نے سالوں سال پہلے ہر اشکال کا شافی جواب دے دیا ہے۔ اسلام ایک دین ہے۔ اس کو نفاذ کے لیے ریاست کیسے غیر متعلق نہیں۔ اللہ محترم کو ہدایت افطار فرمائے۔
@KhalilAhmad-mn7ym4 ай бұрын
ریاست افراد سے بنتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ افراد کے لیے دین ہے مگر ریاست کے لیے نہیں۔ جب انسان گمراہ ہوتا ہے تو ایسے دھوکہ کھاتا ہے۔ خود کو فلسفی سمجھنے والا سادہ سی بات نہ سمجھ سکا۔