بنیادی بات یہ ہے کہ ہم قادیانی بھی خدا کو ایک مانتے ہیں اور تم بھی کوئی فرق نہیں ۔ہم بھی تمام انبیا ء ، کتب سماوی ، فرشتوں اور روز قیامت اور ذخیرو شر کی تقدیر پر ایمان لاتے ہیں ۔ مسیح نے آخری زمانہ میں نازل ہونا ہے اور امام مہدی کی آمد ہونی ہے ہم بھی مانتے ہیں اور تم بھی مانتے ہو ۔۔تو عقیدے کا تو ہمارا تمھارا کوئی اختلاف نہیں ہے ۔۔اختلاف صرف شخصیت کا ہے ۔۔ عقیدہ تو ہمارا بھی یہ ہی ہے ۔۔صرف یہ کہ ہم نے کسی کو مان لیا ہے کہ جس کے آنے کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ وسلم نے کی تھی یہ وہ ہی موعود ہیں اور آ چکے ہیں ۔۔اور آپ کہتے ہیں کہ ابھی آنا ہے ۔۔بس اتنا ہی فرق ہے تو۔۔ میں نے آپ کی ایک شاگردہ کو اپنا پہلا سوال لکھ کر بھیجا ہے آپ صرف اس کا قرآن ، سنت اور احادیث صحیحیہ سے جواب دے ( جس کو عقل قبول کر سکے) تو ٹھیک ہے ۔۔پھر آپ اپنا سوال قرآن و سنت و حدیث سے کیجئے گا میں جواب دہ ہوں ؟ ؟ منظور ؟ ؟ قیامت کو رہنے دیں یہاں ہی فیصلہ کر لیتے ہیں ۔۔ اگر آپ حق پر ہیں اور آپ کے پاس عقل بھی ہے تو پھر تو آپ کے پاس اپنی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے دلائل کا ایک ڈھیر ہونا چاہئے ۔۔ٹیھک ہے ناں ؟ قرآن کریم بھی اسی اصول کو پیش کرتا ہے کہ “ ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین “ کہ اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ ۔۔۔ اور اللہ تعالی نے بار بار فرمایا ہے قرآن کریم میں کہ غورو فکر کرو عقل اور تدبر سے کام لو۔۔اگر آپ سچے ہو تو اپنے حق میں دلیل دو اور میرے عقیدے کو دلیل سے غلط ثابت کرو۔۔۔جیسا کہ میں نے قرآن کریم ،سنت اور احادیث سے بار بار دی ہیں ۔۔ نمبر 1 اس بات کا جواب دو کہ اگر آنحضرت صلی اللہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا تو آپ نے عیسی کے اپنے بعد آنے کی خبر کیوں دی ؟ ؟ ؟ اور اس کے علاوہ حضرت عیسی کے امام حضرت امام مہدی علیہ السلام کے آنے کی خبر کیوں دی ؟ وہ تو اتنے بڑے درجے کے نبی ہیں کہ حضرت عیسی کی بھی امامت کروائیں گے۔۔ اور یہ بھی بتائیں کہ اگر بنی اسرائیل والے عیسی نے ہی آنا تھا تو ان کے اس امت میں آنے کا دروازہ کیوں قرآن اور حدیث نے بند کر دیا؟ قرآن ان کے بارے میں کہتا ہے کہ “و رسولا الی بنی اسرائیل “ کہ وہ صرف اور صرف بنی اسرائیل کے رسول ہیں مطلب وہ کبھی بھی امت مسلم تو دور کسی اور امت میں بھی شامل نہیں ہو سکتے! ! اور آپ صلی اللہ وسلم نے آنے والے عیسی کے بارے میں فرمایا کہ “ امامکم منکم “ کہ موعود عیسی جب آئیں گے وہ تم ہی میں سے ہونگے تمھارا امام تم ہی میں سے یعنی امت محمدیہ میں سے ہو گا! ! بنی اسرائیل میں سے نہیں ہو گا!! تو کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ بنی اسرائیل والا عیسی اور تھا اور اس امت کا موعود عیسی اور ہے صرف اس کا لقب عیسی ہے مگر جسمانی طور پر وہ ایک امتی ہو گا؟ ؟ یقینا یہ ہی بات ہے ورنہ صحیح بخاری میں یہ احا دیث مو جود نہ ہوتیں کہ امام بخاری باب نزول عیسی میں معراج والی حدیث میں بیان فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ وسلم نے جنت میں اور انبیاء کے ساتھ حضرت عیسی کو دیکھا وہ سرخ رنگ کے اور گھنگریالے بالوں والے تھے اور چند صفحے بعد اسی باب میں ایک حدیث میں آپ صلی اللہ وسلم کو آخری زمانے کا مسیح ،دجال کے زمانے کا مسیح دکھایا جاتا ہے تو وہ سفید گندمی رنگ کا اور سیاہ سیدھے بالوں والا ہے ! ! ! اب آپ ہی بتائیں کہ کیا اس کا صاف صاف مطلب نہیں کہ پرانا عیسی اور تھا اور آنے والا عیسی اور ہے ؟ ورنہ ایک ہی شخص کے آپ صلی اللہ وسلم الگ الگ حلیے کیسے بتا سکتے ہیں ؟ اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ جب مسیح آئیں گے تو عوام اور خواص ان کی شدید ترین مخالفت کریں گے؟۔۔سو یہ نشانی بھی پرے زور و شور سے پوری ہو رہی ہے۔ان سب باتوں کا کیا جواب ہے آپ کے پاس ؟ ؟ اور صرف ہم ہی نہیں آپ صلی اللہ وسلم کے تمام صحابہ بھی بالکل ایسا ہی سمجھتے تھے اور ان کو حضرت عیسی کی زندگی کی کوئی خبر نہ تھی ۔۔ورنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جب حضرت عمر نے تلوار نکال لی کہ اگر کسی نے کہا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں تو میں اس کا سر اڑا دوں گا آپ حضرت موسی کی طرح اللہ میاں کی ملاقات کو گئے ہیں (میقات کو ) اور واپس آ کر منافقوں کی گردنیں کاٹیں گے ۔۔اگر حضرت عمر کے ذہن شائبہ بھی ہوتا کہ عیسی آسمان پر زندہ ہیں تو وہ موسی کی مثال کی بجائے عیسی کی مثال دیتے اور کہتے کہ اگر عیسی نہیں فوت ہوئے تو آپ کیسے فوت ہو سکتے ہیں مگر آپ کو ایسی کوئی خبر نہ تھی آپ زیادہ سے زیادہ موسی والی مثال لا سکے۔۔۔ ؟ اور باقی صحابہ کرام کو بھی اس کی خبر نہ تھی کیونک اس ماجرا کو دیکھ کر حضرت ابوبکر اٹھے اور سب کو سمجھایا اور یہ آیت تلاوت کی کہ “وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افاءن مات او قتل انقلبتم علی عقبیہ “ کہ نہیں ہیں محمد مگر اللہ کے رسول اور ان سے قبل تمام رسول گزر چکے ہیں پس اگر وہ بھی وفات پا جائیں یا قتل کردیےجائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤگے ؟اس آیت کے بعد آپ نے فرمایا کہ تم میں سے جو اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ وہ ہمیشہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا اور جو محمد کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ پقینا آپ کی وفات ہو گئی ہے ۔۔اس کے سنتے ہی حضرت عمر کے گھٹنوں سے جان نکل گئی اور وہ زمین پر گر گئے اور سب صحابہ کو آپ کی وفات کا یقین ہو گیا ۔۔اور صاحبہ کرام مدینہ کی گلیوں میں روتے ہوئے دیوانہ وار یہ آیات تلاوت کرتے کہ اس میں تو آپ کی وفات کی صاف صاف خبر تھی مگر کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ نہیں حضرت عیسی بھی تو زندہ ہیں اور ان کے زندہ ہونے سے عین ممکن ہے کہ آپ بھی زندہ ہوں بلکہ پورے یقین کے ساتھ انہون نے آپ کی تجہیزو تکفین کی ۔۔تو صحابہ کرام کا سب سے پہلا ،متفق اور کامل اجماع تو ہوا ہی آپ صلی اللہ وسلم سمیت کل گزشتہ انبیاء کی وفات پر ہے ۔۔ہر صحابی جانتا تھا کہ مسیح ناصری وفات پا چکے اور آنے والا مسیح اور شخصیت ہوگی اور امتی ہو گی اور اس کا ٹائٹل مسیح ہو گا اور مذاہب کی تاریخ میں یہ کوئی نئی بات نہیں کہ کسی پرانے نبی کے آنے کی پیشگوئی کی جائے جس سے مراد صرف یہ ہو کہ آنے والا پرانے نبی کے جیسا ہوگا اس سے مشابہ ہوگا اور بس! ! !