جدا جب تک تری زلفوں سے پیچ و خم نہیں ہوں گے ستم دنیا میں بڑھتے ہی رہیں گے ، کم نہیں ہوں گے اگر بڑھتا رہا یوں ہی یہ سوداے ستم گاری تمہی رسوا سر بازار ہو گے ، ہم نہیں ہوں گے جناب شیخ پر افسوس ہے ، ہم نے تو سمجھا تھا حرم کے رہنے والے ایسے نامحَرم نہیں ہوں گے ادھر آو تمہاری زلف ہم آراستہ کر دیں جو گیسو ہم سنواریں گے کبھی برہم نہیں ہوں گے اگرچہ عشق میں مرنے کا خطرہ ہی زیادہ ہے مگر مرنے کے ڈر سے مرنے والے کم نہیں ہوں گے
@buddhisensharma78504 жыл бұрын
P
@mohammadrizwan9965 Жыл бұрын
دل پرغم نہ ہونگے ، دیدۂ پرنم نہیں ہونگے ، اندھیرا ہوگا اس محفل میں جس میں ہم نہیں ہونگے ، بتانِ فتنہ گر اس سرزمیں پر کم نہیں ہونگے ، تمہارے جیسے لیکن فتنۂ عالم نہیں ہونگے ،