ترقیوں کی دوڑ میں اسی کا زور چل گیا بنا کے اپنا راستہ جو بھیڑ سے نکل گیا سلگ اٹھیں گے جانے کتنے دل حسد کی آگ سے اگر ہوا کے روبرو مرا چراغ جل گیا کہاں تو بات کر رہا تھا کھیلنے کی آگ سے ذرا سی آنچ کیا لگی کہ موم سا پگھل گیا ذرا سی دیر کے لیے جو آ گیا میں ابر میں ادھر یہ شور مچ گیا کہ آفتاب ڈھل گیا عروج پر نصیب تھا تو چھو رہا تھا آسماں بگڑ گیا نصیب تو زمیں سے بھی پھسل گیا چلا کے آندھیاں کسے گرانا چاہتا تھا تو جو میری جھونپڑی گئی تو تیرا بھی محل گیا مجھی کو میری شکل آج لگ رہی ہے اجنبی نہ جانےکون میرے گھر کے آئینے بدل گیا نعیم اختر خادمی
@naseemakhtar-kq7kv11 ай бұрын
چراغوں کے سفر میں دبدبہ ہو آندھیوں کا تو پھر انجام ظلمت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے یہ دنیا نفرتوں کی آخری اسٹیج میں ہے علاج اس کا محبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے چرن سنگھ بشر