ماشاءاللہ اللہ پاک آپ کے علم وعمل میں برکت عطا فرمائے آمین ثم آمین
@rijwanqureshi53355 жыл бұрын
Sare la maka se talab hui sue muntha ko chale Nabi (s.w.) Subhanallah Allah Allah huakbar
@hafizusman86265 жыл бұрын
Mash Allah
@khanalamchishti80334 жыл бұрын
ماشاءاللہ
@imranvahora33395 жыл бұрын
🌹સુબ્હાનઅલ્લાહ🌹 🌹 માશાઅલ્લાહ 🌹 🌹અલ્લાહુઅકબર🌹
@numanrashid15712 жыл бұрын
mashaallah
@hafizusman86265 жыл бұрын
Subhan Allah
@ArifKhan-yw8lu4 жыл бұрын
Asif Khan indian subhanallah masha allah
@mdsamem2473 жыл бұрын
Good
@laeequenadvi47462 жыл бұрын
مادى دنیا اور عقل انسانی سے ماوراء عظیم الشان واقعہ معراج ساتون آسمان اور سدرة المنتہی کی سیر اور مشاہدات سبحان الذى أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الذى باركنا حوله لنريه من آياتنا إنه هو السميع البصير o پاک ہے ( وہ ذات ) جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام ( خانہ کعبہ) سے مسجد اقصی ( بیت المقدس) لے گئی ، جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ اسے اپنی نشانیاں دکھائے ، بیشک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔ اس آیہ کریمہ میں اللہ جل شانہ نے " أسرى بعبده " فرمايا ہے اس لیے یہ واقعہ إسراء كہلاتا ہے ۔ اور مسجد اقصی سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے ۔ حدیث میں اس واقعہ کے لیے " عرج بی الی السماء " آیا ہے یعنی مجھ کو آسمان لی طرف چڑھایا گیا ۔ اس لیے یہ واقعہ معراج کہلایا ۔ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد نے بیان کیا ہے ۔ علامہ زرقاوی نے ٤٥ صحابہ کا نام بنام ذکر کیا ہے جنہوں نے حدیث معراج کو روایت کیا ہے ۔ یہ واقعہ تین مراحل پر مشتمل ہے : ١ -- پہلا مرحلہ مسجد حرام سے لے کر مسجد الأقصى تک دوسرا مرحلہ مسجد الاقصی سے لے کر ساتوں آسمان اور سدرة المنتہی تک تیسرا مرحلہ سدرة المنتہی سے آگے تک عالم تجرید لامکان تک ۔ سدرة المنتهى سے آگے جانے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے ۔ علماء کی ایک جماعت اس کی قائل ہے کہ سفر معراج سدرة المنتہی تک وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپس ہوگئے ۔ اس کے برخلاف علماء کی دوسری جماعت آگے کے سفر کی قائل ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ سدرہ المنتہی میں عالم مکان ختم ہوگیا ۔ وہان آپ (ص) کے لیے سبز رنگ کا نور کا تخت آگیا اس کا نام رفرف تھا ۔ آپ اس پر سوار ہوکر لامکاں کی طرف گئے ۔ یہاں کے احوال و کیفیات انسانی سوچ سے ماوراء ہیں ۔ صوفیاء رحمہم اللہ عجب عجب احوال ، مشاہدات اور کیفیات بیان کرتے ہیں جن کا بیان کرنا یہاں ضروری نہیں ۔ اسراء اور معراج کا واقعہ کب پیش آیا : معراج کی تاریخ ، دن اور مہینہ میں بہت اختلافات ہیں لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ ہجرت سے ایک سال یا ذیڑہ سال پہلے مکہ مکرمہ میں پیش آیا ۔ ابن قتیبہ دینوری( متوفی ٢٦٧ هج) ابن البر ( متو فی ٤٦٣ هج) اور امام نووی رحمہم اللہ نے تحریر کیا ہے کہ واقعہ معراج رجب المرجب کے مہینہ میں ہوا محدث عبد الغنی مقدسی نے رجب کی ستائیسویں تاریخ بھی تحریر کیا ہے ۔ علامہ زرقانی نے لکھا ہے کہ لوگوں کا اسی پر عمل ہے اور بعض مؤرخین کی رائے میں یہی سب سے زیادہ قوی روایت ہے ۔ ( زرقانی ص ٣٥٨) مختصر حالات معراج : معراج کی رات حضرت جرنیل علیہ السلام حضرت میزائیل علیہ السلام اور دیگر فرشتوں کے ساتھ تشریف لائے ۔ آپ خانہ کعبہ میں تھے ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمزم کے پاس لے گئے ، سینہ مبارک کو چاک کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کو نکال کر اسے آب زمزم سے دھویا پھر ایمان و حکمت سے بھرے ہوئے ایک سونا کے طشت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک میں انڈیل کر چاک کو برابر کردیا ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو براق پر سوار کرکے بیت المقدس لے گئے ۔ براق نور کی سواری پرصفر وقت میں محیر العقول سفر یہ اللہ جل شانہ کی طرف سے بھیجی گئی نوری سواری تھی جس کا نام برق تھا ۔ یہ سفر جبرئیل علیہ السلام اور دیگر ملائکہ کی معیت میں ہوا ۔بیت المقدس پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس حلقہ سے باندھ دیا جس سے انبیاء علیپم السلام اپنی سواریوں کو باندھا کرتے تھے پھر آپ(ص) نے تمام انبیاء علی ہم السلام کو جو وہاں حاضر تھے ، دو رکعت نماز پڑھائی ۔ ( تفسیر روح المعانی ج ٥ ص ١١٢) یہ امامت انبیاء کا واقعہ بعض حضرات کے نزدیک آسمان پر جانے سے پہلے پیش آیا ۔ سفر معراج سے واپسی پر جب اصل مقصد پورا ہوگیا تو تمام انبیاء علیپم السلام آپ کو رخصت کرنے کے لیے بیت المقدس تک آئے ۔ اس وقت نماز فجر کا وقت ہوگیا تھا ۔ جبرئیل امین کے اشارے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی ۔ اس سے تمام انبیاء علیہم السلام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء علیپم السلام کے امام قرار پائے ۔ سورہ اسراء کی اس پہلی آیہ کریمہ میں اللہ جل شانہ نے خود معراج مصطفی کا ذکر فرمایا ہے ۔ اس سے پہلے اپنی قدرت اور تنزیہ و تقدیس کو بیان فرمایا ۔ پاک و برتر اور ہر نقص و کمزوری سے پاک ہے وہ ذات ۔ واقعہ معراج کا بیان کرنا ہے لیکن ابتدا اپنی تقدیس اور تنزیہ سے فرمایا ۔ اس لیے جو واقعہ اس کے بعد بیا کیا جانے والا ہے وہ بڑی اہمیت کی حامل ، محیر العقول اور عظیم الشان ہوگی اور اس کا انکار علم کی کمی اور کم فہمی پر مبنی ہوگی ۔ اس تمہید کے بعد جو واقعہ بیان کیا جارہا ہے ، وہ آج کی ترقی یافتہ جدید سائٹس کی روشنی میں قابل فہم ہے ۔ اس پر ہم تھوڑی تفصیل سے آئندہ بیان کریں گے ۔ اللہ جل شانہ کی ذات قادر مطلق ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اس کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ۔ اگر اس کے لیے بھی ناممکن ہو تو پھر وہ مبدع کائنات اور ہر چیز کا خالق نہیں رہا ۔ سبحان اللہ عما یصفون ۔ یہ دعوی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا بلکہ اللہ نے فرمایا کہ یہ دعوی میرا ہے ۔ میں نے اسے یہ شیر کرائی ۔ اللہ کے رسول (ص) نے یہ دعوی ہین کیا کہ اس نے خود یہ سفر کیا ہے ۔ اے مشرکین مکہ اگر انکار کرنا ہے تو میری بات کا انکار کرو ۔ مجھ سے پوچھو کہ میں معراج کراسکتا ہوں یا نہیں! اس واقعہ معراج کا انکار کیے جانے اور زبان اعتراضات کھل نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع فرمادیا گیا ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com