Рет қаралды 107
"دیپ"
اپنے گرد کئ دیپ جلاۓ رکھتا ہوں
خود کو اندھیرے سے بچاۓ رکھتا ہوں
نیند میں کئ خواب ستاتے ہیں مجھے
شب بھر آنکھوں کو جگاۓ رکھتا ہوں
تیری یاد سے سہما ہوا رہتا ہے
دل کو باتوں میں لگاۓ رکھتا ہوں
آنکھوں میں وہ چہرہ سماتا نہیں ہے
تخیل میں ہی تصویر بناۓ رکھتا ہوں
پلکوں سے جھلک نہ جائیں ضبط کے آنسو
دریچہء غم میں انہیں چھپاۓ رکھتا ہوں
سر راہ چھوڑ جاتے ہیں ساتھ سبھی اپنے
منزل کے ہمسفر تبھی تو پراۓ رکھتا ہوں
روٹھ جاتی ہیں ذرا سی بات پہ حمزہ
ہر روز خوشیوں کو مناۓ رکھتا ہوں
(حمزہ نثار)