Рет қаралды 19,852
فرقہ واریت کے خاتمے اور اتحاد امت کے موضوع پر حافظ وقار صاحب کے ساتھ آن لائن نشست کا اہتمام
------------------------------------------------------------------------------
حافظ وقار صاحب کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر انجینئر محمد علی مرزا کے حوالے سے کافی کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسی حوالے سے ایک آن لائن ڈسکشن کا اہتمام فرمایا۔ اس ڈسکشن میں انجینئر محمد علی مرزا صاحب کے اس دعوے کا جائزہ لیا گیا ہے کہ ان کے علاوہ سارے مسلک فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں جبکہ وہ کتاب وسنت کی دعوت کے ذریعے امت کو اتحاد کے رستے پر ڈال رہے ہیں۔
میرا کوئی مسلک نہیں ہے، یہ خود ایک مسلکی بیان ہے۔ اور اس امت کی تاریخ گواہ ہے کہ فرقہ واریت انہوں نے زیادہ پھیلائی ہے جنہوں نے فرقہ واریت کے خلاف محاذ کھولا تھا۔ ہوتا یہی رہا ہے کہ تمام فرقوں کی نفی کرنے والے بہت جلد خود ایک بدترین فرق بن کر سامنے آئے جیسا کہ جماعت المسلمین وغیرہ کی مثالیں ہمارے سامنے کی ہیں۔ مسعود الدین عثمانی ہوں یا مسعود احمد بی ایس سی، ان کے بعد انجینئر محمد علی مرزا بھی انہی کے رستے پر ہیں۔ فرقہ واریت ایک رویہ ہے کہ جس میں دوسروں کی نفرت اور بغض پر لوگوں کو جمع کیا جاتا ہے۔ فرقہ واریت در اصل سختی، تشدد اور تعصب کا
مجموعہ ہے۔ اور یہ سب جہلمی فرقے میں پوری طرح موجود ہے۔
فرقہ واریت ختم کر نے اور اتحاد امت کا صحیح طریقہ کیا ہے، یہ بھی اس ڈسکشن میں زیر بحث آیا ہے۔ ایک تو اس میں مختلف مسالک کے معتدل علماء کو اہم کردار ادا کرنا چاہیے اور دوسرا ان مسالک کے فالوورز کو۔ فالوورز کو چاہیے کہ اپنے مسالک کے معتدل علماء اور خطباء کو پروموٹ کریں۔ اور معتدل علماء کو چاہیے کہ وہ اپنے مسلک سے نسبت رکھتے ہوئے دوسروں کے ساتھ اپنوں کی بھی اصلاح کی پوزیشن لیں۔ اور یہ اب الحمد للہ ہو رہا ہے۔
بریلوی مسلک سے نسبت رکھنے والوں کو مفتی منیب الرحمن صاحب، پیر نصیر الدین گولڑوی صاحب، مولانا رضا مصطفی ثاقب صاحب اور ڈاکٹر سلیمان مصباحی صاحب کو سننا اور پروموٹ کرنا چاہیے۔ دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کو مفتی تقی عثمانی صاحب، مفتی طارق مسعود صاحب اور مولانا طارق جمیل صاحب کو سننا اور پروموٹ کرنا چاہیے۔ جو اہل حدیث مسلک سے تمسک رکھتے ہیں تو وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ کو سنیں۔ جو شیعہ مسلک سے ہیں تو سید جواد نقوی صاحب کو سنیں۔ جو تحریک سے وابستہ ہے تو وہ ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ اور ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ کو سنیں۔ اور جو تصوف سے نسبت رکھتے ہیں تو احمد جاوید صاحب کو سنیں۔
اس کے علاوہ بھی ہر مسلک میں آپ کو معتدل علماء مل جائیں، کوئی کمی نہیں ہے۔ اصل میں ان علماء کو مسالک کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنا چاہیے۔ اس سے فرقہ واریت بالکل ختم ہو جائے گی۔ اختلاف بلکہ تنقید میں بھی حرج نہیں اور اس کا ہونا ضروری ہے لیکن فرقہ واریت یعنی امت کو پارہ پارہ کرنا تو یہ دین میں مذموم ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔ تو دوسروں کی نفرت پر نہیں بلکہ اپنوں کی محبت پر لوگوں کو جمع کریں تو یہی اتحاد امت کا رستہ ہے۔ صحابہ کرام کی نفرت اور بغض پر لوگوں کو ابھارنے والا امت کو کیسے متحد کر سکتا ہے۔ یہ تو اپنی ذات میں امت کو تقسیم کرنے والا کام ہے۔ البتہ اہل بیت اور صحابہ کرام کی محبت پر پوری امت جمع ہو سکتی ہے۔