Рет қаралды 1,369
میں خوشی کو جانتا کیا جو وہ غم زدہ نہ کرتے
مجھے دردِ دل نہ دیتے، مرا غم سوا نہ کرتے
مرا آشیاں جلایا، مجھے لامکاں بنایا
یہ بقا کہاں سے ملتی وہ اگر فنا نہ کرتے
مجھے سرِّ لا الٰہ کی کبھی آگہی نہ ہوتی
جو غمِ جہاں سے بڑھ کر کوئی غم عطا نہ کرتے
مری شمعِ زندگی کو ملی روشنی تجھی سے
یہ نہ بُجھتی تا قیامت تم اگر جدا نہ کرتے
سرِ بزم گر بلا کر ہمیں تم نہ کرتے رسوا
ترا ہر ستم اٹھاتے پہ کبھی گِلا نہ کرتے
کسی بت کی آرزو کیوں مرے دل کا درد بنتی
جو اسیرِ عشق مجھ کو اے مرے خدا نہ کرتے
اے خوشا وہ عشق والے! یہ جہاں نہ ہوتا زندہ
سرِ نیزہ بندگی کا جو وہ حق ادا نہ کرتے
مرے جذبہ ء وفا کو اے معیںؔ جلا نہ ملتی
وہ اگر ستم نہ کرتے، وہ اگر جفا نہ کرتے
یادوں کے دریچے
کلام پیر سیٌد معین الحق گیلانی
پیشکش چشتی پارٹی