Plz try to add English subtitles..... It will help non Punjabi listeners
@History010 Жыл бұрын
سردار محمد ڈوگر جو اس زمانے میں زیر تعلیم تھے سو وہ لکھتے ہیں کہ جب انہیں ایوب کے مارشل لاء کی خبر پہنچی کہ اس نے اقتدار پر قبضہ کرلیا ہے تو ہم نے خوشی کا اظہار کیا اور مٹھائی لے اپنے پروفیسر کے پاس گئے جو یہ خبر سننے کے بعد زار و قطار رو رہے تھے اور جلد ہی استعفی دے کر ملک چھوڑ کر چلے گئے انہوں نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ بچو افسوس ہے کہ تم لوگ باشعور ہوتے ہوئے مارشل لاء کے نافذ ہونے پر خوشیاں منا رہے ہو ۔۔ یہ کوئی حکومت ہوتی ہے ؟ اندھیر نگری ہوتی اچھا کرے یا برا کوئی باز پرس کرنے کے جراءت نہیں کرسکتا خدا کو مانو یہ خبر خوشیاں منانے کی ہے ؟ (غور کریں) استعفی دے کر ملک چھوڑ دیا کہ یہ ملک رہنے کے قابل نہیں جہاں آزادی نہیں ۔۔۔۔ آزادی ہونی چاہیے ۔۔۔ اور آزادی بھی ایسی کہ کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی غلط کام کرے تو اسے پکڑا جاسکے اور کسی صورت چھوڑا نہ جائے (ڈکٹیٹر شپ اور خلافت کے فرق کو اس واقعے سے با آسانی سمجھا جاسکتا ہے) حضرت عمر اور حضرت ابی بن کعب ان دونوں اصحاب کی آپس میں ایک زمین کے بارے میں تکرار ہوگئی۔ حضرت عمر کا کہنا تھا کہ یہ جگہ سرکار کو درکار ہے اور یہاں مسلمانوں کے لیے فلاں فلاحی کام کرنا ہے حضرت ابی بن کعب نے کہا کہ میں یہ جگہ نہیں دینا چاہتا دونوں فیصلے کے لیے حضرت زید بن ثابت کو ثالث تسلیم کرنے پر راضی ہوگئے۔۔ حضرت زید نے فرمایا کہ میں آپ دونوں حضرات کے حق یا مخالفت میں کوئی فیصلہ نہیں سنا رہا لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روایت سنا دیتا ہوں کہ جب حضرت داؤد علیہ السلام نے مسجد اقصٰی بنانے کے ارادہ کیا اور (حضرت سلیمان) سے پہلے نقشہ انہوں نے ہی بنایا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو مسجد بنانے سے روک دیا اور اس کے پیچھے وجہ یہ تھی کہ مسجد کے لیے جس جگہ کا انتخاب کیا گیا تھا وہاں ایک کونے میں کسی بوڑھی عورت کی زمین آرہی تھی جس سے مسجد کا نقشہ ٹیڑھا ہو رہا تھا اور جب اس عورت سے زمین کی بات کی گئی تو اس نے دینے سے انکار کردیا حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا زبردستی گرا دیا جائے (ہم نیک مقصد کے لیے گرا رہے کہ) یہاں مسجد ہی بنانی ہے تو اس بناء پر اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو مسجد بنانے سے روک کہ تم کسی کی پراپرٹی (طاقت کے بل بوتے پر) زبردستی چھینا چاہتے ہو تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کی اور اپنے بجائے سلیمان علیہ السلام کے ذریعے سے مسجد اقصٰی تعمیر کروانے کی اجازت طلب ( جو کہ دے دی گئی) یہ روایت سننے کے بعد حضرت عمر نے توبہ و استغفار کرتے ہوئے فرمایا میں کسی کی زمین لےکر مسجد نبوی کو توسیع دینے کے ارادے سے بعض آیا اور اسی وقت دوسرے صحابی نے حضرت عمر کی بات سننے کے بعد فرمایا کہ اب میں اپنی زمین امور سرکار کے لیے بخوشی ہدیہ کرتا ہوں میرا مقصد آپ (حضرت عمر) کو یہ بآور کروانا تھا کہ اسلام میں خلیفہ متعلق العنان حکمران نہیں کہ جو جی چاہے کرتے رہیں یہاں ہر شخص کے لیے عدل لازم اور قانون سب کے لیے یکساں ہے کسی قسم کی زور زبردستی نہیں کی گنجائش نہیں ہے۔۔۔ اسلام روشن دین ہے نور ہی نور ہے۔۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اصل دین کو سمجھتے ہی نہیں ہیں۔