نماز پڑھنے کا مقصد کیا ہے جب میں کہتا ہوں کہ بیٹا گاڑی آہستہ چلایا کرو تو اس فقرے میں ایک عمل ہے اور ایک مقصد ہے اس میں عمل گاڑی چلانا ہے اور مقصد ہے باحفاظت گھر پہنچنا اسی طرح جب اللہ فرماتے ہیں إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي 20:14 میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر- وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي میری یاد کے لیے نماز قائم کر اس میں نمازعمل ہے اور مقصد ہے یاد دہانی حاصل کرنا سوال ...؟ یاد دہانی کس چیز کی ...؟ اس بات کی کہ میں جب بھی کوئی کام کروں ، کسی کے طعنہ کا جواب دینا ہو ، کسی کے خلاف نفرت پیدا ہورہی ہو، اپنی محنت کی کمائی خرچ کرنے لگوں، غرض کوئی بھی صورت حال ہو ، خوشی ہو یا غم وغیرہ وغیرہ ... اس وقت مجھے یہ یاد آجاے کہ اس بارے میں اللہ کا کیا حکم ہے ..؟ . مثال کے طور پر سکھ حضرات ہاتھ میں لوہے کا کرا پہنتے ہیں تاکہ جب وہ کوئی غلط کام کرنے لگیں تو ان کو یاد آجائے کہ بابا گرونانک نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے اسی طرح جب ہم نماز اس طریقے سے پڑھیں گے کہ ہمیں پتہ ہو کہ اللہ کیا کہہ رہا ہے تو جب ہم کوئی غلط کام کرنے لگیں گے تو ہمیں یاد آجاے گا کہ اللہ نے اس کام سے منع کیا ہے - سچی بات ہے ہمیں تو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں اسی لیے تو مسلمان عمل سے عاری ہیں - پس صرف نماز پڑھ لینا کافی نہیں ہے جب تک اس کہی ہوئی بات پر عمل نہ کیا جاے- مثال کے طور پر اللہ فرماتے ہیں کہ گمان نہ کرو- غیبت نہ کرو- جھوٹ نہ بولو- غربا کی مدد کرو- اگر کوئی بندہ ان آیات کو لاکھوں دفعہ نماز میں یا بغیر نماز کے پڑھتا ہے اور ان پر عمل نہیں کرتا تو کیا اللہ ایسے بندے سے خوش ہوگا یا ناراض ؟ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ 61:2 اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ 61:3 اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں اور خواہش کہتی ہے پہلے اپنا اور اپنے بچوں کا لائف سٹائل بہتر کرو جب کہ نماز کہتی ہے دوسروں کے بچوں کا لائف سٹائل بہتر کرو...؟ اسی لیے اللہ تعالی فرماتے ہیں فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا 19:59 پھر ان کے بعد وہ ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی، پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں اسی لیے علامہ اقبال فرماتے ہیں دل میں خدا کا ہونا لازم ہے اقبال سجدوں میں پڑے رہنے سے جنت نہیں ملتی ترا امام بے حضور ، تیری نماز بے سرور ایسی نماز سے گزر ، ایسے امام سے گزر میں جو سربہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں