Jab bhi bayan sunte h.imaaan taja hojata h...Allah inki Umar daraj kare
@mhali9238 Жыл бұрын
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ماشاءاللہ سبحان اللّٰہ ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
@sheikhsalmanattari3011 Жыл бұрын
MashaAllah 🌹🌹 Madina 🌹🌹 Madina 🌹🌹 Madina 🌹🌹 Madina 🌹🌹👍🇮🇳
@rishikumar3947 Жыл бұрын
Mashallah subhanallah Allah hu akbar ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
@A.K.Gavali Жыл бұрын
Subhan Allah - Masha Allah : Allah Abdul Habib Attari Sahab Ke ilam Amal Umar Sehat Shohrat Aur izzat Me Barkat Ata Kare - Amin Summa Amin. Tajdare Khatme Nabuvvat Zindabad. 🇮🇳 Maslake Aala Hazrat Zindabad. 🇮🇳 Olema-e-Ahle Sunnat Zindabad. 🇮🇳
@Zishan_Aziz_66 Жыл бұрын
Aisa Hadeeth kabhi bhi Koi Gustaakhe Rasool nahi Batayega Subhanallah...❤❤
@TahirRa-k2f6 күн бұрын
Mashallah Subhanallah Dil ❤baag baag ho gaya Bahut umda Bayan Hai❤❤❤
@aaftabsaiyad3350 Жыл бұрын
Beshak subhanallah mashaallah💚💚💚💚💚
@zeeeshanattari Жыл бұрын
MashAllah kya byaan ha Allah pak apko jazay e khair ata fermaye🥰🥰
@sabasaudagar5901 Жыл бұрын
Subhanallah Alhamdulillah Allahu Akbar
@Kabirali-le5vm Жыл бұрын
MashAllah jazak Allah Allah Paak apko ajar dy humein itni pyari hidayt di
Mashallah Subhan Allah bhot zbrdst beyan ta Allah Pak mjy aml ki tofik de MRI b wish ha asi bnu Jo Allah Tala n Nabi Pak ko psnd a jau n ap ko Allah Pak jaza Khair atta kre Jo hme etni zbrdast bate btai
@RajuAnsari-jb3yx Жыл бұрын
سبحان اللہ ❤اللہ پاک ہمیں بیاں سن کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما آمین
Masallah subhanallah maidena maidena allah aap hamesha khush rakhe ameen summa 🤲🕋
@MuhammadAli-ic3ke Жыл бұрын
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ
@MuhmmadTahir-up4yh Жыл бұрын
MashaAllah subhanallah ❤❤❤❤Yarhamukallah❤❤❤yaghfirullahu Lana walakum aameen ❤❤❤❤❤❤Allah bless you ❤❤❤❤❤i am inspiring to your sermon ❤❤❤❤❤i will obey ❤❤❤i am listening your islamic debate ❤❤❤❤❤i am following up your footsteps ❤❤❤❤
الحمدللہ رب العالمین بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اللھم صلی اللہ علی محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لا اله الا الله وحده لأ شريك له له الملك و له الحمد وهو على كل شيء قدير الحمدلله و سبحان الله ولا اله الا الله والله اكبر ولا حول ولا قوة الا بالله. اللهم اغفرلى بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اللھم صلی اللہ سید نا محمد و علی سیدنا محمد صلوة تنجينا بھا من جميع الا ھوال والا فات وتقضی لنا بھا جميع الحاجات وتطھرنا بھا من جميع السيات و ترفعنابھا عندك اعلى الدرجات و تبلغنا بها اقصى الغيات من جميع الخيرت فى الحيات و بعد الممات انك مجيب الدعوات ورافع الدرجات ويا قاضى الحاجات و يا كا فى المهمات ويا دافع البليات و يا حل المشكلات اغثنى اغثنى اغثنى يا الهى انك على كل شى ء قدير عدد خلقه بعدد قطرات المطار ان شاءالله بسم الله الرحمن الرحيم اللهم صلى على سيدنا ومولانا محمد صاحب التاج والمعراج والبراق والعلم دافع البلا ء و الوباء والقحط والمرض والا لم اسمه مکتوب مرفوع مشفوع منقوش فی اللوح والقلم سيد العرب والعجم جسمه مقدس معطر مطهر منور فى البيت والحرم شمس الضحى بدر الدجى صدرالعلى نور الهدى کھف الورى مصباح الظلم جميل الشيم شفيع الا مم صاحب الجود والكرم والله عاصمه وجبريل خادمه والبراق مركبه والمعراج سفره و سدرة المنتهى مقامه وقاب قوسين مطلوبه والمطلوب مقصوده والمقصود موجوده سيد المرسلين خاتم النبين شفيع المزنبين انيس الغريبين رحمةللعلمين راحة العاشقين مراد المشتاقين شمس العارفين سراج السا لكين مصباح المقربين محب الفقراء والغربا ء والمسا كين سيد اثقلين نبى الحرمين امام القبلتين وسيلتنا فى الدارين صاحب قاب قوسين محبوب رب المشرقين و رب المغربين جدالحسن والحسين مولنا ومولى الثقلين ابى القاسم محمد بن عبدالله نور من نور الله يايها المشتاقون بنورجماله صلواعليه واله واصحابه وسلموا تسليما عدد خلقه بعدد قطرات المطار ان شاءالله میری تمام لکھی کی دعائیں التجائیں آج ہی عافیت کے ساتھ ہمیشہ کے لیے قبول ہو جائیں آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم ان شاءاللہ عزوجل الحمدلله رب العلمين بسم الله الرحمن الرحيم الهم صلى الله على محمد صلى تعالى عليه واله وسلم بسم الله ارقيك والله يشفيك من كل داءفيك من شر النفاثات فى العقد ومن شر حاسد اذا حسد صلى الله على محمد صلى الله تعالى عليه واله وسلم عدد خلقه بعدد قطرات المطار ان شاءالله الحمدلله رب العلمين بسم الله الرحمن الرحيم مولاى صل وسلم دائما ابدا على حبيبك خير الخلق كلهم محمد سيد الكونين والثقتلين فمبلع العلم فيه انه بشر والفريقين من عرب ومن عجم وانه خير خلق الله كلهم هو الحبيب الذى ترجى شفاعته كانما سطرت سطر لما كتبت لكل هول من الا هوال مقتحم فروعها من بديع الخط فى اللقم دعا الى فالمستمسكون به يا اكرم الخلق مالى من الوذبه مستمسكون بحبل غير منفصم سواك عند حلول الحادث العمم فاق النبيين فى خلق وفى خلق فان من جودك الدنيا وضرتها ولم يدا نوه فى علم ولا كرم ومن علومك علم اللوح والقلم وكلهم من رسول الله ملتمس ثم الرضا عن ابى بكروعن عمر غرفا من البحر اورشفا من الديم وعن على وعن عثمان ذى الكرم يا رب با لمصطفى بلغ مقاصدنا واغفرلنا مامضى يا بارى النسم عدد خلقه بعدد قطرات المطار ان شاءالله ان شاءالله ان شاءالله ان شاءالله ان شاءالله میری تمام لکھی کی دعائیں التجائیں آج ہی عافیت عافیت عافیت کے ساتھ ہمیشہ کے لیے قبول ہو جائیں آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان شاءالله وافوض امرى الى الله ان الله بصير بالعباد
@umarwarsi Жыл бұрын
ماشاءاللہ
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(19)فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَهُمَا مَاوٗرِیَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَ قَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَیْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ(20)وَ قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّیْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَ(21)فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍۚ-فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِؕ-وَ نَادٰىهُمَا رَبُّهُمَاۤ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَ اَقُلْ لَّكُمَاۤ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(22)  ترجمۂ کنز العرفان اور اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو پھر اُس میں سے جہاں چاہو کھاؤ اور اُس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ حد سے بڑھنے والوں میں سے ہو جاؤگے۔ پھر شیطان نے انہیں وسوسہ ڈالا تاکہ ان پر ان کی چھپی ہوئی شرم کی چیزیں کھول دے اور کہنے لگا تمہیں تمہارے رب نے اس درخت سے اسی لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ بن جاؤ۔اور ان دونوں سے قسم کھاکر کہا کہ بیشک میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں ۔ تو وہ دھوکہ دے کر ان دونوں کو اُتار لایا پھر جب انہوں نے اس درخت کا پھل کھایا تو ان کی شرم کے مقام ان پر کھل گئے اور وہ جنت کے پتے ان پر ڈالنے لگے اور انہیں ان کے رب نے فرمایا: کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اور میں نے تم سے یہ نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟  تفسیر صراط الجنان { وَ یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ: اور اے آدم! تم رہو ۔}اس آیت اور بعد والی چند آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شیطان کو ذلیل و رسوا کر کے جنت سے نکال دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا کہ آپ اور آپ کی بیوی حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا جنت میں رہو اور جنتی پھلوں میں سے جہاں چاہو کھاؤ لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا۔ وہ درخت گندم تھا یا کوئی اور، ( جو بھی رب تعالیٰ کے علم میں ہے ۔) شیطان نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کو وسوسہ ڈالا چنانچہ ابلیس ملعون نے اللہ تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھاتے ہوئے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: ’’اس درخت میں یہ تاثیر ہے کہ اس کا پھل کھانے والا فرشتہ بن جاتا ہے یا ہمیشہ کی زندگی حاصل کرلیتا ہے اور اس کے ساتھ ممانعت کی کچھ تاویلیں کرکرا کے دونوں کو اس درخت سے کھانے کی طرف لے آیا۔ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دل میں چونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام کی عظمت انتہا درجے کی تھی اس لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو گمان بھی نہ تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھا کر کوئی جھوٹ بھی بول سکتا ہے نیز جنت قربِ الہٰی کا مقام تھا اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی اُس مقامِ قرب میں رہنے کا اشتیاق تھا اور فرشتہ بننے یا دائمی بننے سے یہ مقام حاصل ہوسکتا ہے لہٰذا آپ نے شیطان کی قسم کا اعتبار کر لیا اور ممانعت کو محض تنزیہی سمجھتے ہوئے یا خاص درخت کی ممانعت سمجھتے ہوئے اسی جنس کے دوسرے درخت سے کھالیا۔ اس کے کھاتے ہی جنتی لباس جسم سے جدا ہوگئے اور پوشیدہ اعضاء ظاہر ہوگئے۔ جب بے سَتری ہوئی تو ان بزرگوں نے انجیر کے پتے اپنے جسم شریف پر ڈالنے شروع کر دئیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا: ’’ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اور میں نے تم سے یہ نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟ دونوں نے عرض کی: اے ہمارے رب !عَزَّوَجَلَّ،ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم و حوا !تم اپنی ذریت کے ساتھ جو تمہاری پیٹھ میں ہے جنت سے اترجاؤ ،تم میں ایک دوسرے کا دشمن ہے اور تمہارے لئے زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور دنیاوی زندگی سے نفع اٹھانا ہے۔ { وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ: اور وہ دونوں چپٹانے لگے۔} حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکے لباس جدا ہوتے ہی دونوں کا پتوں کے ساتھ اپنے بدن کو چھپانا شروع کردینا اس بات کی دلیل ہے کہ پوشیدہ اعضاء کا چھپانا انسانی فطرت میں داخل ہے۔ لہٰذا جو شخص ننگے ہونے کو فطرت سمجھتا ہے جیسے مغربی ممالک میں ایک طبقے کا رجحان ہے تو وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی فطرتیں مَسخ ہوچکی ہیں۔
وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(73)وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ وَّ بَوَّاَكُمْ فِی الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا وَّ تَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًاۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(74)قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-قَالُوْۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ(75)قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا بِالَّذِیْۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ(76)فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَ قَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(77)فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ(78)فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰـكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ(79)  ترجمۂ کنز العرفان اور قومِ ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا۔ صالح نے فرمایا :اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ۔ بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن نشانی آگئی۔ تمہارے لئے نشانی کے طور پر اللہ کی یہ اونٹنی ہے۔ توتم اسے چھوڑے رکھو تاکہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگاؤ ورنہ تمہیں درد ناک عذاب پکڑ لے گا۔اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قومِ عاد کے بعد جانشین بنایا اور اس نے تمہیں زمین میں ٹھکانا دیا ، تم نرم زمین میں محلات بناتے تھے اور پہاڑوں کو تراش کر مکانات بناتے تھے تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔ اس کی قوم کے متکبر سردارکمزور مسلمانوں سے کہنے لگے: کیا تم جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کا رسول ہے؟ انہوں نے کہا: بیشک ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں جس کے ساتھ انہیں بھیجا گیا ہے۔متکبر بولے : بیشک ہم اس کا انکار کرنے والے ہیں جس پر تم ایمان لائے ہو۔پس (کافروں نے) اونٹنی کی ٹانگوں کی رگوں کو کاٹ دیا اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے: اے صالح! اگر تم رسول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے رہتے ہو۔ تو انہیں زلزلے نے پکڑ لیا تو وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ تو صالح نے ان سے منہ پھیرلیا اور فرمایا: اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(85)  ترجمۂ کنز العرفان اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا : انہوں نے فرمایا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آگئی تو ناپ اور تول پورا پورا کرو اور لوگوں کوان کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان لاؤ۔  تفسیر صراط الجنان { وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا ۔} مدین حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قبیلے کا نام ہے اور ان کی بستی کا نام بھی مدین تھا، اس بستی کا نام مدین اس لئے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد میں سے تھے، مدین اور مصر کے درمیان اَسّی دن کے سفر کی مقدار فاصلہ تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ہیں۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دادی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیٹی تھیں ، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اہلِ مدین کے ہم قوم تھے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انبیاءِ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۵، ۲ / ۱۱۸، تفسیر صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۵، ۲ / ۶۹۱،ملتقتاً) { قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ:بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آگئی۔} اس آیت سے ثابت ہوا کہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معجزہ لے کر آئے تھے البتہ قرآنِ پاک میں معین نہیں کیا گیا کہ ان کا معجزہ کیا اور کس قسم کا تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بکریاں تحفے میں دے کر فرمایا ’’یہ بکریاں سفید اور سیاہ بچے جنیں گی۔ چنانچہ جیسے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ویسے ہی ہوا۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۵، ۴ / ۳۳۹) { فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ: تو ناپ اور تول پورا پورا کرو۔} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم میں شرک کے علاوہ بھی جو گناہ عام تھے ان میں سے ایک ناپ تول میں کمی کرنا اور دوسرا لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا اور تیسرا لوگوں کو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دور کرنے کی کوششیں کرنا تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی کرنے اور لوگوں کو ان کی اشیاء گھٹا کر دینے سے منع کیا اور زمین میں فساد کرنے سے روکا کیونکہ ا س بستی میں اللہ تعالیٰ کے نبی تشریف لے آئے اور انہوں نے نبوت کے احکام بیان فرما دئیے تو یہ بستی کی اصلاح کا سب سے قوی ذریعہ ہے لہٰذا اب تم کفر و گناہ کر کے فساد برپا نہ کرو۔ کفار بھی بعض احکام کے مُکَلَّف ہیں : اس سے معلوم ہوا کہ بعض احکام کے کفار بھی مکلف ہیں کیونکہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی کافر قوم کو ناپ تول درست کرنے کا حکم دیا اور نہ ماننے پر عذابِ الٰہی آگیا، بلکہ قیامت میں کافروں کو نمازچھوڑنے پر بھی عذاب ہو گا جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے کہ جب جنتی کافروں سے پوچھیں گے کہ تمہیں کیا چیز جہنم میں لے گئی تو وہ کہیں کے: ’’ لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ ‘‘(مدثر۴۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے۔ ناپ تول پورا نہ کرنے والوں کے لئے وعید: حضرت نافع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ایک بیچنے والے کے پاس سے گزرتے ہوئے یہ فرما رہے تھے: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈر! اور ناپ تول پورا پورا کر! کیونکہ کمی کرنے والوں کو میدانِ محشر میں کھڑا کیا جائے گا یہاں تک کہ ان کا پسینہ ان کے کانوں کے نصف تک پہنچ جائے گا۔ (بغوی، المطففین، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۴۲۸) آگ کے دوپہاڑ: حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ارشاد فرماتے ہیں : ’’میں ایک مرتبہ اپنے پڑوسی کے پاس گیا تو اس پر موت کے آثار نمایا ں تھے اور وہ کہہ رہاتھا: ’’آگ کے دو پہاڑ، آگ کے دو پہاڑ۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ، میں نے اس سے پوچھا: کیا کہہ رہے ہو؟ تو اس نے بتایا: اے ابو یحییٰ! میرے پاس دو پیمانے تھے، ایک سے دیتا اور دوسرے سے لیتا تھا۔ حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’میں اٹھا اور ایک پیمانے کو دوسرے پر ( توڑنے کی خاطر) مارنے لگ گیا۔ تواس نے کہا: ’’اے ابو یحییٰ! جب بھی آپ ایک کو دوسرے پر مارتے ہیں معاملہ زیادہ شدید اور سخت ہو جاتا ہے۔ پس وہ اسی مرض میں مر گیا۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، الباب الثانی فی الکبائر الظاہرۃ، الکبیرۃ الثالثۃ بعد المائتین، ۱ / ۵۳۳) اللہ تعالیٰ ہمیں ناپ تول میں کمی کرنے سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
@mohdabdullah1974 Жыл бұрын
Ya Rasool Allah
@studiotaiba870611 ай бұрын
یا رسولالل٘ہﷺ
@studiotaiba870611 ай бұрын
یا رسول الل٘ہ ﷺ
@RanaAli-fl4ss Жыл бұрын
Ameen 🤲 Ameen sum Ameen
@mahiboobtamboli7713 Жыл бұрын
Subhanallah
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰى یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ(40)  ترجمۂ کنز العرفان بیشک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان کے مقابلے میں تکبر کیا توان کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں داخل نہ ہوں گے حتّٰی کہ سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل ہو جائے اور ہم مجرموں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔  تفسیر صراط الجنان { اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا:بیشک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والوں اور ان سے تکبر کرنے والوں کی سزا جہنم میں ہمیشہ رہنا بیان ہوئی اوراس آیت میں اس ہمیشگی کی کیفیت کا بیان ہے ،پہلی یہ کہ ان کیلئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے۔ کفار کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جانے کے معنی: اس کا ایک معنی یہ ہے کہ کفار کے اعمال اور ان کی ارواح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے کیونکہ اُن کے اعمال و ارواح دونوں خبیث ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ کفار کی ارواح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے اور مؤمنین کی ارواح کے لئے کھولے جاتے ہیں۔ ابن جُرَیْج نے کہا کہ آسمان کے دروازے نہ کافروں کے اعمال کے لئے کھولے جائیں گے نہ ارواح کے لئے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۹۳) یعنی نہ زندگی میں ان کا عمل آسمان پر جاسکتا ہے نہ موت کے بعد ان کی روح جا سکتی ہے ۔ مرنے کے بعد مومن اور کافر کی روح کو آسمان کی طرف لے جانے اور مومن کی روح کے لئے آسمان کے دروازے کھلنے اور کافر کی روح کے لئے نہ کھلنے کاذکر حدیثِ پاک میں بھی ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’روح نکلتے وقت میت کے پاس فرشتے آتے ہیں ، اگر وہ مومن کی روح ہے تو اس سے کہتے ہیں : اے پاک روح! پاک جسم سے نکل آ کیونکہ تونیک ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے خوش ہو جا، جنت کی خوشبو اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا مندی سے خوش ہو جا، فرشتے روح نکلنے تک یہی کہتے رہتے ہیں ، جب روح نکل آتی ہے تو اسے لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں ، جب آسمان کے قریب پہنچتے ہیں تو آسمان کے فرشتے کہتے ہیں : یہ کون ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں ’’فلاں شخص کی روح ہے۔ آسمانی فرشتے کہتے ہیں ’’مرحبا، مرحبا، اے پاک روح ! پاک جسم میں رہنے والی ، تو خوش ہو کر (آسمانوں میں ) داخل ہو جا اور خوشبو اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا سے خوش ہو جا، ہر آسمان پر اسے یہی کہا جاتا ہے ،حتّٰی کہ وہ روح عرش تک پہنچ جاتی ہے ۔اگر کسی برے بندے کی روح ہوتی ہے تو کہتے ہیں ’’اے ناپاک جسم کی روح! بری حالت کے ساتھ آ، گرم پانی اور پیپ کی اور اس کے ہم شکل دوسرے عذابوں کی بشارت حاصل کر۔وہ روح نکلنے تک یہی کہتے رہتے ہیں ، پھر اسے لے کر آسمان کی جانب چلتے ہیں تو اس کے لئے آسمان کا دروازہ نہیں کھولا جاتا، آسمان کے فرشتے دریافت کرتے ہیں : ’’یہ کون ہے؟ روح لے جانے والے فرشتے کہتے ہیں ’’یہ فلاں شخص کی روح ہے، آسمانی فرشتے جواب دیتے ہیں ’’اس خبیث روح کو جو خبیث جسم میں تھی کوئی چیز مبارک نہ ہو، اسے ذلیل کر کے نیچے پھینک دو تو وہ اسے آسمان سے نیچے پھینک دیتے ہیں پھر وہ قبر میں لوٹ آتی ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ، ۴ / ۴۹۷، الحدیث: ۴۲۶۲) کفار کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جانے کا دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ خیر و برکت اور رحمت کے نزول سے محروم رہتے ہیں۔ (تفسیرکبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۰، ۵ / ۲۴۰) قرآنِ پاک میں ہے: ’’ وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ‘‘ (اعراف:۹۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر بستیو ں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے مگر انہوں نے تو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے (عذاب میں ) گرفتار کردیا۔ { وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ : اور وہ جنت میں داخل نہ ہوں گے۔} اس آیت میں ہمیشگی کی دوسری کیفیت کا بیان ہوا چنانچہ فرمایا گیا کہ کفار تب تک جنت میں داخل نہ ہوں گے جب تک سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل نہ ہو جائے اور یہ بات چونکہ محال ہے تو کفار کا جنت میں داخل ہونا بھی محال ہے کیونکہ محال پر جو موقوف ہو وہ خود محال ہوتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ کفار کا جنت سے محروم رہنا قطعی ہے۔ یاد رہے کہ اس آیت میں مجرمین سے کفار مراد ہیں کیونکہ اُوپر ان کی صفت میں اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے اور ان سے تکبر کرنے کا بیان ہوچکا ہے۔
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
قَالَ ادْخُلُوْا فِیْۤ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ فِی النَّارِؕ-كُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَاؕ-حَتّٰۤى اِذَا ادَّارَكُوْا فِیْهَا جَمِیْعًاۙ-قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰۤؤُلَآءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ﱟ-قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّ لٰـكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ(38)  ترجمۂ کنز العرفان اللہ ان سے فرمائے گا کہ تم سے پہلے جوجنوں اور آدمیوں کے گروہ آگ میں گئے ہیں تم بھی ان میں داخل ہوجاؤ ۔جب ایک گروہ (جہنم میں ) داخل ہوگا تو دوسرے (گروہ) پر لعنت کرے گا حتّٰی کہ جب سب اس میں جمع ہوجائیں گے تو ان میں بعد والے پہلے والوں کے لئے کہیں گے : اے ہمارے رب! انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا تو تو انہیں آگ کا دگنا عذاب دے۔ اللہ فرمائے گا: سب کے لئے دُگنا ہے لیکن تمہیں معلوم نہیں ۔  تفسیر صراط الجنان { قَالَ:فرماتا ہے۔} اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کافروں سے فرمائے گا کہ تم سے پہلے جوجنوں اور آدمیوں کے گروہ آگ میں گئے ہیں تم بھی ان میں داخل ہوکر جہنم میں چلے جاؤ۔ جب ایک دین سے تعلق رکھنے والا ایک گروہ جہنم میں داخل ہوگا تواپنے ہم دین دوسرے گروہ پر لعنت کرے گا یعنی ہر قسم کا کافر اپنی قسم کے کافر کو لعنت کرے گا۔ مشرک مشرکوں پر لعنت کریں گے، یہودی یہودیوں پر اور عیسائی عیسائیوں پر لعنت کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت میں ہر ایک اس ہی کے ساتھ ہو گا جس سے دل کا تعلق ہو گا، زمانہ اور جگہ ایک ہو یا مختلف۔ { قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ: بعد والے پہلے والوں کے لئے کہیں گے۔} جب سب جہنم میں جمع ہوجائیں گے تو بعد والے یعنی پیروکار پہلے والوں یعنی گمراہ کرنے والوں کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کریں گے: اے ہمارے رب! انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا تو تو انہیں آگ کا دگنا عذاب دے۔ جواب ملے گا کہ سب کیلئے دگنا عذاب ہے اور سب کو مسلسل عذاب ہوتا رہے گا لیکن تمہیں ایک دوسرے کا عذاب معلوم نہیں۔
@saimakhan256 Жыл бұрын
آمین ثم آمین
@PayalKhan-pf4vi5 ай бұрын
Mashalah ❤❤❤❤❤❤
@BhattisahibBhatti-i2s4 ай бұрын
Duniya me imam e Azam Abu hanifa ne ALLAH ka dedar kia hy khwab me 100 martba
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(70)قَالَ قَدْ وَ قَعَ عَلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَّ غَضَبٌؕ-اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْۤ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍؕ-فَانْتَظِرُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ(71)  ترجمۂ کنز العرفان قوم نے کہا: کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور جن چیزوں کی عبادت ہمارے باپ داداکیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں ۔ اگر تم سچے ہو تو لے آؤ وہ (عذاب) جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔ فرمایا: بیشک تم پر تمہارے رب کا عذاب اور غضب لازم ہوگیا۔ کیا تم مجھ سے ان ناموں کے بارے میں جھگڑ رہے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں ، جن کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اتاری تو تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ۔  تفسیر صراط الجنان { قَدْ وَ قَعَ عَلَیْكُمْ:ضرور تم پر لازم ہو گیا۔} حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ تم پر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا غضب لازم ہوگیا اور تمہاری سرکشی سے تم پر عذاب آنا واجب و لازم ہوگیا۔ کیاتم فضول ناموں یعنی بتوں کے بارے میں جھگڑتے ہو جنہیں تمہارے باپ دادا نے گھڑ لیا اور انہیں پوجنے لگے اور معبود ماننے لگے حالانکہ اُن کی کچھ حقیقت ہی نہیں ہے اور وہ اُلُوہِیّت کے معنی سے قطعاً خالی و عاری ہیں۔
@MdImran-x7h1y11 ай бұрын
সুবহানাল্লাহ
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ ضَلٰلَةٌ وَّ لٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ(61)اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنْصَحُ لَكُمْ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(62)اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْ وَ لِتَتَّقُوْا وَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(63)  ترجمۂ کنز العرفان فرمایا: اے میری قوم !مجھ میں کوئی گمراہی نہیں لیکن میں تو ربُّ العالمین کا رسول ہوں۔میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیرخواہی کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ علم رکھتا ہوں جو تم نہیں رکھتے۔ اور کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے تمہیں میں سے ایک مرد کے ذریعے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں ڈرائے اور تاکہ تم ڈرواور تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔  تفسیر صراط الجنان { قَالَ یٰقَوْمِ:کہا اے میری قوم ۔} قوم کے سرداروں کا جہالت و سَفاہَت سے بھرپور جواب سن کر کمالِ خُلق کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جواب دیا کہ’’ اے میری قوم! مجھ میں کوئی گمراہی کی بات نہیں بلکہ میں تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے تمہاری ہدایت کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں کیونکہ جب دنیاوی بادشاہ کسی ناتجربہ کار اور جاہل کو اپنا وزیر نہیں بناتا یا کوئی اہم عہدہ نہیں سونپتاتواللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی جو سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے وہ کیسے کسی بے وقوف یا کم علم کو منصبِ نبوت سے سرفراز فرما سکتا ہے اور میرا کام تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پیغامات تم تک پہنچانا اور تمہاری بھلائی چاہنا ہے۔ نبوت اور گمراہی جمع نہیں ہو سکتی: آیت نمبر61 سے معلوم ہوا کہ نبوت اور گمراہی دونوں جمع نہیں ہو سکتیں اور کوئی نبی ایک آن کے لئے بھی گمراہ نہیں ہو سکتے ۔ اگر نبی ہی گمراہ ہوں تو پھر انہیں ہدایت کون کرے گا۔ مبلغ کو چاہیے کہ مخاطب کی جہالت پر شفقت و نرمی کا مظاہرہ کرے: حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی بکواس اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جواب کی طرف نظر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نہایت حلیم و کریم بزرگ تھے کہ انتہائی بدتمیزی کے ساتھ دئیے گئے جواب کے مقابلے میں نہایت شفقت و محبت اور خیرخواہی کے ساتھ جواب عطا فرما رہے ہیں اور یہ وہی تعلیم ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرمائی تھی۔ چنانچہ فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا : ’’فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى‘‘ (طہ:۴۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: توتم اس سے نرم بات کہنا اس امید پر کہ شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا (اللہ سے)ڈرجائے۔ اور یہ وہی حکم ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمیں ارشاد فرمایا ہے: ’’ اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ‘‘ (النحل:۱۲۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو جو سب سے اچھا ہو ،بیشک تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے گمراہ ہوا اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔ اس سے مبلغین کو بھی درس حاصل کرنا چاہیے کہ مخاطب کی جہالت پر برانگیختہ ہونے کی بجائے حتی الامکان نرمی اور شفقت کے ساتھ جواب دیا جائے ۔
@khursheedbegum862711 ай бұрын
Verynicebayanhaisubhanllah❤❤❤❤
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖؕ-اُولٰٓىٕكَ یَنَالُهُمْ نَصِیْبُهُمْ مِّنَ الْكِتٰبِؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَتْهُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَهُمْۙ-قَالُوْۤا اَیْنَ مَا كُنْتُمْ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ(37)  ترجمۂ کنز العرفان تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا یا اس کی آیتیں جھٹلائیں ؟ تو انہیں ان کا لکھا ہوا حصہ پہنچتا رہے گا حتّٰی کہ جب ان کے پاس ان کی جان قبض کرنے کے لئے ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) آتے ہیں تو وہ (فرشتے ان سے) کہتے ہیں : وہ کہاں ہیں جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کیا کرتے تھے؟ وہ (جواباً) کہتے ہیں : وہ ہم سے غائب ہوگئے اور اپنی جانوں پر آپ گواہی دیتے ہیں کہ وہ کافر تھے۔  تفسیر صراط الجنان { فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ:تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ۔} یعنی اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف وہ بات منسوب کرے جو اس نے ارشاد نہیں فرمائی یا جو اس نے ارشاد فرمایا اسے جھٹلائے۔ اللہ تعالیٰ پر اِفتراء کی صورتیں : اللہ تعالیٰ پر افتراء کی مختلف صورتیں ہیں (1) بتوں یا ستاروں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہرانا۔ (2) یزدان اور اہرمن دو خدا قرار دینا۔ (3) اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹے یا بیٹیاں ٹھہرانا۔ (4) باطل احکام کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا۔ آیات کو جھٹلانے سے مراد یہ ہے کہ قرآنِ پاک کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کتاب نہ ماننا اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کرنا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۵ / ۲۳۶) { یَنَالُهُمْ نَصِیْبُهُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ:انہیں ان کے نصیب کا لکھا پہنچے گا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ لوحِ محفوظ یا ان کے نَوشتہِ تقدیر میں جتنی عمر اور روزی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مشرکین کے لئے لکھ دی ہے وہ ان کو پہنچے گی حتّٰی کہ جب اِن کے پاس اِن لوگوں کی عمریں اور روزیاں پوری ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے ملکُ الموت اور اُن کے معاونین ان کی جان قبض کرنے کیلئے آتے ہیں تووہ فرشتے ان مشرکین سے کہتے ہیں : تمہارے وہ جھوٹے معبود کہاں ہیں جن کی تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا عبادت کیا کرتے تھے؟ مشرکین اس کے جواب میں کہتے ہیں : وہ ہم سے غائب ہوگئے ان کا کہیں نام و نشان ہی نہیں۔ چنانچہ بت نہ تو کافروں کو موت کے وقت کسی عذاب سے بچا سکیں گے اور نہ آخرت میں۔
@rabiaseller47337 ай бұрын
Subhanallah ❤ ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِكُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰىنَا اللّٰهُ مِنْهَاؕ-وَ مَا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْهَاۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّنَاؕ-وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًاؕ-عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَاؕ-رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ(89)  ترجمۂ کنز العرفان بیشک (پھر تو) ضرور ہم اللہ پر جھوٹ باندھیں گے اگر اس کے بعد بھی ہم تمہارے دین میں آئیں جبکہ اللہ نے ہمیں اس سے بچایا ہے اور ہم مسلمانوں میں کسی کا کام نہیں کہ تمہارے دین میں آئے مگر یہ کہ ہمارا رب اللہ چاہے۔ ہمارے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے، ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا۔ اے ہمارے رب! ہم میں اور ہماری قوم میں حق کے ساتھ فیصلہ فرمادے اور تو سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔  تفسیر صراط الجنان { اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِكُمْ:اگر ہم تمہارے دین میں آجائیں۔} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کا جواب سن کر ان سے فرمایا تھا کہ’’کیا ہم تمہارے دین میں آئیں اگرچہ ہم اس سے بیزار ہوں ؟ اس پر انہوں نے کہا :ہاں پھر بھی تم ہمارے دین میں آ جاؤ ، تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہارے اس باطل دین سے ہمیں بچایا ہوا ہے اور تمہارے باطل دین کی قباحت اور اس کے فساد کا علم دے کر مجھے شروع ہی سے کفر سے دور رکھا اور میرے ساتھیوں کو کفر سے نکال کر ایمان کی توفیق دے دی ہے تو اگر اس کے بعد بھی ہم تمہارے دین میں آئیں تو پھر بیشک ضرور ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھنے والوں میں سے ہوں گے اور ہم میں کسی کا کام نہیں کہ تمہارے دین میں آئے مگر یہ کہ ہمارا رب اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی کو گمراہ کرناچاہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ شیطان انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو گمراہ نہیں کر سکتا: یاد رہے کہ گمراہ ہونے سے نبی عَلَیْہِ السَّلَام خارج ہیں کیونکہ وہ قَطعی معصوم ہوتے ہیں اور شیطان انہیں گمراہ نہیں کر سکتا ۔ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: ’’ اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ‘‘(حجر:۴۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک میرے بندوں پر تیرا کچھ قابو نہیں۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ فرمان کہ’’ ہمارا رب اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔‘‘ در حقیقت اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت کے آگے سرِ تسلیم خَم کرنا ہے۔ { وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا:ہمارے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔} یعنی جو ہو چکا اور جو آئندہ ہو گا سب چیزوں کو اللہ تعالیٰ اَزل سے ہی جانتا ہے لہٰذا سعادت مند وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں سعید ہے اور بد بخت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں شَقی ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۱۲۰) یہ آیت ان آیات کی تفسیر ہے جن میں فرمایا گیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے، یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کا علم اور اس کی قدرت گھیرے ہوئے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ جسم و مکان سے اور اس اعتبار سے گھیرنے اور گھر نے سے پاک ہے۔ اس کی مزید تفصیل سورۂ نساء کی آیت نمبر126کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ { عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا:ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا۔} یعنی ہم نے ایمان پر ثابت قدم رہنے اور شریر لوگوں سے خلاصی پانے میں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کیا ۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۹، ۳ / ۲۰۳) توکل کاحقیقی مفہوم: توکل کا مفہوم یہ ہے کہ اسباب پر اعتماد کرتے ہوئے نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے، توکل ترک ِاسباب کا نام نہیں بلکہ اسباب اختیار کرتے ہوئے مُسَبِّبُ الاسباب پر اعتماد کرنے کا نام ہے۔ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ایک شخص نے عرض کی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں اونٹنی کو باندھ کر توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ کر توکل کروں ؟ ارشاد فرمایا: ’’اسے باندھ کر توکل کرو۔ (ترمذی، کتاب صفۃ یوم القیامۃ، ۶۰-باب، ۴ / ۲۳۲، الحدیث: ۲۵۲۵) { رَبَّنَا:اے ہمارے رب۔} جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قوم کے ایمان لانے کی امید نہ رہی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یوں دعا فرمائی ’’ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ ‘‘ اے ہمارے رب! ہم میں اور ہماری قوم میں حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے اور تو سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔ زجاج نے کہا کہ اس کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمارے امر کو ظاہر فرما دے ، اس سے مراد یہ ہے کہ ان پر ایسا عذاب نازل فرما جس سے ان کا باطل پر ہونا اور حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے مُتَّبِعِین کا حق پر ہونا ظاہر ہو۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۱۲۰)
@ainodinshaikh16 Жыл бұрын
Mashalallah
@muhammadsaim4026 Жыл бұрын
😍😍😍😍🥰
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ كَمْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا فَجَآءَهَا بَاْسُنَا بَیَاتًا اَوْ هُمْ قَآىٕلُوْنَ(4)  ترجمۂ کنز العرفان اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا تو ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آیا، یا (جب) وہ دوپہر کو سورہے تھے۔  تفسیر صراط الجنان {وَ كَمْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا:اور کتنی ہی بستیاں ہم نے ہلاک کیں۔} اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلی آیات میں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ڈر سنانے اور تبلیغ جاری رکھنے کا حکم فرمایا اور امت کو قرآنِ پاک کی پیروی کا حکم دیا، اب حکمِ الٰہی کی پیروی چھوڑ دینے اور اس سے اعراض کرنے کے نتائج پچھلی قوموں کے انجام کی صورت میں بتائے جا رہے ہیں۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا تو ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آیا یاجب وہ دوپہر کو سورہے تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا عذاب ایسے وقت آیا جب کہ انہیں خیال بھی نہ تھا یا تو رات کا وقت تھا اور وہ آرام کی نیند سوتے تھے یا دن میں قَیلولہ کا و قت تھا اور وہ مصروفِ راحت تھے۔ نہ عذاب کے نزول کی کوئی نشانی تھی اور نہ کوئی قرینہ کہ پہلے سے آگاہ ہوتے بلکہ اچانک آگیا اور وہ بھاگنے کی کوشش بھی نہ کرسکے۔ اس سے کفار کو مُتَنَبِّہ کیا جارہا ہے کہ وہ اسباب ِامن و راحت پر مغرور نہ ہوں عذابِ الٰہی جب آتا ہے تو دفعۃً آجاتا ہے۔
@tasneemkhan19117 ай бұрын
Subhanallah 🕋🕋🕋🤲🤲🤲
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ اِذَا صُرِفَتْ اَبْصَارُهُمْ تِلْقَآءَ اَصْحٰبِ النَّارِۙ-قَالُوْا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(47)وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا یَّعْرِفُوْنَهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ قَالُوْا مَاۤ اَغْنٰى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَ مَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ(48)  ترجمۂ کنز العرفان اور جب ان اعراف والوں کی آنکھیں جہنمیوں کی طرف پھیری جائیں گی تو کہیں گے : اے ہمارے رب! ہمیں ظالموں کے ساتھ نہ کرنا۔ اور اعراف والے کچھ مردوں کو پکار کر کہیں گے جنہیں ان کی پیشانیوں سے پہچانتے ہوں گے : تمہاری جماعت اور جو تم تکبر کرتے تھے وہ تمہیں کام نہ آیا۔  تفسیر صراط الجنان { وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا:اور اعراف والے کچھ مردوں کو پکاریں گے۔} جب اعراف والوں کی آنکھیں جہنمیوں کی طرف پھیر دی جائیں گی اس وقت کفار جو کہ دنیا میں تو سردار تھے اور قیامت میں جہنم کے باسی ،ان کی پیشانیوں پر جہنمی ہونے کی علامات موجود ہوں گی جس سے اعراف والے انہیں پہچانتے ہوئے پکاریں گے ’’تمہاری جماعت اور جو تم تکبر کرتے تھے وہ تمہیں کام نہ آیا۔
@MdJishan-og3ue Жыл бұрын
Mashallah
@umarwarsi Жыл бұрын
❤❤
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ۪-وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ(86)  ترجمۂ کنز العرفان اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کے راستے سے ایمان لانے والوں کو روکو اور تم اس میں ٹیڑھا پن تلاش کرو اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے تواس نے تمہاری تعداد میں اضافہ کردیا اور دیکھو ، فسادیوں کا کیسا انجام ہوا؟۔  تفسیر صراط الجنان { وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ:اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو ۔} یہ لوگ مدین کے راستوں پر بیٹھ جاتے تھے اور ہر راہ گیر سے کہتے تھے کہ مدین شہر میں ایک جادوگر ہے یہ بھی کہا گیا کہ ان کے بعض لوگ مسافروں پر ڈکیتیاں ڈالتے تھے۔ { وَ اذْكُرُوْا:اور یاد کرو۔}تم تھوڑے تھے تمہیں بہت کر دیا، غریب تھے امیر کر دیا، کمزور تھے قوی کر دیا ان نعمتوں کا تقاضا ہے کہ تم اس کا شکریہ ادا کرو کہ مجھ پر ایمان لاؤ۔ { وَ انْظُرُوْا:اور دیکھو۔} یعنی پچھلی اُمتوں کے احوال اور گزرے ہوئے زمانوں میں سرکشی کرنے والوں کے انجام و مآل عبرت کی نگاہ سے دیکھو اور سوچو۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ کلام بھی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے۔ آپ اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ اپنے سے پہلی امتوں کے تاریخی حالات معلوم کرنا ،قوم کے بننے بگڑنے سے عبرت پکڑنا حکمِ الٰہی ہے۔ ایسے ہی بزرگانِ دین کی سوانح عمریاں اور خصوصاً حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت ِ طیبہ کا مطالعہ بہترین عبادت ہے اس سے تقویٰ، رب عَزَّوَجَلَّ کا خوف اور عبادت کا ذوق پیدا ہو تا ہے۔
@waseemakram728310 ай бұрын
Assalamualaikum Hazrat
@MustakKhan-zz5qf Жыл бұрын
Mashaalkah subhhanallah
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ هُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖؕ-حَتّٰۤى اِذَاۤ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِهِ الْمَآءَ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِؕ-كَذٰلِكَ نُخْرِ جُ الْمَوْتٰى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(57)  ترجمۂ کنز العرفان اور وہی ہے جو ہواؤں کو اس حال میں بھیجتا ہے کہ اس کی رحمت کے آگے آگے خوشخبری دے رہی ہوتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں بھاری بادل کو اٹھا لاتی ہیں تو ہم اس بادل کو کسی مردہ شہر کی طرف چلاتے ہیں پھر اس مردہ شہر میں پانی اتارتے ہیں تو اس پانی کے ذریعے ہر طرح کے پھل نکالتے ہیں ۔ اسی طرح ہم مُردوں کو نکالیں گے۔ (یہ بیان اس لئے ہے) تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔  تفسیر صراط الجنان { وَ هُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ:اور وہی ہے کہ ہوائیں بھیجتا ہے۔}اس سے دو آیات پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے چند دلائل بیان فرمائے گے جیسے آسمان و زمین کی پیدائش، دن اور رات کا ایک دوسرے کے پیچھے آنا، سورج ،چاند اور ستاروں کا مُسَخَّر ہونا، اب اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی عظمت ، قدرت ،وحدانیت اور وقوعِ قیامت پر مزید دلائل بیان فرمائے جا رہے ہیں۔اس آیت کا خلاصہ یہ ہے’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کیسی عظیم قدرت ہے کہ وہ پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے جو اس کی رحمت یعنی بارش آنے کی خوشخبری دے رہی ہوتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں سمندر سے بھاری بادل کو اٹھا لاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس بادل کو کسی مردہ شہر کی طرف چلاتا ہے جس کی ز مین خشک پڑی ہوتی ہے اورسبزے کا نام و نشان نہیں ہوتا پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ اس مردہ زمین پر پانی اتارتا ہے اوراس پانی کے ذریعے وہاں سبزہ پیدا فرمادیتا ہے، وہاں پھل پھول اگتے ہیں ، وہاں غلہ اناج پیدا ہوتا ہے ۔ وہ مردہ زمین بھی زندہ ہوجاتی ہے اور اس کی پیداوار کے ذریعے لوگوں کی زندگی کا سامان بھی مہیا ہوجاتا ہے ۔ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت ہے اور یہی دلیلِ قدرت اس بات کو ماننے پر بھی مجبور کردیتی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو ویرانی کے بعد زندگی عطا فرماتا ہے اور اس کو سرسبز و شاداب فرماتا ہے اور اس میں کھیتی، درخت، پھل پھول پیدا کرتا ہے ایسے ہی مُردوں کو قبروں سے زندہ کرکے اُٹھائے گا، کیونکہ جو خشک لکڑی سے ترو تازہ پھل پیدا کرنے پر قادر ہے اُس سے مُردوں کا زندہ کرنا کیا بعید ہے۔ قدرت کی یہ نشانی دیکھ لینے کے بعد عقلمند، سلیم ُالحَواس کو مُردوں کے زندہ کئے جانے میں کچھ تردد باقی نہیں رہتا۔
@fatmagems8332 Жыл бұрын
Yaha AALA HAZRAT ka wo sher thik Beth ta h Mere KREEM se gr katra kisi ne manga Darya baha diye h dur be baha diye h
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ بَیْنَهُمَا حِجَابٌۚ-وَ عَلَى الْاَعْرَافِ رِجَالٌ یَّعْرِفُوْنَ كُلًّۢا بِسِیْمٰىهُمْۚ-وَ نَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ- لَمْ یَدْخُلُوْهَا وَ هُمْ یَطْمَعُوْنَ(46)  ترجمۂ کنز العرفان اور جنت و دوزخ کے درمیان میں ایک پردہ ہے اور اعراف پر کچھ مرد ہوں گے جوسب کو ان کی پیشانیوں سے پہچانیں گے اور وہ جنتیوں کو پکاریں گے کہ تم پر سلام ہو ۔یہ اعراف والے خود جنت میں داخل نہ ہوئے ہوں گے اور اس کی طمع رکھتے ہوں گے۔  تفسیر صراط الجنان { وَ بَیْنَهُمَا حِجَابٌ:اور جنت و دوزخ کے بیچ میں ایک پردہ ہے۔} یہ پردہ اس لئے ہے تا کہ دوزخ کا اثر جنت میں اور جنت کا اثر دوزخ میں نہ آسکے اور حق یہ ہے کہ یہ پردہ اعراف ہی ہے چونکہ یہ پردہ بہت اونچا ہو گا اس لئے اسے اعراف کہا جاتا ہے کیونکہ اعراف کا معنیٰ ہے’’ بلند جگہ‘‘۔ اس کا تذکرہ سورۂ حدید میں بھی ہے چنانچہ وہاں فرمایا: ’’ یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِكُمْۚ-قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآءَكُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًاؕ-فَضُرِبَ بَیْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَابٌؕ-بَاطِنُهٗ فِیْهِ الرَّحْمَةُ وَ ظَاهِرُهٗ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ‘‘ (حدید:۱۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مسلمانوں سے کہیں گے کہ ہم پر بھی ایک نظر کردو تاکہ ہم تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں ، کہا جائے گا:تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ تو وہاں نور ڈھونڈو (وہ لوٹیں گے) تو (اس وقت) ان (مسلمانوں اور منافقوں ) کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا (جس سے جنتی جنت میں چلے جائیں گے) اس دروازے کے اندر کی طرف رحمت اور اس کے باہر کی طرف عذاب ہوگا۔ { وَ عَلَى الْاَعْرَافِ رِجَالٌ:اور اعراف پر کچھ مرد ہوں گے۔} یہ مرد کس طبقے کے ہوں گے اس بارے میں اقوال مختلف ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہوں گی وہ اعراف پر ٹھہرے رہیں گے، جب اہلِ جنت کی طرف دیکھیں گے تو انہیں سلام کریں گے اور دوزخیوں کی طرف دیکھیں گے تو کہیں گے یارب! عَزَّوَجَلَّ، ہمیں ظالم قوم کے ساتھ نہ کر۔پھر آخر کار جنت میں داخل کئے جائیں گے۔ (الزہد لابن مبارک، اول السادس عشر، ص۱۲۳، الحدیث: ۴۱۱) ایک قول یہ ہے کہ جو لوگ جہاد میں شہید ہوئے مگر اُن کے والدین اُن سے ناراض تھے وہ اعراف میں ٹھہرائے جائیں گے ۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۹۶) ایک قول یہ ہے کہ جو لوگ ایسے ہیں کہ اُن کے والدین میں سے ایک اُن سے راضی ہو، ایک ناراض وہ اعراف میں رکھے جائیں گے۔ ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ اعراف کا مرتبہ اہلِ جنت سے کم ہے۔ امام مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول یہ ہے اعراف میں صلحاء ،فقراء، علماء ہوں گے اور اُن کا وہاں قیام اس لئے ہوگا کہ دوسرے اُن کے فضل و شرف کو دیکھیں اور ایک قول یہ ہے کہ اعراف میں انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہوں گے اور وہ اس مکانِ عالی میں تمام اہلِ قیامت پر ممتاز کئے جائیں گے اور اُن کی فضیلت اور رتبۂ عالیہ کا اظہار کیا جائے گا تاکہ جنتی اور دوزخی ان کو دیکھیں اور وہ ان سب کے احوال، ثواب و عذاب کے مقدارا ور احوال کا معائنہ کریں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۹۶) ان قولوں پر اصحابِ اعراف جنتیوں میں سے افضل لوگ ہوں گے کیونکہ وہ باقیوں سے مرتبہ میں اعلیٰ ہیں ،ان تمام اقوال میں کچھ تَناقُض نہیں ہے ا س لئے کہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہر طبقہ کے لوگ اعراف میں ٹھہرائے جائیں اور ہر ایک کے ٹھہرانے کی حکمت جداگانہ ہو۔ { یَعْرِفُوْنَ كُلًّۢا بِسِیْمٰىهُمْ:دونوں فریق کو ان کی پیشانیوں سے پہچانیں گے۔} دونوں فریق سے جنتی اور دوزخی مراد ہیں ، جنتیوں کے چہرے سفید اور ترو تازہ ہوں گے اور دوزخیوں کے چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلی یہی اُن کی علامتیں ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں ’’اعراف والے جب جنتیوں کو دیکھیں گے تو ان کے چہروں کی سفیدی سے انہیں پہچان لیں گے اور جب جہنمیوں کی طرف نظر کریں گے تو انہیں ان کے چہرے کی سیاہی سے پہچان لیں گے۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۹۷) جنتیوں اور جہنمیوں کی علامات اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار بندوں کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌؕ-وَ لَا یَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّةٌؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘ (یونس:۲۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان:بھلائی کرنے والوں کے لیے بھلائی ہے اور اس سے بھی زیادہ اور ان کے منہ پر نہ سیاہی چھائی ہوگی اور نہ ذلت،یہی جنت والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور کافر و گنہگار بندوں کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’ وَ الَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَآءُ سَیِّئَةٍۭ بِمِثْلِهَاۙ-وَ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌؕ-مَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍۚ-كَاَنَّمَاۤ اُغْشِیَتْ وُجُوْهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًاؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘ (یونس:۲۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جنہوں نے برائیوں کی کمائی کی تو برائی کا بدلہ اسی کے برابر ہے اور ان پر ذلت چھائی ہوگی، انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا، گویا ان کے چہروں کو اندھیری رات کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ وہی دوزخ والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ دور سے سننا شرک نہیں : اس آیت میں فرمایا گیا اعراف والے جنتیوں کو پکاریں گے ۔جنت و جہنم میں لاکھوں میل کا فاصلہ ہے لیکن اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کی آواز سن لیں گے ، اس سے معلوم ہوا کہ دور سے سن لینا کوئی ایسی بات نہیں جو مخلوق کیلئے ماننے سے شرک لازم آئے کیونکہ شرک کی حقیقت دنیا و آخرت کے اعتبار سے مختلف نہیں ہوتی یعنی یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ دنیا میں ایک چیز شرک ہو لیکن قیامت میں وہ شرک نہ رہے، لہٰذا جو لوگ انبیاء و اولیاء کے دور سے سننے کے عقیدے پر شرک کے فتوے دیتے ہیں انہیں غور کرلینا چاہیے بلکہ خود قرآنِ پاک میں ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دور سے چیونٹی کی باتیں سن لیں ، چنانچہ فر مایا: ’’ فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا ‘‘ (النمل:۱۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: ’’چیونٹی کی آواز سن کر سلیمان مسکرا دئیے‘‘
@Imu19918 ай бұрын
SUBHAN ALLAH
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌۚ-فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ(34)  ترجمۂ کنز العرفان اور ہر گروہ کے لئے ایک مدت مقرر ہے تو جب ان کی وہ مدت آجائے گی تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہو ں گے اورنہ ہی آگے۔  تفسیر صراط الجنان { وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ:اور ہر گروہ کے لئے ایک مدت مقرر ہے۔}اس آیت میں مقررہ مدت سے یا تو یہ مراد ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی کرنے والی امتوں کیلئے عذاب کا ایک وقت مقرر ہے اور جب وہ وقت آئے گا تو عذاب ضرور آئے گا۔ آیت کا دوسرا معنیٰ یہ ہوسکتا ہے کہ ہر کسی کی موت کا وقت مقرر ہے اور جب وہ وقت آئے گا تو موت کا تلخ گھونٹ پینا پڑے گا۔ موت کے لئے ہر وقت تیار رہیں : چونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہے اس لئے ہر وقت موت کیلئے تیار رہنا چاہیے اور ہر وقت گناہوں سے دور اور نیک اعمال میں مصروف رہنا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو۔ (1) اپنے بڑھاپے سے پہلے جوانی کو۔ (2) اپنی بیماری سے پہلے صحت کو۔ (3)اپنی محتاجی سے پہلے مالداری کو۔ (4)اپنی مصروفیت سے پہلے فراغت کو۔ (5) اپنی موت سے پہلے زندگی کو۔ (مستدرک، کتاب الرقاق، نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس۔۔۔ الخ، ۵ / ۴۳۵، الحدیث: ۷۹۱۶) حضرت حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے وعظ میں فرماتے ’’جلدی کرو جلدی کرو کیونکہ یہ چند سانس ہیں ، اگر رک گئے تو تم وہ اعمال نہیں کر سکو گے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو اپنے نفس کی فکر کرتا ہے اور اپنے گناہوں پر روتا ہے(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی فی طول الامل۔۔۔ الخ، بیان المبادرۃ الی العمل وحذر آفۃ التاخیر، ۵ / ۲۰۵)۔([1]) [1] …موت کی تیاری کی رغبت پانے کے لئے کتاب’’موت کا تصور‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ اِنْ كَانَ طَآىٕفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ طَآىٕفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰى یَحْكُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَاۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ(87)  ترجمۂ کنز العرفان اور اگر تم میں ایک گروہ اس پر ایمان لائے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے اور ایک گروہ (اس پر) ایمان نہ لائے تو تم انتظار کرو حتّٰی کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کردے اوروہ سب سے بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے۔  تفسیر صراط الجنان { وَ اِنْ كَانَ طَآىٕفَةٌ مِّنْكُمْ:اور اگر تم میں ایک گروہ ۔}یعنی اگر تم میری رسالت میں اختلاف کرکے دو فرقے ہوگئے کہ ایک فرقے نے مانا اور ایک منکر ہوا تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے کہ تصدیق کرنے والے ایمانداروں کو عزت دے اور ان کی مدد فرمائے اور جھٹلانے والے منکرین کو ہلاک کرے اور انہیں عذاب دے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ سب سے بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے کیونکہ وہ حاکمِ حقیقی ہے اس کے حکم میں نہ غلطی کا احتمال ہے نہ اس کے حکم کی کہیں اپیل ہے۔
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًاؕ-اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ(56)  ترجمۂ کنز العرفان اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرو اوراللہ سے دعا کرو ڈرتے ہوئے اور طمع کرتے ہوئے۔ بیشک اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہے۔  تفسیر صراط الجنان { وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ:اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔} یعنی اے لوگو! انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تشریف لانے، حق کی دعوت فرمانے، احکام بیان کرنے اور عدل قائم فرمانے کے بعد تم کفر و شرک ، گناہ اور ظلم و ستم کرکے زمین میں فساد برپا نہ کرو۔ { وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا:اور اس سے دعا کرو ڈرتے اور طمع کرتے۔} اس میں دعامانگنے کا ایک ادب بیان فرمایا گیا ہے کہ جب بھی دعا مانگو تواللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کی رحمت کی طمع کرتے ہوئے دعا کرو۔ خوف اور امید کی حالت میں دعا مانگنی چاہئے: اس سے معلو م ہوا کہ دعا اور عبادات میں خوف و امید دونوں ہونے چاہئیں اس سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ جلد قبول ہو گی۔ اسی مفہوم پر مشتمل ایک حدیث بخاری شریف میں ہے چنانچہ حضرت براء بن عازِب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ جب تم سونے لگو تو نماز جیسا وضو کر لیا کرو، پھر دائیں کروٹ لیٹ کر کہو’’اَللّٰہُمَّ اَسْلَمْتُ وَجْہِیْ اِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ اَمْرِیْ اِلَیْکَ وَاَلْجَاْتُ ظَہْرِیْ اِلَیْکَ رَغْبَۃً وَرَہْبَۃً اِلَیْکَ لَا مَلْجَاَ وَلَا مَنْجَاَ مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ اللہُمَّ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ وَبِنَبِیِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ‘‘ ترجمہ:اے اللہ! میں نے اپنا چہرہ تیری طرف کر دیا اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا اور تجھ سے رغبت اور خوف رکھتے ہوئے اپنی پیٹھ جھکا دی، تیرے سوا کوئی جائے پناہ اور نجات کی جگہ نہیں۔اے اللہ ! میں تیری کتاب پر ایمان لایاجو تو نے نازل فرمائی اور تیرے نبی پر ایمان لایا جنہیں تو نے بھیجا۔‘‘ (اگررات کو سوتے وقت یہ پڑھو گے تو) اگر اس رات میں مر گئے تو تم فطرت پر ہو گے۔( بخاری، کتاب الوضو ء، باب فضل من بات علی الوضو ء، ۱ / ۱۰۴، الحدیث: ۲۴۷)
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(59)قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(60)  ترجمۂ کنز العرفان بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے کہا: اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو ۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ۔بے شک میں تم پر بڑے دن کے عذاب کا خوف کرتا ہوں۔اس کی قوم کے سردار بولے :بیشک ہم تمہیں کھلی گمراہی میں دیکھتے ہیں ۔  تفسیر صراط الجنان { لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا:بیشک ہم نے نوح کو بھیجا۔} اس سے ماقبل آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور وحدانیت کے دلائل اور اپنی عجیب و غریب صنعتوں سے متعلق بیان فرمایا، ان سے اللہ تعالیٰ کا واحد اور رب ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ پھر مرنے کے بعد اُٹھنے اور زندہ ہونے کی صحت پر مضبوط ترین دلیل قائم فرمائی ان سب کے بعد بڑی تفصیل سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان فرمائے کہ وہ بھی اپنی امتوں کوتوحید ورسالت اورعقیدۂ قیامت کی طرف دعوت دیتے رہے، اِس سے یہ معلوم ہوا کہ یہ دعوت کوئی نئی نہیں بلکہ ہمیشہ سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انہی چیزوں کی دعوت دیتے آئے ہیں پھر اس کے ساتھ اس بات کو بھی بار بار دہرایا گیا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت کے انکار کو معمولی نہ سمجھا جائے بلکہ پہلی امتوں کے احوال کو پیشِ نظر رکھا جائے کہ ان میں سے جنہوں نے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور ان کے بیان کردہ عقیدہ ِتوحیدورسالت اور حشر و نشر کا انکار کیا وہ تباہ و برباد ہوگئے۔ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات میں سب سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر کیا گیا کیونکہ کفار کی طرف بھیجے جانے والے پہلے رسول یہی تھے۔ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مختصر تعارف: حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اسم گرامی یشکر یا عبدُ الغفار ہے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پڑپوتے تھے۔ آپ کا لقب ’’نوح‘‘ اس لئے ہو اکہ آپ کثرت سے گریہ و زاری کیا کرتے تھے ، چالیس یا پچاس سال کی عمر میں نبوت سے سرفراز فرمائے گئے۔ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو عبادتِ الٰہی کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: اے میری قوم ! ایمان قبول کر کے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرو کیونکہ اس کے سوا کوئی اور ایسا ہے ہی نہیں کہ جس کی عبادت کی جا سکے ، وہی تمہارا معبود ہے اور جس چیز کا میں تمہیں حکم دے رہا ہوں اس میں اگر تم میری نصیحت قبول نہ کرو گے اور راہِ راست پر نہ آؤ گے تومجھے تم پر بڑے دن یعنی روزِ قیامت یا روز ِطوفان کے عذاب کا خوف ہے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی زبردست دلیل: انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ان تذکروں میں سید ِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی زبردست دلیل ہے کیونکہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُمّی تھے، پھر آپ کا ان واقعات کو تفصیلاًبیان فرمانا بالخصوص ایسے ملک میں جہاں اہلِ کتاب کے علماء بکثرت موجود تھے اور سرگرم مخالف بھی تھے ،ذراسی بات پاتے تو بہت شور مچاتے، وہاں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ان واقعات کو بیان فرمانا اور اہلِ کتاب کا ساکت و حیران رہ جانا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ آپ نبی ٔ برحق ہیں اور پروردِگار عالم عَزَّوَجَلَّ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر علوم کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ نوٹ: حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنی قوم کو راہِ راست پر آنے کی دعوت دینے اور ان کی قوم پر آنے والے عذاب کا تفصیلی ذکر سورۂ ہود آیت25تا 48 میں بھی مذکور ہے۔
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(9)  ترجمۂ کنز العرفان اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کوخسارے میں ڈالا اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں پر ظلم کیا کرتے تھے۔  تفسیر صراط الجنان { وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ:اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے ۔} ارشاد فرمایا کہ جن کے نیکیوں کے پلڑے ہلکے ہوں گے اور ان میں کوئی نیکی نہ ہو گی تو یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کوخسارے میں ڈالا۔ بعض علماء کے نزدیک قیامت کے دن صرف مسلمانوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا اور کافروں کے اعمال کا وزن نہ ہو گا لیکن اس بارے میں تحقیق یہ ہے کہ جن کافروں کو اللہ تعالیٰ جلد دوزخ میں ڈالناچاہے گا انہیں اعمال کے وزن کے بغیر دوزخ میں ڈال دے گا اور بقیہ کافروں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا اسی طرح بعض مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ اعمال کا وزن کئے بغیر بے حساب جنت میں داخل کر دے گا۔
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
الٓـمّٓصٓ(1)كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ فَلَا یَكُنْ فِیْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَ ذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ(2)اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَؕ-قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ(3)  ترجمۂ کنز العرفان المص۔ اے حبیب ! (یہ) ایک کتاب ہے جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے تا کہ آپ اس کے ذریعے ڈر سنائیں اور مومنوں کے لئے نصیحت ہے پس آپ کے دل میں اس کی طرف سے کوئی تنگی نہ ہو۔اے لوگو! تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف جونازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اسے چھوڑ کر اور حاکموں کے پیچھے نہ جاؤ۔تم بہت ہی کم سمجھتے ہو۔  تفسیر صراط الجنان { الٓـمّٓصٓ:} یہ حروفِ مُقَطّعات ہیں ، ان کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ { كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ:اے محبوب! ایک کتاب تمہاری طرف اُتاری گئی۔}یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ کتاب یعنی قرآنِ پاک آپ کی طرف اس لئے نازل کیا گیا تاکہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کواللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرائیں۔ پس آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دل میں لوگوں کے سابقہ طرزِ عمل کی وجہ سے اور اس خیال سے کہ لوگ نہ مانیں گے اور اس پر اعتراض کریں گے اور اسے جھٹلانے لگیں گے اس کی تبلیغ فرمانے سے کوئی تنگی نہ آئے، آپ ان کفار کی مخالفت کی ذرہ بھر پروا نہ کریں۔ تکالیف کی وجہ سے تبلیغِ دین میں دل تنگ نہیں ہونا چاہیے: اس آیت میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسکین و تسلی اور حوصلہ افزائی ہے اور اس کے ذریعے امت کے تمام مبلغین کو درس اور سبق ہے کہ لوگوں کے نہ ماننے یا تکلیفیں دینے کی وجہ سے تبلیغِ دین میں دل تنگ نہیں ہونا چاہیے۔ نیکی کی دعوت کا کام ہی ایسا ہے کہ اس میں تکالیف ضرور آتی ہیں۔ اسی لئے تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بے پناہ تکلیفیں اٹھائیں اور ان کے واقعات قرآنِ پاک میں بکثرت موجود ہیں۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آگ میں ڈالا جانا، اپنے ملک سے ہجرت کرنا، لوگوں کا آپ کو تنگ کرنا یونہی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہجرت کرنا، فرعون کا آپ کے مقابلے میں آنا، آپ کو جادوگر قرار دینا، آپ کو گرفتار کرنے کے منصوبے بنانا یونہی سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بے پناہ تکلیفیں اٹھانا، راستے میں کانٹے بچھانا، آپ کو شہید کرنے کے منصوبے بنانا، آپ کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کرنا، آپ کو جادوگر، کاہن، شاعر کہنا، آپ سے جنگ کرنا وغیرہ یہ ساری چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ راہِ تبلیغ میں تکالیف آنا ایک معمول کی چیز ہے اور انہیں برداشت کرنا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ آیت میں فرمایا گیا کہ یہ قرآن مومنوں کیلئے نصیحت ہے، اب یہاں آج کے مومنین و مسلمین سے بھی عرض ہے کہ ذرا اپنے احوال و اعمال پر غور کریں کہ کیا یہ قرآن سے نصیحت حاصل کررہے ہیں ؟ یا انہیں قرآن کھولنے، پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی؟
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاۤ٘ -اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(42)  ترجمۂ کنز العرفان اور وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے ہم کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں رکھتے، وہ جنت والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔  تفسیر صراط الجنان { وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:اور وہ جو ایمان لائے ۔} اس سے پہلے چند آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے لئے وعید اور آخرت میں جو کچھ ان کے لئے تیار فرمایا اس کا ذکر کیا، اب ایمان والوں سے جو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا اور آخرت میں جو کچھ ان کیلئے تیار فرمایا اس کا ذکر فرما رہا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے تو وہ جنت والے ہیں اور وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ اس سے دومسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ ایمان اعمال پر مقدم ہے، پہلے ایمان قبول کیا جائے اور بعد میں نیک کام کئے جائیں ، دوسرا یہ کہ کوئی شخص نیک اعمال سے بے نیاز نہیں چاہے کسی طبقے اور کسی جماعت سے اس کا تعلق ہو۔ { لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا:ہم کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں رکھتے۔} اس آیت میں مسلمانوں کیلئے بہت پیاری تسلی ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ احکام کا پابند نہیں کرتا ۔ یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جنت میں جانے کیلئے کوئی بہت زیادہ مشقت برداشت نہیں کرنا پڑے گی بلکہ اکثر وبیشتر احکام وہ ہیں جن پر آدمی نہایت سہولت کے ساتھ عمل کرلیتا ہے جیسے نماز، روزہ اور دیگر عبادات۔ زکوٰۃ اور حج تو لازم ہی اس پر ہیں جواپنی سب ضروریات کے بعد زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی کی بقدر زائد رقم رکھتے ہوں۔ یونہی ماں باپ، بہن بھائیوں ، رشتے داروں اور پڑوسیوں کے حقوق وغیرہ کی ادائیگی بھی عمومی زندگی کا حصہ ہے۔ یونہی ذکرو درود بھی روح کی غذا ہے اور یہی اعمال جنت میں لے جانے والے ہیں۔ تو جنت میں جانے کا راستہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نہایت آسان بنایا ہے، صرف اپنی ہمت کا مسئلہ ہے۔[1] [1] نیک اعمال کی رغبت پانے کے لئے کتاب’’جنت میں لے جانے والے اعمال‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ بہت مفید ہے،یونہی دعوتِ اسلامی کے ساتھ وابستگی بھی بہت فائدہ مند ہے۔
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰـكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(96)  ترجمۂ کنز العرفان اور اگر بستیو ں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے مگر انہوں نے تو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے پکڑلیا۔  تفسیر صراط الجنان { وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا:اور اگر بستیو ں والے ایمان لاتے اورتقویٰ اختیار کرتے۔} پہلی آیت میں بیان ہوا کہ جب ان قوموں نے نافرمانی اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا عذاب نازل کیا اور اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ اگر وہ لوگ اطاعت و فرماں برداری کرتے تو اس صورت میں آسمانی اور زمینی برکتیں انہیں نصیب ہوتیں چنانچہ ارشاد فرمایا کہ’’ اگر بستیو ں والے اللہ عَزَّوَجَلَّ، اس کے فرشتوں ،اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے اورخدا اور رسول کی اطاعت اختیار کرتے اور جس چیز سے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول عَلَیْہِ السَّلَام نے منع فرمایا اس سے باز رہتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے اور ہر طرف سے انہیں خیر پہنچتی ،وقت پر نافع اور مفید بارشیں ہوتیں ،زمین سے کھیتی پھل بکثرت پیدا ہوتے، رزق کی فراخی ہوتی، امن و سلامتی رہتی اور آفتوں سے محفوظ رہتے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۶، ۵ / ۳۲۱) تقویٰ رحمت ِ الٰہی ملنے کاذریعہ ہے: اس سے معلوم ہو ا کہ تقویٰ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی رحمتِ الٰہی کا ذریعہ ہے ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا ‘‘ (الطلاق:۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے (دنیا و آخرت کی مصیبتوں سے) نکلنے کا راستہ بنادے گا۔ مصائب کی دوری کے لئے نیک اعمال کرنے جائز ہیں : اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیاوی مصائب دور کرنے کے لئے نیک اعمال کرنے جائز ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کیلئے عمل کیا جائے تاکہ وہ اپنی رحمت فرماتے ہوئے ہماری حاجت پوری کردے، اسی لئے بارش کیلئے نمازِ اِستِسقاء اور گرہن میں نمازِ کسوف پڑھتے ہیں۔ یہاں ہم ظاہری اور باطنی مصائب کی دوری کے لئے احادیث میں مذکور چند اعمال ذکر کرتے ہیں تاکہ مسلمان ان پر عمل کر کے اپنے مصائب دور کرنے کی کوشش کریں۔ (1)…امُّ المؤمنین حضرت امِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا فرماتی ہیں :میں نے سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس مسلمان پر کوئی مصیبت آئے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ’’ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ ‘‘ پڑھے (اور یہ دعا کرے) ’’اَللّٰہُمَّ اْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا‘‘ا ے اللہ!میری ا س مصیبت پر مجھے اجر عطا فرما اور مجھے اس کا بہتر بدل عطا فرما ‘‘تو اللہ تعالیٰ اس کو اس سے بہتر بدل عطا فرمائے گا۔ (مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقال عند المصیبۃ، ص ۴۵۷، الحدیث: ۳ (۹۱۸)) (2)…حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ یہ دل ایسے زنگ آلود ہوتے رہتے ہیں جیسے لوہا پانی لگنے سے زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان دلوں کی صیقل کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’ موت کی زیادہ یاد اور قرآنِ کریم کی تلاوت۔ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۵۲، الحدیث: ۲۰۱۴) (3)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص روزانہ رات کے وقت سورہ ٔواقعہ پڑھے تو وہ فاقے سے ہمیشہ محفوظ رہے گا۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ۲ / ۴۹۲، الحدیث: ۲۵۰۰) (4)…حضرت عطاء بن ابی رباح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ مجھے خبر ملی ہے کہ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو دن کے شروع میں سورہ ٔیٰسٓ پڑھ لے تو اس کی تمام ضرورتیں پوری ہوں گی۔ (دارمی،کتاب فضائل القرآن، باب فی فضل یٰس، ۲ / ۵۴۹، الحدیث: ۳۴۱۸) { وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا:مگر انہوں نے تو جھٹلایا۔} یعنی ایمان لانے کی صورت میں توہم انہیں زمینی اور آسمانی برکتوں سے نوازتے لیکن وہ ایمان نہ لائے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے لگے تو ہم نے انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے عذاب میں گرفتار کردیا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۶، ۲ / ۱۲۲) وسعتِ رزق سعادت بھی ہے اور وبال بھی: اس آیت سے ثابت ہوا کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کاشکر گزار بندہ ہوتو رزق میں وسعت اور فراخ دستی سعادت ہے اور جب ناشکرا ہو تو یہ اس کے لئے وبال ہے۔ ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’ وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ‘‘ (ابراہیم:۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرما دیا کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔
@insavenature338411 ай бұрын
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﳓ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ(11)  ترجمۂ کنز العرفان اور بیشک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری صورتیں بنائیں پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا، وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا۔  تفسیر صراط الجنان {وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ:اور بیشک ہم نے تمہیں پیدا کیا۔} یہاں سے ایک اور عظیم نعمت یاد دلائی جارہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی تمام اولاد پر فرمائی اور یہ نعمت ایسی ہے کہ صرف یہی نعمت ادائے شکر کے لازم ہونے کے لئے کافی ہے چنانچہ ارشاد ہوا کہ بیشک ہم نے تمہیں پیدا کیا۔ یہاں یا تو یہ مراد ہے کہ ہم نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیدا کیا اور ان کی پشت میں ان کی اولاد کی صورت بنائی یا یہاں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی کا تذکرہ ہے کہ ہم نے آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیدا کیا، ان کی صورت بنائی اور پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ انہیں سجدہ کریں۔ بقیہ تفصیلی واقعہ آیتِ مبارکہ میں بھی موجود ہے اور تخلیقِ آدم و سجدہ ِ آدم کاواقعہ سورۂ بقرہ آیت34 میں بھی مذکور ہوچکا ہے۔ یہاں اس قصے کے بیان کا مقصد ایک مرتبہ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظیم نعمت کو یاد دلانا ہے۔ شرف ِانسانیت کو بیان کرنا ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دوست اور دشمن کی روِش کو دکھانا ہے کہ دیکھو دوست بھول کر بھی خطا کرتا ہے تو کس طرح گریہ و زاری کرتا ہے اور محبوب ِ حقیقی کو منانے کی کوشش کرتا ہے اور دشمنِ خدا قصداً تکبرسے حکمِ الٰہی کی خلاف ورزی کرتا ہے اور توبہ و معافی طلب کرنے کی بجائے غرور و تکبر اور حیلہ و تاویل کی راہ اپناتا ہے اور اپنا قصور ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا بلکہ الٹا تقدیر کا بہانا بنا کر خود کو قصور وار قرار دینے کی بجائے کہتا ہے کہ یا اللہ! یہ میرا نہیں بلکہ تیرا قصور ہے کیونکہ تو نے ہی مجھے گمراہ کیا ہے۔ یہ مضمون چند آیات کے بعد موجود ہے۔ گویا اِس قصے کے ذریعے فرمانبردار اور نافرمان کا راستہ بالکل واضح ہوجاتا ہے۔
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَهْوًا وَّ لَعِبًا وَّ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۚ-فَالْیَوْمَ نَنْسٰىهُمْ كَمَا نَسُوْا لِقَآءَ یَوْمِهِمْ هٰذَاۙ-وَ مَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ(51)  ترجمۂ کنز العرفان جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنالیااور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکہ دیا تو آج ہم انہیں چھوڑ دیں گے کیونکہ انہوں نے اپنے اِس دن کی ملاقات کو بھلا رکھا تھا اوروہ ہماری آیتوں سے انکار کرتے تھے۔  تفسیر صراط الجنان { اَلَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَهْوًا وَّ لَعِبًا:جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنالیا۔} اس آیت میں کفار کی ایک بری صفت بیان کی جا رہی ہے کہ ان کفار نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا اس طرح کہ اپنی نفسانی خواہشوں کی پیروی کرتے ہوئے جسے چاہا حرام کہہ دیا اور جسے چاہا حلال قرار دے دیا اور جب انہیں ایمان قبول کرنے کی دعوت دی گئی تو یہ ایمان والوں سے مذاق مسخری کرنے لگ گئے، انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکہ دیا کہ دنیا کی لذتوں میں مشغول ہو کر اپنے اخروی انجام کو بھول گئے اور اہل و عیال کی محبت میں گرفتار ہو کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت سے دور ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کی محبت سخت خطرناک ہے۔ اسی لئے حدیثِ مبارک میں فرمایا گیا کہ دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔ (جامع الاصول فی احادیث الرسول، الرکن الثانی، حرف الذال، الکتاب الثالث فی ذمّ الدنیا، الفصل الاول، ۴ / ۴۵۷، الحدیث: ۲۶۰۳) { فَالْیَوْمَ نَنْسٰىهُمْ:تو آج ہم انہیں چھوڑ دیں گے۔} یعنی کفار نے دنیا میں جو معاملہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حق میں روا رکھا تھا قیامت کے دن اس کا انجام ان کے سامنے آجائے گا چونکہ انہوں نے قیامت کا خیال تک چھوڑ رکھا تھا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں اُن کے اس بھولنے کا بدلہ دے گا۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی طرف نِسیان کی نسبت کا مطلب کفار کے نسیان (یعنی بھولنے) کا بدلہ دینا ہے۔
@MdJishan-og3ue Жыл бұрын
Assalamu Alaikum
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
اَوَ لَمْ یَهْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَاۤ اَنْ لَّوْ نَشَآءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْۚ-وَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ(100)  ترجمۂ کنز العرفان اور کیا وہ لوگ جو زمین والوں کے بعد اس کے وارث ہوئے اُنہیں اِس بات نے بھی ہدایت نہ دی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کے سبب انہیں پکڑلیں اور ہم ان کے دلوں پر مہرلگادیتے ہیں تووہ کچھ نہیں سنتے۔  تفسیر صراط الجنان { اَوَ لَمْ یَهْدِ لِلَّذِیْنَ:اور کیا ان لوگوں کو ہدایت نہ ملی۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ امتوں کے کفار کا تفصیلی اور اجمالی حال بیان فرمایا اب اس آیت میں اُن واقعات کو بیان کرنے کی حکمت کا ذکر ہے کہ یہ واقعات ان موجودہ کافروں کی ہدایت کیلئے بیان کئے گئے ہیں تاکہ ان سے یہ عبرت پکڑیں اور ایمان لائیں۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۵ / ۳۲۳، ملتقطاً) آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکینِ مکہ جو قومِ نوح، قومِ ثمود، اور قومِ مدین کے بعد ان علاقوں میں آباد ہوئے ہیں اتنے کم فہم اور نادان ہیں کہ یہ لوگ گزشتہ قوموں پر عذاب کے آثار دیکھ کر اتنی عبرت بھی حاصل نہیں کرتے کہ جن کی سرزمین کا انہیں وارث بنایا گیا اُن کا نافرمانی کے سبب کتنا برا انجام ہوا ؟ کیا ان لوگوں کو اتنی بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ جس ربِّ قدیرعَزَّوَجَلَّ نے پچھلی قوموں کو ان کے کرتوتوں کی سزا دی وہ آج انہیں بھی سزا دینے پر قادر ہے۔ { وَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ:اور ہم ان کے دلوں پر مہرلگادیتے ہیں۔} اس کا معنی یہ ہے کہ جس کے سامنے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے راستے واضح فرما دئیے اور گزشتہ امتوں کی مثالیں بھی بیان فرما دیں وہ اس کے بعد بھی اپنے کفر اور سرکشی پر قائم رہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے جس کے سبب وہ کسی حق بات کو قبول کرنے کیلئے سنتا ہی نہیں۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۴ / ۳۵۲) اس آیت میں نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ کے ہر طرح سے انہیں نصیحت کرنے کے باوجود بھی اگریہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ غم نہ کریں ،آپ کی تبلیغ کے مؤثِّر ہونے میں کوئی کمی نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انہیں کفر و ہٹ دھرمی کی سزا دینے کیلئے ہم نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّاؕ-قَالُوْا نَعَمْۚ-فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیْنَهُمْ اَنْ لَّعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِیْنَ(44)  ترجمۂ کنز العرفان اور جنتی جہنم والوں کو پکار کر کہیں گے کہ ہمارے رب نے جو ہم سے وعدہ فرمایا تھا ہم نے اسے سچا پایا تو کیا تم نے بھی اس وعدے کو سچا پایا جو تم سے تمہارے رب نے کیا تھا؟ وہ کہیں گے: ہاں ،پھر ایک ندا دینے والا ان کے درمیان پکارے گا کہ ظالموں پراللہ کی لعنت ہو۔  تفسیر صراط الجنان { وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبَ النَّارِ:اور جنتی جہنم والوں کو پکار کر کہیں گے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو جنت والے جہنمیوں کو پکار کر کہیں گے کہ ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ نے جو ہم سے وعدہ فرمایا تھا اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جو فرمایا تھا کہ ایمان و طاعت پر اجرو ثواب پاؤگے ہم نے تو اسے سچا پایا، کیا تم لوگوں نے بھی اُس وعدے کو سچا پایا جو تم سے رب عَزَّوَجَلَّ نے کفرو نافرمانی پر عذاب کا وعدہ کیا تھا؟ وہ جواب میں کہیں گے: ہاں ، ہم نے بھی اسے سچا پایا۔ قیامت کے دن جنتی مسلمان گنہگار مسلمانوں کو طعنہ نہ دیں گے: یہاں دوزخ والوں سے مراد کفار جہنمی ہیں نہ کہ گنہگار مومن، کیونکہ جنتی مسلمان ان گنہگاروں کو طعنہ نہ دیں گے بلکہ ان کی شفاعت کرکے وہاں سے نکالیں گے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ارشاد ہوا۔ یہاں آیت میں مسلمانوں کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اُسی وعدے کی تکمیل کا بیان ہے جو قرآن میں مذکور ہے: ’’ رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا ﳓ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ كَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِۚ(۱۹۳) رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰى رُسُلِكَ وَ لَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ(۱۹۴)فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ اَنِّیْ لَاۤ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰىۚ-بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍۚ-فَالَّذِیْنَ هَاجَرُوْا وَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ قٰتَلُوْا وَ قُتِلُوْا لَاُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَاُدْخِلَنَّهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۚ-ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الثَّوَابِ(۱۹۵)‘‘ (آل عمران:۱۹۳تا۱۹۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ہمارے رب!بیشک ہم نے ایک ندادینے والے کو ایمان کی ندا (یوں ) دیتے ہوئے سنا کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے پس اے ہمارے رب !تو ہمارے گنا ہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں مٹادے اور ہمیں نیک لوگوں کے گروہ میں موت عطا فرما۔ اے ہمارے رب! اور ہمیں وہ سب عطا فرما جس کا تو نے اپنے رسولوں کے ذریعے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوانہ کرنا۔ بیشک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ تو ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمالی کہ میں تم میں سے عمل کرنے والوں کے عمل کو ضائع نہیں کروں گاوہ مرد ہو یا عورت ۔تم آپس میں ایک ہی ہو،پس جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں انہیں ستایا گیا اورانہوں نے جہاد کیا اور قتل کردیے گئے تو میں ضرور ان کے سب گناہ ان سے مٹادوں گا اور ضرور انہیں ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں (یہ)اللہ کی بارگاہ سے اجر ہے اور اللہ ہی کے پاس اچھا ثواب ہے۔ جنتیوں کا جہنمیوں سے کلام کرنا ان کی ذلت و رسوائی میں اضافہ کرنے کیلئے ہوگا کیونکہ دنیا میں عموماً کافر مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے اور انہیں طعنے دیتے تھے اور ان پر پھبتیاں کستے تھے۔ آج اس کا بدلہ ہورہا ہوگا۔ { فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ:پھر ایک ندا دینے والا پکارے گا ۔}پکارنے والے حضرت اسرافیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں یا دوسرا فرشتہ جس کی یہ ڈیوٹی ہوگی اور ظالمین سے مراد کفار ہیں جیسا کہ اگلی آیت سے معلوم ہو رہا ہے۔
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا یَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِیْهَا فَاخْرُ جْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ(13)  ترجمۂ کنز العرفان اللہ نے فرمایا: تو یہاں سے اُ تر جا، پس تیرے لئے جائز نہیں کہ تو اس مقام میں تکبر کرے، نکل جا، بیشک توذلت والوں میں سے ہے۔  تفسیر صراط الجنان { قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا:فرمایا تو یہاں سے اُ تر جا۔} یعنی جنت سے اتر جا کہ یہ جگہ اطاعت و تواضع کرنے والوں کی ہے منکر و سرکش کی نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنت پہلے سے موجود ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جنت اوپر ہے، زمین کے نیچے نہیں کیونکہ اترنا اوپر سے ہوتا ہے۔ { اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ: بیشک توذلت والوں میں سے ہے۔} کہ انسان تیری مذمت کرے گا اور ہر زبان تجھ پر لعنت کرے گی اور یہی تکبر والے کا انجام ہے۔ تکبر کی مذمت: اس سے معلوم ہوا کہ تکبر ایسا مذموم وصف ہے کہ ہزاروں برس کا عبادت گزار اور فرشتوں کا استاد کہلانے والا ابلیس بھی اس کی وجہ سے بارگاہِ الٰہی میں مردود ٹھہرا اور قیامت تک کے لئے ذلت و رسوائی کا شکار ہو گیا۔ ذیل میں ہم تکبر کی مذمت پر مشتمل احادیث اور عاجزی کے فضائل کے بیان میں 4احادیث اور ایک حکایت ذکر کر رہے ہیں تاکہ مسلمان ابلیس کے انجام کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کو بھی پڑھیں اور تکبر چھوڑ کر عاجزی اختیار کرنے کی کوشش کریں ، چنانچہ (1)…حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ کیا میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے بد ترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ بد اخلاق اور متکبر ہے۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث حذیفۃ بن الیمان عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۹ / ۱۲۰، الحدیث: ۲۳۵۱۷) (2)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا تو قیامت کے دن اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی طرف رحمت کی نظر نہ فرمائے گا۔ (بخاری، کتاب اللباس، باب من جرّ ثوبہ من الخیلائ، ۴ / ۴۶، الحدیث: ۵۷۸۸) (3) …حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ قیامت کے دن تکبر کرنے والے چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی صورت میں اٹھائے جائیں گے، ہر طرف سے ذلت انہیں ڈھانپ لے گی، انہیں جہنم کے قید خانے کی طرف لے جایا جائے گا جس کا نام ’’بولس‘‘ ہے، آگ ان پر چھا جائے گی اور انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَالْ ‘‘ یعنی جہنمیوں کی پیپ اور خون پلایا جائے گا۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۴۷-باب، ۴ / ۲۲۱، الحدیث: ۲۵۰۰) (4)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص۶۰، الحدیث: ۱۴۷(۹۱)) عاجزی کے فضائل: (1)…حضرت عیاض بن حِمار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میری طرف یہ وحی فرمائی ہے کہ تم لوگ عاجزی اختیار کرو اورتم میں سے کوئی دوسرے پر فخر نہ کرے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب البراء ۃ من الکبر والتواضع، ۴ / ۴۵۹، الحدیث: ۴۱۷۹) (2)…اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، سرورِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :’’اے عائشہ! عاجزی اپنا ؤکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ عاجزی کرنے والوں سے محبت ،اور تکبرکرنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، ۲ / ۵۰، الحدیث: ۵۷۳۱، الجزء الثالث) (3)…حضرت انس جُہنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے قدرت کے باوجود اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے اعلیٰ لباس ترک کر دیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن اسے لوگوں کے سامنے بلا کر اختیار دے گا کہ ایمان کا جو جوڑا چاہے پہن لے۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۳۹-باب، ۴ / ۲۱۷، الحدیث: ۲۴۸۹) (4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جواپنے مسلمان بھائی کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے بلندی عطا فرماتا ہے اور جو مسلمان بھائی پر بلندی چاہتا ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے پستی میں ڈال دیتا ہے۔ (معجم الاوسط، من اسمہ محمد، ۵ / ۳۹۰، الحدیث: ۷۷۱۱) فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عاجزی: جب حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شام کی طرف تشریف لے گئے تو حضرت سیدنا ابوعبیدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی ان کے ساتھ تھے یہاں تک کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں گھٹنوں تک پانی تھا، آپ اپنی اونٹنی پرسوار تھے، آپ اونٹنی سے اترے اور اپنے موزے اتار کراپنے کندھے پررکھ لئے، پھر اونٹنی کی لگام تھام کرپانی میں داخل ہو گئے تو حضرت ابوعبیدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :اے امیرُالمؤمنین! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، آپ یہ کام کررہے ہیں مجھے یہ پسند نہیں کہ یہاں کے باشندے آپ کو نظر اٹھا کر دیکھیں۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ارشاد فرمایا ’’افسوس! اے ابوعبیدہ! اگریہ بات تمہارے علاوہ کوئی اور کہتا تو میں اسے اُمتِ محمدی عَلٰی صَاحِبَہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے عبرت بنا دیتا، ہم ایک بے سرو سامان قوم تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت عطا فرمائی، جب بھی ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عزت کے علاوہ سے عزت حاصل کرنا چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں رسوا کر دے گا(الزواجر عن اقتراف الکبائر، الباب الاول فی الکبائر الباطنۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۶۱)۔ [1] [1]…تکبر کی مذمت اور عاجزی کے فضائل وغیرہ سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’تکبر‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًاؕ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ(84)  ترجمۂ کنز العرفان اور ہم نے ان پر بارش برسائی تو دیکھو ،مجرموں کاکیسا انجام ہوا؟۔  تفسیر صراط الجنان { وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًا:اور ہم نے ان پر بارش برسائی۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر اس طرح عذاب آیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر پتھروں کی خوفناک بارش برسائی کہ جو گندھک اور آگ سے مُرَکَّب تھے ۔ایک قول یہ ہے کہ بستی میں رہنے والے جو وہاں مقیم تھے وہ تو زمین میں دھنسادیئے گئے اور جو سفر میں تھے وہ ا س بارش سے ہلاک کئے گئے۔ امام مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نازل ہوئے اور انہوں نے اپنا بازو قومِ لوط کی بستیوں کے نیچے ڈال کر اس خطہ کو اکھاڑ لیا اور آسمان کے قریب پہنچ کر اس کو اوندھا کرکے گرا دیا اور اس کے بعد پتھروں کی بارش کی گئی۔ آیت’’ وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًا ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل: اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے ، (1)… یہ بدکاری تمام جرموں سے بڑا جرم ہے کہ ا س جرم کی وجہ سے قومِ لوط پر ایسا عذاب آیا جو دوسری عذاب پانے والی قوموں پر نہ آیا۔ (2)… مجرموں کے تاریخی حالات پڑھنا، ان میں غور کرنا بھی عبادت ہے تا کہ اپنے دل میں گناہوں سے نفرت پیدا ہو، اسی طرح محبوب قوموں کے حالات میں غور کرنا محبوب ہے تا کہ اطاعت کا جذبہ پیدا ہو۔
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
قَالَ اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ-وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ(24)قَالَ فِیْهَا تَحْیَوْنَ وَ فِیْهَا تَمُوْتُوْنَ وَ مِنْهَا تُخْرَجُوْنَ(25)  ترجمۂ کنز العرفان اللہ نے فرمایا: تم اترجاؤ، تم میں ایک دوسرے کا دشمن ہے اور تمہارے لئے زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور نفع اٹھانا ہے۔ ۔(اللہ نے) فرمایا : تم اسی میں زندگی بسر کرو گے اور اسی میں مرو گے اور اسی سے اٹھائے جاؤ گے۔  تفسیر صراط الجنان { قَالَ اهْبِطُوْا:فرمایا اُترو۔} دونوں حضرات کو جنت سے اترجانے کا حکم ہوا کیونکہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کا اصل مقصد تو انہیں زمین میں خلیفہ بنانا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ آدم سے پہلے ہی فرشتوں کے سامنے بیان فرما دیا تھا اور سورۂ بقرہ میں صراحت سے مذکور ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اولادِ آدم نے آپس میں عداوت و دشمنی بھی کرنا تھی اور جنت جیسی مقدس جگہ ان چیزوں کے لائق نہیں لہٰذا مقصد ِ تخلیقِ آدم کی تکمیل کیلئے اور اس کے مابعد رونُما ہونے والے واقعات کیلئے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زمین پر اتارا گیا۔
@shaikshavalli629611 ай бұрын
❤❤❤ Good ❤❤❤❤❤❤❤
@Shenazkhatoon47911 ай бұрын
Salam 😊
@MustakKhan-zz5qf Жыл бұрын
❤❤❤❤
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(65)  ترجمۂ کنز العرفان اور قومِ عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کو بھیجا۔ ( ہود نے) فرمایا: اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ۔ تو کیا تم ڈرتے نہیں؟  تفسیر صراط الجنان { وَ اِلٰى عَادٍ:اور قومِ عاد کی طرف۔}قوم عاد دو ہیں : عادِ اُوْلیٰ یہ حضرت ہودعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ہے اور یہ یمن میں آباد تھے اور عادِثانیہ،یہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ہے، اسی کو ثمود کہتے ہیں ان دونوں کے درمیان سو برس کا فاصلہ ہے۔ یہاں عادِ اُولیٰ مراد ہے۔ (جمل، الاعراف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۵۸، روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۱۸۵) حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ: اس آیت اور اگلی چند آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد کی ہدایت کے لئے ان کے ہم قوم حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی طرف بھیجا ۔حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا:’’ اے میری قوم ! تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، کیا تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا ؟اس پرقوم کے کافر سردار بولے: ہم توتمہیں بیوقوف سمجھتے اور جھوٹا گمان کرتے ہیں اور تمہیں رسالت کے دعویٰ میں سچا ہی نہیں جانتے ۔کفار کا حضرت ہودعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں یہ گستاخانہ کلام کہ’’ تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں ‘ جھوٹا گمان کرتے ہیں ‘‘انتہا درجہ کی بے ادبی اور کمینگی تھی اور وہ اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں سخت ترین جواب دیا جاتا مگر حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے اخلاق و ادب اور شانِ حلم سے جو جواب دیا اس میں شانِ مقابلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور اُن کی جہالت سے چشم پوشی فرمائی چنانچہ فرمایا :اے میری قوم ! بے وقوفی کامیرے ساتھ کوئی تعلق نہیں میں تو ربُّ العالمین کا رسول ہوں۔ میں توتمہیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہارے لئے قابلِ اعتماد خیرخواہ ہوں اور کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے تمہیں میں سے ایک مرد کے ذریعے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرائے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کے یہ احسان یاد کرو کہ اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد ان کا جانشین بنایا اور تمہیں عظیم جسمانی قوت سے نوازا کہ قد کاٹھ اور قوت دونوں میں دوسروں سے ممتاز بنایا تواللہ عَزَّوَجَلَّ کے احسانات یاد کرو، اس پر ایمان لاؤ اور اطاعت و بندگی کا راستہ اختیار کرو۔ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ اپنی قوم کی بستی سے علیحدہ ایک تنہائی کے مقام میں عبادت کیا کرتے تھے، جب آپ کے پاس وحی آتی تو قوم کے پاس آکر سنادیتے ، اس وقت قوم یہ جواب دیتی کہ کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کریں اور جن بتوں کی عبادت ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: بیشک تم پر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا عذاب اور غضب لازم ہوگیا۔ قومِ عاد پر آنے والے عذاب کی کیفیت کا بیان چند آیات کے بعد مذکور ہے اور اس کے علاوہ یہ واقعہ سورہ ہود آیت نمبر50تا 60میں بھی مذکور ہے۔
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًاؕ-وَ لِبَاسُ التَّقْوٰىۙ-ذٰلِكَ خَیْرٌؕ-ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ(26)  ترجمۂ کنز العرفان اے آدم کی اولاد! بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک لباس وہ اُتارا جو تمہاری شرم کی چیزیں چھپاتا ہے اور (ایک لباس وہ جو) زیب و زینت ہے اور پرہیزگاری کا لباس سب سے بہتر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔  تفسیر صراط الجنان { یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ:اے آدم کی اولاد۔} گزشتہ آیات میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لباس و طعام کا ذکر ہوا اب یہاں سے ان کی اولاد کے لباس و طعام کی اہمیت اور اس کے متعلقہ احکام کا بیان ہے اور چونکہ گزشتہ آیات میں تخلیقِ آدم کا بیان ہوا تو یہاں سے بار بار اے اولادِ آدم ! کے الفاظ سے خطاب کیا جارہا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کو جنت سے زمین پر اترنے کا حکم دیا اور زمین کو ان کے ٹھہرنے کی جگہ بنایا تو وہ تمام چیزیں بھی ان پر نازل فرمائیں جن کی دین یا دنیا کے اعتبار سے انہیں حاجت تھی۔ اُن میں سے ایک چیز لباس بھی ہے جس کی طرف دین اور دنیا دونوں کے اعتبار سے حاجت ہے۔ دین کے اعتبار سے تو یوں کہ لباس سے ستر ڈھانپنے کا کام لیا جاتا ہے کیونکہ سترِ عورت نماز میں شرط ہے اور دنیا کے اعتبار سے یوں کہ لباس گرمی اور سردی روکنے کے کام آتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے جس کا ذکر اس آیت میں فرمایا۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین طرح کے لباس اتارے دو جسمانی اور ایک روحانی۔ جسمانی لباس بعض تو سترِ عورت کے لئے اور بعض زینت کے لئے ہیں ، یہ دونوں اچھے ہیں اور روحانی لباس ایمان، تقویٰ، حیا اور نیک خصلتیں ہیں۔ یہ تمام لباس آسمان سے اترے ہیں کیونکہ بارش سے روئی اون اور ریشم پیدا ہوتی ہے، یہ بارش آسمان سے آتی ہے اور وحی سے تقویٰ نصیب ہوتا ہے اور وحی بھی آسمان سے آتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ لباس صرف انسانوں کے لئے بنا یا گیا اسی لئے جانور بے لباس ہی ہوتے ہیں۔ سترِ عورت چھپانے کے قابل لباس پہننا فرض ہے اور لباسِ زینت پہننا مستحب ہے۔ لباس اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بہت بڑی نعمت ہے اس لئے اس کے پہننے پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ سرکارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا لباس: حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ زیادہ تر سوتی لباس پہنتے تھے اون اور روئی کا لباس بھی کبھی کبھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے استعمال فرمایا۔ لباس کے بارے میں کسی خاص پوشاک یا امتیازی لباس کی پابندی نہیں فرماتے تھے۔ جبہ، قبا، پیرہن، تہبند، حلہ، چادر، عمامہ، ٹوپی، موزہ ان سب کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے زیبِ تن فرمایا ہے۔ پائجامہ کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پسند فرمایا اور منیٰ کے بازار میں ایک پائجامہ خریدا بھی تھا لیکن یہ ثابت نہیں کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پائجامہ پہنا ہو۔ (سیرت مصطفٰی، شمائل وخصائل، ص۵۸۱) سفیدلباس کی فضلیت: حضرت سَمُرہ بن جُندُب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سفید کپڑے پہنو کہ وہ زیادہ پاک اور ستھرے ہیں اور انہیں میں اپنے مردے کفناؤ۔ (ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی لبس البیاض، ۴ / ۳۷۰، الحدیث: ۲۸۱۹) عام اور نیالباس پہنتے وقت کی دعائیں : (1)…حضرت معاذ بن انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’جو شخص کپڑا پہنے اور یہ پڑھے: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ کَسَانِیْ ھٰذَا وَرَزَقَـنِیْہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِّنِّی وَلَا قُـوَّۃٍ ‘‘(ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے مجھے یہ (لباس) پہنایا اور میری طاقت و قوت کے بغیر مجھے یہ عطا فرمایا) تو اُس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ (مستدرک، کتاب اللباس، الدعاء عند فراغ الطعام، ۵ / ۲۷۰، الحدیث: ۷۴۸۶) (2)…حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب نیا کپڑا پہنتے تو اُس کا نام لیتے عمامہ یا قمیص یا چادر، پھر یہ دعا پڑھتے: ’’اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا کَسَوْتَنِیْہِ اَسْأَ لُکَ خَیْرَہٗ وَخَیْرَ مَا صُنِعَ لَـہٗ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہٖ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَـہٗ‘‘ (ترجمہ:اے اللہ تیرا شکر ہے جیسے تو نے مجھے یہ (کپڑا) پہنایا ویسے ہی میں تجھ سے اس کی بھلائی اور جس مقصد کے لئے یہ بنایا گیا ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور اس کے شر اور جس مقصد کے لئے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں)(شرح السنۃ للبغوی، کتاب اللباس، باب ما یقول اذا لبس ثوباً جدیداً، ۶ / ۱۷۲، الحدیث: ۳۰۰۵) لباس کی عمدہ تشریح: امام راغب اصفہانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لباس کے لغوی معنیٰ بیان کرتے ہوئے بڑی عمدہ تشریح فرمائی ہے چنانچہ لکھتے ہیں کہ ’’ہر وہ چیز جو انسان کی بری اور ناپسندیدہ چیز کو چھپا لے اسے لباس کہتے ہیں شوہر اپنی بیوی اور بیوی اپنے شوہر کو بری چیزوں سے چھپا لیتی ہے، وہ ایک دوسرے کی پارسائی کی حفاظت کرتے ہیں اور پارسائی کے خلاف چیزوں سے ایک دوسرے کے لئے رکاوٹ ہوتے ہیں اس لئے انہیں ایک دوسرے کا لباس فرمایا ہے: ’’ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ‘‘(البقرہ:۱۸۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان:وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔ لباس سے انسان کی زینت ہوتی ہے، اسی اعتبار سے فرمایا ہے ’’ لِبَاسُ التَّقْوٰى‘‘ (تقویٰ کا معنی ہے برے عقائد اور برے اعمال کو ترک کر دینا اور پاکیزہ سیرت اپنانا، جس طرح کپڑوں کا لباس انسان کو سردی، گرمی اور برسات کے موسموں کی شدت سے محفوظ رکھتا ہے اسی طرح تقویٰ کا لباس انسان کو اُخروی عذاب سے بچاتا ہے۔) (مفردات امام راغب، کتاب اللام، ص۷۳۴-۷۳۵ ملخصاً)
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَاۤ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(36)  ترجمۂ کنز العرفان اورجو ہماری آیتیں جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلے میں تکبر کریں گے تو یہ لوگ جہنمی ہیں ، اس میں ہمیشہ رہیں گے۔  تفسیر صراط الجنان { وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا:اور آیات کے مقابلے میں تکبر کریں گے۔} آیات کے مقابلے میں تکبر کا معنی ہے انہیں تسلیم نہ کرنا۔ تکبر کی بہت بڑی قباحت: اس سے معلوم ہو اکہ تکبر کی بہت بڑی قباحت یہ ہے کہ آدمی جب تکبر کا شکار ہوتا ہے تو نصیحت قبول کرنا اس کیلئے مشکل ہوجاتا ہے ،چنانچہ قرآنِ پاک میں ایک جگہ منافق کے بارے میں فرمایا گیا: ’’ وَ اِذَا قِیْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُؕ-وَ لَبِئْسَ الْمِهَادُ ‘‘(بقرہ:۲۰۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو اسے ضد مزید گناہ پر ابھارتی ہے توایسے کو جہنم کافی ہے اور وہ ضرور بہت برا ٹھکاناہے۔ اور حدیثِ مبارک میں ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننا تکبر ہے (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص۶۰، الحدیث: ۱۴۷(۹۱))۔[1] [1]…تکبر کی مزید قباحتیں جاننے کے لئے کتاب’’تکبر‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ فرمائیں۔
@abdullask007 Жыл бұрын
who darood konsi hai bolo hazrat hamare nabi pak par padhe
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْهَاۤ اٰبَآءَنَا وَ اللّٰهُ اَمَرَنَا بِهَاؕ-قُلْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِؕ-اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(28)  ترجمۂ کنز العرفان اور جب کوئی بے حیائی کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کواسی پر پایا تھا اوراللہ نے (بھی) ہمیں اسی کا حکم دیا ہے۔ (اے حبیب!) تم فرماؤ: بیشک اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔ کیا تم اللہ پر وہ بات کہتے ہو جس کی تمہیں خبر نہیں؟  تفسیر صراط الجنان { وَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً:اور جب کوئی بے حیائی کریں۔} ’’فَاحِشَةً‘‘یعنی بے حیائی کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت مجاہد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم فرماتے ہیں : اس سے مراد زمانۂ جاہلیت کے مرد و عورت کا ننگے ہو کر کعبہ معظمہ کا طواف کرنا ہے۔ حضرت عطاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ بے حیائی سے مراد شرک ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہر قبیح فعل اور تمام صغیرہ کبیرہ گناہ اس میں داخل ہیں اگرچہ یہ آیت خاص ننگے ہو کر طواف کرنے کے بارے میں آئی ہے۔ جب کفار کی ایسی بے حیائی کے کاموں پر اُن کی مذمت کی گئی تو اس پر اُنہوں نے اپنے قبیح افعال کے دو عذر بیان کئے، ایک تویہ کہ ُانہوں نے اپنے باپ دادا کو یہی فعل کرتے پایا لہٰذا اُن کی اتباع میں یہ بھی کرتے ہیں۔ اس عذر کا بار بار قرآن میں رد کردیا گیا کہ یہ اتباع تو جاہل وبدکار کی اتباع ہوئی اور یہ کسی صاحبِ عقل کے نزدیک جائز نہیں۔ اتباع تو اہلِ علم و تقویٰ کی کی جاتی ہے نہ کہ جاہل گمراہ کی۔ ان کادُوسرا عذر یہ تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں ان افعال کا حکم دیا ہے۔ یہ محض افتراء و بہتان تھا چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کارد فرماتا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم جواب میں فرماؤ: بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔ کیا تم اللہ عَزَّوَجَلَّ پر وہ بات کہتے ہو جس کی تمہیں خبر نہیں ؟ ‘‘اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بے حیائی کا نہیں بلکہ ان چیزوں کا حکم دیا ہے جو بعد والی آیت میں مذکور ہیں۔
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ النَّارِ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُؕ-قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكٰفِرِیْنَ(50)  ترجمۂ کنز العرفان اورجہنمی جنتیوں کو پکاریں گے کہ ہمیں کچھ پانی دیدو یا اس رزق سے کچھ دیدو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔ جنتی کہیں گے: بیشک اللہ نے یہ دونوں چیزیں کافروں پر حرام کردی ہیں۔  تفسیر صراط الجنان { وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ النَّارِ:اورجہنمی پکاریں گے۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ جب اعراف والے جنت میں چلے جائیں گے تو دوزخیوں کو بھی کچھ لالچ ہوگی اور وہ عرض کریں گے :یارب! جنت میں ہمارے رشتہ دار ہیں ، ہمیں اجازت عطا فرما کہ ہم اُنہیں دیکھ سکیں اور ان سے بات کرسکیں۔چنانچہ انہیں اجازت دی جائے گی تو وہ اپنے رشتہ داروں کو جنت کی نعمتوں میں دیکھیں گے اور پہچانیں گے، لیکن اہلِ جنت ان دوزخی رشتہ داروں کو نہ پہچانیں گے کیونکہ دوزخیوں کے منہ کالے ہوں گے، صورتیں بگڑ گئی ہوں گی، توو ہ جنتیوں کو نام لے لے کر پکاریں گے، کوئی اپنے باپ کو پکارے گا، کوئی بھائی کو اورکہے گا ،ہائے میں جل گیا مجھ پر پانی ڈالو اور تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جو رزق دیا ہے ان نعمتوں میں سے کھانے کو دو۔ ان کی پکار سن کر جنتی کہیں گے: بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ دونوں چیزیں کافروں پر حرام کردی ہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۵۰، ۲ / ۹۸) جنتی مومن کو جہنمی کافر سے نہ محبت ہو گی نہ اسے اس پر رحم آئے گا: اس آیت سے معلوم ہوا کہ جنتی مومن کو دوزخی کافر سے بالکل محبت نہ ہو گی اور نہ ہی اس پر رحم آئے گا اگرچہ اس کا سگا باپ یا بیٹا یابہترین دوست ہو ،وہ اس کے مانگنے پر بھی اُدھر کچھ نہ پھینکے گا ۔ خیال رہے کہ یہاں حرام سے مراد شرعی حرام نہیں کیونکہ وہاں شرعی احکام جاری نہ ہوں گے بلکہ مراد کامل محرومی ہے۔ نیز جنتیوں کا جہنمیوں کی مدد نہ کرنا کافر جہنمیوں کے متعلق ہے ورنہ جہنم کے مستحق مسلمانوں میں سے بہت سے گناہگاروں کونیک رشتے داروں کی شفاعت نصیب ہوگی جیسے حافظ ِ قرآن کے بارے میں حدیث میں تصریح ہے۔
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(8)  ترجمۂ کنز العرفان اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔  تفسیر صراط الجنان { وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّ:اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے۔} اس سے پہلی آیت میں قیامت کے دن کا ایک حال بیان ہوا کہ اس دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی امتوں سے سوال کیا جائے گا، اور اس آیت میں قیامت کے دن کا دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔ وزن اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ۹ / ۳۶۱) جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۷۸) قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورتیں : قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں ، ایک یہ ہے کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں اجسام پیدا فرما دے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے ۔ دوسری صورت یہ کہ نیک اعمال حسین جسموں کی صورت میں کر دئیے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دئیے جائیں گے اور ان کا وزن کیا جائے گا۔ تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نفسِ اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گابلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۵ / ۲۰۲، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۷۸، ملتقطاً) حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن میزان رکھا جائے گا اگر اس میں آسمانوں اور زمینوں کو رکھا جائے تو وہ اس کی بھی گنجائش رکھتا ہے۔ فرشتے کہیں گے:یااللہ!عَزَّوَجَلَّ، اس میں کس کو وزن کیا جائے گا؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: میں اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہوں گا۔ فرشتے عرض کریں گے: تو پاک ہے، ہم تیری اس طرح عبادت نہیں کر سکے جوتیری عبادت کا حق ہے۔ (مستدرک، کتاب الاہوال، ذکر وسعۃ المیزان، ۵ / ۸۰۷، الحدیث: ۸۷۷۸) حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’ ’نیکیوں اور برائیوں کا میزان میں وزن کیا جائے گا، اس میزان کی ایک ڈنڈی اور دو پلڑے ہیں۔ مومن کا عمل حسین صورت میں آئے گا اور ا س کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری ہوگا۔ (شعب الایمان، الثامن من شعب الایمان ۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۶۰، الحدیث: ۲۸۱) میزان سے متعلق دو اہم باتیں : یہاں میزان کے بارے میں دو اہم باتیں ذہن نشین رکھیں : (1)…صحیح اور متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہتر جانتے ہیں۔ (2)…میزان کو اس معروف ترازو میں مُنْحَصر سمجھ لینا درست نہیں ، اس دنیا میں ہی دیکھ لیں کہ مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے ترازو جدا جدا ہیں ، جب اس دنیا میں مختلف قسم کے ترازو ہیں جن سے نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی چیزوں کا وزن اور درجے کا فرق معلوم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قادرِ مُطْلَق ہے، اس کیلئے کیا مشکل ہے کہ وہ قیامت کے دن ایک ایسا حسی اور مقداری میزان قائم فرما دے جس سے بندوں کے اعمال کا وزن، درجات اور مراتب کا فرق ظاہر ہو جائے۔ میزانِ عمل کو بھرنے والے اعمال: اس آیت میں قیامت کے دن میزان میں اعمال تولے جانے کا ذکر ہوا ،ا س مناسبت سے ہم یہاں چند ایسے اعمال ذکر کرتے ہیں جو میزانِ عمل کو بھر دیتے ہیں ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دو لفظ زبان پر آسان ہیں ، میزان میں بھاری ہیں اور رحمٰن کو محبوب ہیں (وہ دو لفظ یہ ہیں ) سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ۔‘‘ (بخاری، کتاب الدعوات، باب فضل التسبیح، ۴ / ۲۲۰، الحدیث: ۶۴۰۶) حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ میزان کو بھر دیتا ہے۔ (مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضوء، ص۱۴۰، الحدیث: ۱(۲۲۳)) حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تمام آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان اوران کے نیچے ہے، یہ سب اگر تم لے کر آؤ اور اسے میزان کے ایک پلڑے میں رکھ دو اور کلمہ شہادت کو دوسرے پلڑے میں تو وہ پہلے پلڑے سے بھاری ہو گا۔ (معجم الکبیر، ۱۲ / ۱۹۶، الحدیث: ۱۳۰۲۴) حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اچھے اخلاق سے زیادہ میزان میں کوئی چیز بھاری نہیں ہے۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی حسن الخلق، ۴ / ۳۳۲، الحدیث: ۴۷۹۹)
@imranali-kn6mv7 ай бұрын
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَاؕ-قَالَ اَوَ لَوْ كُنَّا كٰرِهِیْنَﭦ(88)  ترجمۂ کنز العرفان اس کی قوم کے متکبر سردار کہنے لگے: اے شعیب ! ہم ضرور تمہیں اور تمہارے ساتھ والے مسلمانوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے یا تم ہمارے دین میں اجاؤ۔ فرمایا: کیا اگرچہ ہم بیزار ہوں  تفسیر صراط الجنان { قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ:اس کی قوم کے مُتکبر سردار کہنے لگے۔} اس سے پہلی آیات میں حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اپنی قوم کو کیے گئے وعظ و نصیحت کا بیان ہوا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وعظ و نصیحت سن کر آپ کی قوم کے وہ سردار جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے اور پیروی کرنے سے تکبر کیا تھا ،ان کے جواب کا ذکر اس آیت میں فرمایا گیا ہے، چنانچہ فرمایا گیا کہ’’ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے متکبر سردار اُن کی نصیحتیں سن کر کہنے لگے : اے شعیب ! ہم قسم کھاتے ہیں کہ ہم ضرور تمہیں اور تمہارے ساتھ ایمان والوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے، یعنی اصل مقصود تو آپ کونکالنا ہے اور آپ کی وجہ سے آپ کے مومن ساتھیوں کو بھی نکال دیں گے۔(ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۸، ۲ / ۲۷۲) قوم کی ہلاکت کا باعث ا س کے رہنما: حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے سردار وں کی بے ادبی ان کی ہلاکت کا سبب بنی، اس سے معلوم ہوا کہ قوم کے سردار قوم کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں اگر یہ درست ہو جائیں تو قوم کواعلیٰ درجے پر پہنچا دیتے ہیں اور بگڑ جائیں تو ذلت کی گہری کھائیوں میں گرا دیتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلم حکمرانوں اور مسلم رہنماؤں کے اعمال، اخلاق اور کردار کی درستی نے جہاں مسلم عوام کی سیرت و کردار کو بدل کر رکھ دیا وہیں غیر مسلم بھی اس سے بہت متاثر ہوئے اور ان میں سے بہت سے دامنِ اسلام سے وابستہ ہو گئے جبکہ بہت سے اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی سے باز آ گئے اسی طرح جب مسلم حکمرانوں اور مسلم رہنماؤں کے اعمال، اخلاق اور کردار میں بگاڑ پیدا ہوا اور وہ عیش و طَرب اور لَہو ولَعب کی زندگی گزارنے میں مشغول ہو گئے تو مسلم عوام کی عملی اور اخلاقی حالت ا س قدر گر گئی کہ ہنو د ویہود تک ان کا حال دیکھ کر شرما گئے اوراسی وجہ سے کفار کے دلوں سے مسلمانوں کا خوف اور دبدبہ جاتا رہا اور وہ ایک ایک کر کے مسلمانوں کے مفتوحہ علاقوں پر قابض ہوتے چلے گئے اور آج مسلمانوں کا حا ل یہ ہے کہ وہ پچاس سے زائد ممالک میں تقسیم ہیں اور دنیا کے انتہائی قیمتی ترین وسائل کے مالک ہونے کے باوجود کفار کے قبضے میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ { اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا:یا تم ہمارے دین میں آجا ؤ۔} اس کا لفظی معنی یہ بنتا ہے کہ ’’یا تم ہمارے دین میں لوٹ آؤ‘‘ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مَعَاذَاللہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پہلے ان کے دین میں داخل تھے تبھی تو انہوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو واپس لوٹ آنے کی دعوت دی ،مفسرین نے اس اشکال کے چند جوابات دئیے ہیں ، ان میں سے 3درج ذیل ہیں : (1)…حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے والے چونکہ پہلے کافر تھے تو جب آپ کی قوم نے آپ کی پیروی کرنے والوں کو مخاطب کیا تو اس خطاب میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی شامل کر کے آپ پر بھی وہی حکم جاری کر دیا حالانکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تو ان کے دین میں کبھی داخل ہی نہ ہوئے تھے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۸، ۲ / ۱۱۹) (2)…کافر سرداروں نے عوام کو شک و شبہ میں ڈالنے کیلئے اس طرح کلام کیا تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پہلے ان کے دین و مذہب پر ہی تھے ۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں جو جواب دیا کہ ’’کیا اگرچہ ہم بیزار ہوں ‘‘ یہ ان کے اس اِشتِباہ کے رد میں تھا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۸، ۵ / ۳۱۶) (3)…حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کفر و شرک سے تو قطعاً دور و نُفور تھے لیکن ابتداء میں چھپ کر عبادت وغیرہ کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کادین قوم پر ظاہر نہ تھا جس سے انہوں نے یہ سمجھا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے دین پر ہیں۔