چمن کی رنگوبو نے کسقدر دیے ھیں دوکھے مجھ کو کہ میں نے شوق گل بوسی میں کانٹوں پہ زبان رکھ دی وصل کی شب میرے اشکو کواس طرح روکا اس نے۔ گلے میں ڈالکر بانہیں میرے منہ میں زبان رکھدی نہ اب در غربال نہ صبر دردل عاشق۔ چھلنی میں پانی نہیں ٹہر سکتااور عاشق کے دل کو صبر نہیں ا سکتا عطار ہو رومی ہو کہ راضی۔ کچھ ہاتھ نہیں اتا ہے اہ سحر گاہی۔ دوعالم سے کرتی ہے ںیگانہ دل کو عجب چیز ہے لزت اشنائی